حوزہ نیوز ایجنسی | ہمارا دین اللہ کا پسندیدہ دین ہے جو میدان غدیر میں امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔آیت نازل ہوئی کہ ہم نے آج دین کامل اور نعمتیں تمام کر دی۔ تکمیل دین کے ساتھ ساتھ اتمام نعمت کا مژدہ در اصل اعلان تھا کہ آج ہم نے آپ کی امت پر نعمتیں تمام کردیں اور انہیں اپنی نعمتوں کا آخری وارث بنا دیا ہے۔ اب امت مسلمہ کو کسی نعمت کے لئے اغیار کے در پر جانا نہیں پڑے گا۔ آج خدائے رحیم و کریم نے اپنے محبوب نبیؐ کی محبوب امت کے لئے ساری نعمتوں کو تمام کر دیا ہے۔علم و حکمت،بے نظیر نظام حیات، معاشرت کے بہترین اصول،سیاست و حکومت کے عمدہ قوانین،روحانیت و معنویت۔ غرض کسی بھی نعمت سے امت کو محروم نہیں رکھا۔
مگر افسوس ہماری بد عملی اور قرآن و اہلبیت علیھم السلام کی تعلیمات سے دوری نے ہمیں کہیں نہ چھوڑا۔ اس وقت قوم کی حالت یہ ہے کہ ہمارا تعلق دین اور دینی تعلیمات سے بس کچھ رسموں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ہم نے طے کر لیا ہے کہ ہم سب کچھ کریں گے بس وہ نہیں کریں گے جو دین ہم سے چاہتا ہے۔ اللہ نے ہمیں بہترین اصول زندگی عطا کئے،بے نظیر کلچر اور ثقافت سے نوازا مگر ہم اپنی مالا مال تہذیب سے بیزار مغربی تہذیب کو گلے لگانے کو تیار ہے۔مغرب سے درآمد شدہ رسمو ں کو ہم خود اہل مغرب سے زیادہ شوق و زوق کے ساتھ انجام دینے کی ہوڑ میں لگے ہیں۔ اس ڈر سے کہ کہیں ہمیں کلچرل پسماندہ نہ کہہ دیا جائے۔برتھ ڈے کے نام پر کیک کاٹنا اور مع دیگر لوازمات یہ کونسا اسلامی کلچر ہے؟ مغربی تہذیب سے مرعوبیت ہی تو ہے۔اور تو اور اب تو ہم نے اسے معصومین علیھم السلام کے نام پر بھی انجام دینا شروع کر دیا۔ سننے میں آ رہا ہے کہ محفلوں میں امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے یوم ولادت کی مناسبت سے کیک کاٹے جا رہے ہیں۔اسی طرح ماہ محرم میں کلاوے پہننا،نوروز کے نام پر رنگ کھیلنا کیا صریحاً ہندو تہذیب کی تقلید نہیں ہے؟۔
معصومین ؑ سے منقول ایسی ایسی عظیم دعائیں اور اذکار و اوراد موجود ہیں۔مگر ہم انہیں چھوڑ کر تعویذ گنڈوں کے لئے غیر شیعہ مسلم تو دور غیر مسلموں تک کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔یہ کونسا اسلام ہے؟۔کیا اللہ پر توکل اور معصومین ؑ سے توسل پر بھروسا نہیں ہے؟۔
اللہ نے ہمیں قرآن،نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ جیسے علمی خزانے عطا کئے ہیں۔مگر ہم قرآن پڑھنے پر تیار نہ نہج البلاغہ سمجھنے پر آمادہ ۔اس کے بجائے ہم اوشو ،ڈیل کارنیگی جیسے غیر مسلم دانشوروں کے سامنے دست ادب جوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں کہ صاحب ہمیں گیان دے دو۔ہم دیگر اقوام و مذاہب کے دانشوروں سے علمی استفادہ کے مخالف نہیں ہیں کہ ہمارے مولا نے فرمایا علم حاصل کرو چاہے منافق سے ملے لیکن اپنے علمی خزانوں کو پس پشت ڈا ل کر اغیار کے پاس علم لینے جانا احساس کمتری ہے جسے کسی طرح درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اب آئیے نوجوانوں کی بات کر لیجئے! اسلام نے ہمیں انبیاء، ائمہ، ان کے اصحاب با وفا اور اکابر علما عطا کئے ہیں جن سے بہتر آئیڈیل دنیا پیش نہیں کر سکتی ۔انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کو تو جانے دیجئے کہ وہ معصوم ہستیاں ہیں ان کے اصحاب اور شاگر اور ان کے خرمن علم سے فیضیاب ہو کر آسمان علم پر ضو فشاں علما وہ تابندہ ستارے ہیں جن کی نظیر کسی اور مذہب یا تہذیب میں نہیں مل سکتی مگر افسوس ہمارے نوجوانوں کو آئیڈیل کے نام پر یا تو کوئی کرکٹر ملتا ہے یا فلم اداکار۔کوئی سچن جیسا بننا چاہتا ہے تو کوئی ایم ایس دھونی جیسا۔کوئی شاہرخ خان جیسا بننا چاہتا ہےتو کوئی سلمان خان جیسا ۔شاید ہی کوئی جوان ہو جو یہ کہتا ہوا ملے کہ ہمیں مولا علی ؑ کے غلام میثم تمار یا قنبر جیسا بننا ہے۔ظاہر ہے جسے انسان اپنا آدرش مانتا ہے اس کی شخصیت کا عکس انسان کی شخصیت پر پڑنا لازمی ہے۔اب کرکٹرز ہوں یا فلمی ایکٹرز یہ سب مادہ پرست طرز زندگی کے حامل اور مغربی تہذیب کو برتر ماننے والے لوگ ہیں۔انہیں آدرش ماننے والے ہمارے جوان بھی اگر الحاد و مادہ پرستی اور بے حیائی و بے غیرتی کو اپنا لے تو جائے تعجب نہیں۔یہ والدین اور ارباب قوم کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
ان سب باتوں کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ صاحب قوم بے خبر بے عمل نہیں۔ میں کہتا ہوں ایسی بھی کیا بے خبری! دین کے بنیادی واجبات کا علم کسے نہیں ہے؟َ کون نہیں جانتا کہ نماز واجب نہیں ہے پھر ایک بڑی تعداد خاص طور سے جوان نمازوں سے غافل کیوں ہے؟۔کون نہیں جانتا ماہ مبارک روزوں کا مہینہ ہے پھر بہت سے لوگ روزے کیوں نہیں رکھتے؟کون نہیں جانتا خمس و زکات واجب ہے! اس کے باوجود کتنے لوگ ہیں جو ان واجبات کو ادا کر رہے ہیں ؟کون نہیں جانتا جھوٹ اور غیبت حرام ہے،چغل کھاکے دو لوگوں اور دو خاندانوں کو لڑانا گناہ کبیرہ ہے۔پھر بھی کیوں ہمارا پورا پورا دن غبت،جھوٹ اور ایک دوسرے کی برائی میں گزر جاتا ہے۔
جس وقت بانی تنظیم نے ادارہ تنظیم المکاتب کی بنیاد رکھی تھی اس وقت بے عملی نہیں بے خبری کی بات درست ہو سکتی تھی مگر آج انفارمیشن انقلاب کے اس دور میں بے خبری کا عذر خود سب سے بڑی بے عملی ہے۔ مسئلہ بے خبری کا نہیں ایمان کی کمزوری اور بے عملی و بد عملی کا ہے۔لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ قوم و ملت کے ارباب حل و عقد سر جوڑ کر بیٹھیں اور قوم کی مسلسل زوال پزیر اخلاقی اور ثقافتی اور دینی حالت کے بارے میں غور کریں اور اور اس کے بروقت سد باب کے لئے راہ حل تلاش کریں۔ قوم کا ایمان مضبوط کرنے اور انہیں عمل کی ترغیب دلانے کا کوئی جامع لائحہ عمل تیار کریں ۔بصورت دیگر وقت کے امام کو جواب دینا مشکل ہو جائے گا۔
آخر میں خدا سے دعا ہے کہ پروردگار ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرما ! ہماری قوم خاص طور سے جوانوں کو ایمان پر ثابت قدم رکھ انہیں عمل کی توفیق عطا فرما!