تحریر: سکندر علی بہشتی
حوزہ نیوز ایجنسی। فلسطین انبیاء کی سرزمین، مسلمانوں کا قبلہ اول اور بیت المقدس بھی یہیں واقع ہے یہ ابتداء سے ہی فرزندان توحید کا مرکز رہا ہے اور صدر اسلام سے مسلمانوں کے پاس تھا درمیان میں عیسائیوں نے قبضہ کیا لیکن بعد میں پھر مسلمانوں نے واپس لے لیا،لیکن انیسویں صدی میں یہودیوں اور استعمار کی گٹھ جوڑ سے ایک ناجائز صہیونی حکومت قابض ہوئی۔جن کو دیگر ملکوں سے ہجرت کر کے فلسطین لایاگیاتھا۔ مقامی فلسطینی باشندوں پرظلم وستم کر کے ان کو ملک بدر اور ہزاروں کا قتل عام کیا۔صہیونی حکومت انسانیت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے جس کی تاریخ درندگی،بربریت اور اور ظلم وستم سے پر ہے۔
فلسطین صدر اسلام میں:
بعثت کے ابتدائی سالوں میں بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول تھی پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد خلیفہ اول نے اپنے زمانے میں شام وفلسطین کی طرف فوج بھیجی ان کی وفات کے بعد دوسرے خلیفہ کے زمانے میں شام اور بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں آگئے۔
بیت المقدس پر عیسائیوں کا حملہ:
۱۰۹۵ء سے مسلمانوں پر یورپ کے حملے سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا اور یہ جنگ تقریبا ً دوصدیوں تک جاری رہا پوپ نے جنگ کے آغاز میں فریب سے کام لیا اور بیت المقدس کا طولانی عرصہ تک گھیراو اور سخت جنگ کے بعد صلیبی شہر میں داخل ہوئے اور مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا اس طرح عیسائیوں نے ۹۰ سال تک فلسطین پر حکومت کی،دوسری صلیبی جنگ کے آخری مراحل۱۱۴۹۔۱۱۴۷ء میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس واپس لے لیا۔
عظیم اسرائیل کانظریہ:
انیسویں صدی کے آواخر سے لےکر پہلی جنگ عظیم تک فلسطین بالواسطہ طور پرفلسطین سے باہر تشکیل پانے والی دوتحریکوں کے زیر اثر تھا ایک عرب قوم پرستی کی تحریک جس نے عثمانی خلافت کی عرب ریاستوں میں جنم لیا تھا اور دوسری صہیونی تحریک جو اس زمانہ کی استعماری طاقتوں کی حمایت میں کام کر رہی تھی۔۱۸۸۶ء میں ایک یہودی کالم نگار تھیوڈ ہرزل نے ایک یہودی مملکت کے نام پر کتاب شائع کی جس میں ہرزل نے کہا کہ یہودیوں کو مستقل طور پر ایک اپنا وطن اور صہیونی حکومت تشکیل دینا چاہئے،اس کے لئے ہندوستان،ارجنٹائنا،قبرص اور کچھ دوسرے مقامات زیر نظر لایا گیا اور آخر میں فلسطین کو بنی اسرائیل کے قدیم وطن کے طور پر منتخب کیا گیا۔صہیونی تحریک کا سب سے پہلا اجتماع سوئزر لینڈ کے شہر بازل میں تشکیل پایا اور اس کانگریس نے اپنے آباواجداد کی سرزمین بظاہرفلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت کی تحریک کو صادر کیا۔ اس کے ساتھ ہی یہودی ریاست کے قیام کے لئے سیاسی،مالی اور عملی اقدامات کے لئے اور بہت سی کانفرنسیں بھی منعقد ہوئیں اس ریاست کے قیام کے لئے مذہبی وقومی جذبات کو بھڑکایا گیا۔
برطانیہ کی سازش:
برطانیہ اس دور میں عثمانی حکومت کا حامی تھامگر فلسطین میں کچھ ہنگامے ہوئے جس کی بنا پر برطانیہ نے اپنی سیاست بدل کر عثمانی حکومت کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور شورش کرنے والوں کی حمایت کی،اس سلسلے میں مکہ کے امیر شریف حسین جو حجاز میں عثمانی حکومت کا نمائندہ اور جاہ طلب انسان تھا کو تحریک کیا اور اس نے برطانیہ کی حمایت سے عثمانی حکومت سے علٰحیدگی اختیار کی اور برطانیہ سے اپنی حکومت کا دائرہ اس سرزمین تک چاہا جس میں فلسطین کا علاقہ بھی شامل تھا،برطانیہ نے دورخی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اس خواہش پر اقرار وانکار کا ایسا پیرایہ اختیار کیا کہ فلسطین کا مستقبل نامشخص ہو کر رہ گیا اور ۱۹۱۶ء میں برطانیہ وفرانس کے معاہدے میں فلسطین پر بین الاقوامی حکومت کو تسلیم کیا گیا۔
بالفور معاہدہ:
۱۹۱۸ء، میں برطانیہ کی وزارت خارجہ نے آرتھر جیمس کی نگرانی میں بالفور قرارداد جاری کیا جس میں ایک عظیم یہودی حکومت کے قیام میں برطانیہ کی پشت پناہی کا اعلان کیا گیا، اس سلسلہ میں اس وقت برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز نے لارڈ را سچلڈ کو ایک خط لکھا ا س اعلان میں کہاگیا۔
’’ ہزیجٹی کی حکومت یہودی عوام کے لئے فلسطین میں قومی وطن کے قیام کی حامی ہے اس مقصد کے لئے تمام کو ششیں بروائے کار لائی جائیںگی‘‘
بالفور قرارداد کے دوماہ بعد برطانیہ کے جنرل ایلن بی نے عثمانی ترکوں کو شکست دے کر پورے جنوبی فلسطین کو اپنے قبضے میں لے لیاآخر کار عثمانیوں نے جنگ بندی کر کے صلح کا مطالبہ کیا، اور صلح کے نتیجہ میں برطانیہ نے فلسطین اپنے قبضے میں لے لیا۔
اسرائیل کا قیام:
دوسری عالمی جنگ کے بعد جب صہیونی سیاست دانوں نے امریکہ کی روزبروز بڑھتی ہوئی طاقت کا مشاہدہ کیا تو خود کو ان سے نزدیک کر لیا ،برطانیہ نے بھی اعلان کیا کہ اقوام متحدہ کے حکم کے مطابق فلسطینی سرزمین خالی کر کے ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کے حوالے کردے گا،برطانیہ نے فلسطین سے نکلتے وقت فوجی سازوسامان اور جدید اسلحہ یہودیوں کے اختیار میں دے دیا،اس طرح یہودیوں کی طرف سے فلسطینیوں کے قتل عام کا آغاز ہوا اور ایک حملے میں دیر یاسین کے ۲۵۰ باشندوں کے سر تن سے جدا کئے گئے۔اور ہزاروں بے گھر ہوگئے،فلسطینی عوام کو خوفزدہ کرنے اور انہیں فرار پر مجبور کرنے کے لئے دردناک مظالم اور سفاک قدم اٹھائے گئے،اس غیر انسانی برتاؤ کی وجہ سے دس لاکھ سے زیادہ فلسطینی پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہوگئے برطانیہ کے فلسطین سے نکلتے ہی یہودیوں نے ایک مستقل اسرائیلی حکومت کااعلان کردیا۔اس کے بعد ۱۹۶۷ء میں شام ،اردن اور مصر کے علاقوں پر بھی قبضہ کیا گیا۔
اسرائیل کے لئے امریکی حمایت:
امریکہ اسرائیل کی مسلسل حمایت کررہاتھا امریکی صدر فرینکلین ڈی روز ویلٹ نے اپنے نمائندوں کے ذریعے ظاہر کردیا کہ وہ برطانیہ کے قرطاس ابیض کا مخالف ہے ۔اس سلسلے میں اس کا ایک بیان جاری ہو ا جس میں کہا گیا ’’ہم فلسطین میں یہودیوں کی بلا روک ٹوک نقل مکانی کے لئے دروزے کھلے رکھنے کے حامی ہیں اور ہم آزاد اور جمہوری یہودی دولت مشترکہ کے قیام کے حامی ہیں۔‘‘
عرب اسرائیل جنگ اور عربوں کی شکست:
۵ جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے عرب ممالک مصر،شام اور اردن کے ہوائی اڈوں پر اچانک حملہ کردیا،اسرائیل نے اردن کے دریا کے مغربی کنارے،شام کی سرحد میں جولان کی پہاڑیوں اور مصر کے صحرائے سینہ پر قبض کر لیا یہ جنگ اسرائیل اور عربوں کے درمیان چھ روز جاری رہی یہ جنگ عربوں کی شکست پر منتج ہوا۔
فلسطینیوں کی مزاحمت کا آغاز:
انقلاب فلسطین کی تاریخ کا اہم موڑ عرب ،اسرائیل تعلقات کا نقطہ آغاز کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہے۔جس میں مصر نے امریکی صدر جیمی کارٹر اور اسرائیلی وزیر اعظم مناخیم بگین کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر غاصب اسرائیل کی حکومت کو تسلیم کیا اور عربوں کے درمیان شگاف کا باعث بنی۔اگرچہ سابقہ واقعات اور کیمپ ڈیوڈ کی خیانت سے عربوں اور مسلمانوں میں شدید ردعمل اور ناامیدی کے آثار پائے جاتے تھے لیکن ۱۹۷۹، میں اسلامی نقلاب کی کامیابی کے اور علاقے میں شاہ کی حکومت کی نابودی کی وجہ سے صہیونیوں کے خلاف جہاد میں نئی روح پڑ گئی اور لبنان وفلسطین میں عجیب سی خوشی کی لہر ڈور گئی،خاص طور پر اس وجہ سے کہ ’’آج ایران،کل فلسطین‘‘کا نعرہ اسلامی نقلاب کے نعروں میں سرفہرست تھا۔
انتفاضہ:
فلسطینی انقلابی احزاب،انجمن جہاد اسلامی اور حماس نے فلسطینی عوام کو قیام کی دعوت دی جس کا سلسلہ ۱۹۸۷ء سے شروع ہوا اس عوامی قیام کے اچھے اور مفید نتائج بر آمد ہوئے،اس قیام کا اصلی مرکز مسجدیں تھیں اگرچہ عوامی انقلاب اسرائیل نامی ملک بنتے ہی شروع ہوا لیکن اس میں عملی جدوجہد کی روح انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد شروع ہوئی۔
مفاہمت یامزاحمت:
اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کی بنیاد ۱۹۹۱ء میں میڈرڈ کانفرنس نے رکھی اس کانفرنس کاخیال تھا کہ مشرق وسطی میں پائیدار امن عربوں اور اسرائیل کے درمیان مذکرات سے ہی ممکن ہے اس منصوبہ کے تحت فلسطین اور عرب کی سطح پر اسرائیلی ریاست کو قانونی جواز پیدا کرنا اور آزاد خودمختار ریاست بنا ناتھا،امن کے نام پر مفاہمت کی باتیں دھوکہ اور فریب تھابلکہ اس کے پس پردہ میں جارحانہ عزائم چھپے ہوئے تھے ۔اس کا اصل مقصد فلسطین اور عرب دنیا کوختم کر کے اسلام کو نشانہ بنانااور اس مفاہمت کا نتیجہ فلسطینی ریاست کا عربوں سے الگ تھلگ کرنا اور چاروں طرف سے اسرائیلی محاصرہ میں ہونا،اس کی فضائی حدود اور دفاع اسرائیل کی نگرانی میں ہونا تھا۔
فلسطین کی آزادی کا واحد راستہ:
مگر فلسطینی اسلامی تحریکوں اور جہادی گروہوں کی نظر میں ایک آزاد اور خودمختار فلسطین کاواحد راستہ مزاحمت اور مقاومت ہے۔ان کی نگاہ میں ایک ظالم اور جارح کے خلاف قیام ایک شرعی فریضہ بھی ہے کیونکہ مسلمانوں کی سرزمین کو برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور ان کادفاع تمام مسلمانوں پر واجب ہے ۔ اور سیاسی پہلو سے بھی دیکھاجائے تو اسرائیل کے خلاف انتفاضہ اور لبنان کی مزاحمت کی نمایاں کامیابیوں نے یہ امید روشن کی ہے کہ اللہ پر ایمان،توکل اور منصوبہ بندی کے ساتھ مزاحمت کی جائے تو کامیابی ہماری مقدر ہے۔ کیونکہ مزاحمت کسی معاشرے کے صبر واستقلال کی بنیاد ہے جو اپنی کامیابیوں اور قربانیوں پر فخر کرتا ہے اس طرح مزاحمت مزید مضبوط ہوتی ہے ۔ اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے یہی واحد راستہ اور حل ہے۔
تمام مسلمانوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ اسرائیل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔
امام خمینی ؒ نے جمعۃ الوداع کو یوم القدس قرار دیا ہے اور آپ نے فرمایا:’’یوم القدس،یوم اسلام ہے یوم القدس ایسا روز ہے جس دن اسلام کو زندہ کرنا چاہئے اور ہمیں اسلام کے احیاء کرنا چاہئے۔
یوم القدس ایسا روز ہے کہ تمام بڑی طاقتوں کو آگاہ کر دینا چاہئے کہ اب اسلام تمہارے خبیث آلہ کاروں کی وجہ سے تمہارے تسلط میں نہیں رہے گا۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔