تحریر: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی، مدیر ساغر علم دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی। بیت المقدس در حقیقت مسلمانان عالم کا قبلۂ اوّل ہے.جب تک خانۂ کعبہ کو قبلہ قرار نہیں دیا گیا اس وقت تک تمام دنیا کے مسلمان بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز بجا لاتے تھے۔
اس کو زمانہ کی زبوں حالی سے تعبیر کیا جائے یا ستم ظریفی سے یا پھر اس کو گردش زمانہ کہا جائے کہ بیت المقدس کی باگ ڈور کو ایسے ہاتھوں میں دے دیا جن کو نماز سے کوئی سروکار نہیں ہے!۔
ظاہر سی بات ہے جن لوگوں کو نماز سے کوئی مطلب نہیں وہ قبلہ کی عظمت کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں!۔
کاش امت مسلمہ کچھ برس پہلے ایک رہبر کی صدا پر گوش بر آواز ہوگئی ہوتی کہ اگر تمام اسلامی ممالک متحد ہوکر ایک ایک بالٹی پانی بھی ڈال دیں اسرائیل صفحۂ ہستی سے نابود ہوجائے لیکن افسوس امت مسلمہ نے رہبر کی آواز پر لبیک نہیں کہا اور آج طرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کر رہی ہے۔
اگر امت مسلمہ کل امام خمینی کی بات پر کان دھرتی تو آج اس زبوں حالی کا شکار نہ ہوتی جس سے روبرو ہے.
بہرحال تاریخ اسلام میں نہ جانے کتنے مقامات دیکھنے کو ملے جہاں پر رہبر کی مخالفت کی گئی اور نتیجہ میں شکست سے دوچار ہونا پڑا، فلسطین کے معاملہ میں رہبر کی مخالفت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔
جہاں تک بیت المقدس کی بات ہے تو یاد رہے کہ بیت المقدس کل بھی ہمارا تھا اور آج بھی ہمارا ہے ہم اسے ہر حال میں آزاد کرکے رہیں گے صرف رضایت الٰہی کے منتظر ہیں کیونکہ اس کی مرضی کے بغیر ایک پتّا بھی نہیں ہلتا اور بیت المقدس تو اسی کا گھر ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ مالکِ مکان کی اجازت کے بغیر مکان کو آزاد کرنے کی تدبیر کریں!۔
دشمن کی سازش ناکام ہوکر رہے گی اور ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ بیت المقدس میں بھی خانۂ کعبہ کی مانند پوری شان و شوکت کے ساتھ نماز جماعت پڑھی جائے گی۔
اس کی راہ میں قاسم سلیمانی کو شہید کرکے دشمن مطمئن ہوگیا لیکن شاید اسے یہ معلوم نہیں کہ ہماری قوم میں صرف ایک ہی قاسم سلیمانی نہیں تھا بلکہ نہ جانے کتنے قاسم سلیمانی ہیں جو سربکف آمادہ بیٹھے ہوئے ہیں۔
سید مقاومت سید حسن نصرالله نے فرمایا: انشاء الله ہماری موجودہ نسل فلسطین کو آزاد ہوتے ہوئے دیکھے گی۔
سید کی گفتگو میں وہ اعتبار پایا جاتا ہے کہ بیت المقدس کی آزادی چندان دور نہیں ہے اور سید نصراللہ دشمن کو یہ بھی سمجھانا چاہتے ہیں کہ بیت المقدس کے خیال کو اپنے ذہن سے نکال دو کیونکہ بیت المقدس ہمارا ہے اور اسے ہم آزاد کرکے ہی دم لیں گے چاہے اس راہ میں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔
رہبر کبیر امام خمینی علیہ الرحمۃ کی تجویز کے مطابق ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کے عنوان سے صدائے احتجاج بلند کرنا بتارہا ہے کہ ہماری رگوں میں آج بھی غیرت و حمیت کا خون رواں دواں ہے اور ہماری غیرت اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ ہمارا قبلۂ اوّل دشمن کے زیر تسلط رہے۔ ہم اپنی عبادتگاہ کو دشمن کے چنگل سے نکال کر دم لیں گے کیونکہ ہم بیت المقدس کے اور بیت المقدس ہمارا ہے۔