تحریر: مولانا جاوید حیدر زیدی زیدپوری
حوزہ نیوز ایجنسی। نوجوان ہر قوم و ملت کا پیش قیمتی گوہر اور سرمایہ ہوتا ہیں، سماج اور معاشرے میں نوجوانوں کا رول انتہائی اہم ہوتا ہے، اپنے معاشرے کا مغز ہوتے ہیں۔ اپنے سماج کا آئینہ ہوتے ہیں، اور سوسائٹی کا عظیم اثاثہ ہوتے ہیں۔ معاشرے کی نشونما، معاشرے کی بقاء و صلاح و فلاح اور اس کا مستقبل انہیں کے دامن سے وابستہ ہوتا ہے۔ نوجوان ايك اچھے اور طاقتور معاشرے کے معمار بھی بن سکتے ہیں اور اس کو مسمار بھی کرسکتے ہیں۔ اگر نوجوان کا ذہن گمراہ ہوگیا تو سارا معاشرہ گمراہ ہوجائے گا۔ اگر نوجوان کا ذہن روشن نہ ہوا تو معاشرے کا دماغ کبھی روشن نہ ہوسکے گا۔ اگر نوجوان کا کردار غلط ہوا تو قوم کا کردار بھی صحیح نہیں ہوسکتا، معاشرے کی ذہنی نشونما اور فکری ارتقاء کا دارومدار نوجوانوں پر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان ایسا کیا کرے جسے پورے معاشرے کو فخر ہو، تو اسکا مختصر اور مکمل جواب "علم" ہے جب سماج اور معاشرے کا جوان علم کے زیورات سے آراستہ ہوے گا تو وہ ایک سنجیدہ، باشعور، بیدار اور خوشگوار معاشرے کی تعمیر کر سکتا ہے ۔ اب یہاں پر ایک سوال اور ہمارے قارئین کے اذہان میں آرہا ہوے گا کہ "کیا ہر صاحبِ علم سماج اور معاشرے کا معمار ہو سکتا ہے"؟ تو آپ کے سوال کا جواب ہے نہیں؛ ہر علم معاشرے، سماج کے کام نہیں آتا بلکہ یہ کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہوے گا کہ ہر صاحبِ علم کے بھی علم کام نہیں آتا۔
جی ہاں آپ نے درست پڑھا آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ ایسے علم کا کیا فائدہ جسکے بعد ادب نہ ہو، عمل نہ ہو، تہذیب نہ ہو، کردار نہ ہو، بزرگوں کا احترام نہ ہو، انکساری نہ ہو، یاد رکھئے کہ حقیقی صاحبِ علم وہی ہے کہ جو اپنے زیورِ علم کی وجہ سے شانہ چھوکا کر چلتا ہو، انکساری (احترام میں شانہ چھوکانہ) عیب نہیں ہے بلکہ عینِ علم ہے۔
صاحبِ علم ایک درخت کے مانند ہے اور علم اسکا پھل ہے، اور جو درخت پھل دار ہوتے ہیں وہ ہمیشہ چھوکے رہتے ہیں ۔ آج ترقی یافتہ زمانہ میں علم تو بڑھتا جا رہا ہے لیکن ادب و احترام، تہذیب و تمدن، اخلاق و کردار، نظم و ضبط، کا گراف تیزی سے گرتا جا رہا ہے ۔ "کیا یہی علم ہے؟ کیا اسی علم سے ہمارا معاشرہ ترقی کرے گا؟" نہیں اسکو کہنے کو تو ہم علم کہسکتے ہیں مگر در اصل یہ ویسا ہی ہے جیسے مردہ کہ جو اب نہ خود اپنے کسی کام کا رہا اور نہ زمانہ کے کوئی کام آسکتا ہے، صاحبِ علم بھی تربیت و تہذیب کے بغیر ایک مردہ کے مانند ہے کہ جو نہ خود ترقی کرسکتا ہے، اور نہ اپنے سماج و معاشرہ کو سربلند کر سکتا ہے۔ لہذا جوانانِ عزیز سے درخواست ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ روحِ علم یعنی اخلاق و کردار، تہذیب و ادب کے دامن کو بھی مضبوطی سے تھامیں رہیں، اور بزرگوں احترام کرنا کبھی فراموش نہ کریں کیونکہ آج آپ جس بلندی پر ہیں وہ آپ کے بزرگوں کی پرورش کا ہی نتیجہ ہے۔
گھر کے بڑے بزرگ ہمیشہ اپنے چھوٹوں کو اچھی سے اچھی تربیت دیتے ہیں بس اسکے اجر میں وہ ہم سے یہی چاہتے ہیں کہ یہ بڑا ہو کر خانوادہ کا نام روشن کرے اور سماج میں سربلندی کے ساتھ زندگی گزارے۔
جس طرح ہم سب کا خالق جس نے ہمیں اور آپ کو اور پوری دنیا کو پیدا وہ جب اپنی نعمتوں کو نازل کرتا ہے تو سب کو برابر دیتا ہے، بشمار اس کی نعمتوں ہیں جیسے سورج، چاند، ہوا، پانی، بارش آپ ان میں سے کسی بھی نعمت پر غور وفکر کریں مثال کے طور پر سورج کو ہی لے لیجیے جب اللہ سورج کو طلوع کرتا ہے تو روشنی سب کو برابر دیتا ہے بلا کی فرق کے، اب یہ روشنی حاصل کرنے والے کے اوپر ہے یعنی ہم پر کہ ہم اسے کتنا فائدہ حاصل کرتے ہیں، کوئی اپنے گھر کو مکمل بند کرلے روش دان پر موٹے موٹے پردے ڈال دے اور پھر وہ کہے کہ میرے گھر روشنی نہیں آئی تو لوگ اسکا مذاق اڑانیں گے۔ بس یہی مسئلہ ہم نوجوانوں کے ساتھ بھی ہے کہ ہمارے گھر کے بڑے بزرگ ہم کو بہتر سے بہتر تربیت دیتے ہیں لیکن کوتاہی ہماری ہی طرف سے ہوجاتی ہے ہم اس کو حاصل نہیں کرتے جو حق ہے حاصل کرنے کا۔ اس وقت ہمارے وجود کے اوپر لاشعوری، نادانی، عدم بیداری، اور سماج اور اپنے آس پاس کے آلودہ ماحول کا موٹا پردہ پڑا ہوتا ہے جس کے سبب سے ہم بزرگوں سے صحیح معنوں میں کسب فیض نہیں کر پاتے۔ جس کا اندازہ ہمیں وقت نکلے کے بعد ہوتا ہے۔ اور تب کفِ افسوس ملنے سے کوئی فائدہ نہیں۔