حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، محمد صغیر نصر نے "معرکہ بیت المقدس، صلاح الدین ایوبی سے سید علی خامنهای تک" کے موضوع پر ایک تحریر لکھی ہے۔ جسے ہم یہاں قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ نومبر سنہ 1095 ء کی بات ہے جب پورا یورپ کلیسا کے جنونی نشے میں دُھت تھا۔ ہر یورپی ملک اور عوام کی تقدیر پوپ کے متعصبانہ عقائد کے ساتھ جڑی تھی۔ سماجی تبعیض اور انحطاط کا دور دورہ تھا۔ اس گہری دھند میں پوپ دو سو اسقفوں کی شوریٰ کی میٹنگ بلاتا ہے۔ جس میں فیصلہ ہوتا ہے کہ ہمیں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی سرزمین کو مسلمانوں کے قبضے سے واپس لینا ہے۔
درحقیقت اس فیصلے کے پیچھے شاطرانہ ہدف، کلیسائی حکومت کی توسیع اور کلیسا کے ممکنہ دشمنوں کو یورپ سے نکال باہر کرنا تھا۔ پورے یورپ میں طبل جنگ بجا دیا گیا اور کلیسا کی قیادت میں قدس پر قبضہ کے لیے دلوں میں تعصب اور ہاتھوں میں کاٹ ڈالنے والے ہتھیار تھما دیئے گئے۔ گردن اور پشت پر صلیب کے نشان آویزاں کئے گئے اور اس دو سو سالہ صلیبی جنگوں کی بدنامی کلیسا کے چہرے پر ہمیشہ کے لیے ثبت کر دی گئی۔
صلیبیوں کا پہلا حملہ بری طرح ناکام ہوا جبکہ دوسرے حملے میں صلیبیوں نے مسلمانوں کے باہمی تفرقہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سنہ 1099 ء میں قدس پر قبضہ کر لیا۔ متعصب عیسائیوں نے قدس کے ساتھ ساتھ یورپ سے قدس تک کے راستے میں واقع علاقے بھی قبضہ میں لے لئے۔ ان جنگوں میں یورپ کی مذہبی قیادت سمیت بادشاہوں اور نامور سپہ سالاروں نے بھی شرکت کی۔
مسلمانوں کی اجتماعی غیرت اور بالخصوص صلاح الدین ایوبی کے تیور اس وقت سرخ ہوئے جب صلیبیوں نے سنہ 1183 ء میں مکہ اور مدینہ کی طرف پیش قدمی کا آغاز کر دیا۔ ایسے میں صلاح الدین ایوبی نے امت مسلمہ کے بکھرے ہوئے تنکوں کو جمع کیا اور پے در پے حملے کر کے سنہ 1187 ء میں بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کرا لیا۔
صلاح الدین ایوبی نے یہ تاریخی کامیابی ایک سلسلہ وار جنگی سیریز کے بعد حاصل کی۔ یورپ نے بیت المقدس میں اپنی قربانیاں رائیگاں دیکھتے ہوئے ایک بار پھر یکجا ہو کر حملہ آور ہونے کی ٹھان لی۔ سنہ 1190 ء میں جرمنی، انگلستان اور فرانس کے بادشاہوں نے مل کر تیسری بڑی صلیبی جنگ کا آغاز کر دیا۔ جرمنی کے بادشاہ سمندر میں غرق اور شہنشاہ فرانس جنگ کو ادھورا چھوڑ کر واپس چلے گئے جبکہ انگلستان کے بادشاہ رچرڈ شیردل نے جنگ جاری رکھی اور فلسطین کے گردونواح میں غضب کا رن پڑا۔ مسلمانوں کی استقامت کی وجہ سے جنگ طولانی ہو گئی اور پھر رچرڈ اور صلاح الدین ایوبی کے درمیان مذاکرات شروع ہو گئے۔
صلیبیوں کی طاقت جواب دے گئی اور صلاح الدین ایوبی بھی بڑھاپے کو پہنچ گئے لہذا سنہ 1193 میں طرفین کی رضامندی سے قرارداد صلح لکھ دی گئی۔ جس کے مطابق ہمیشہ کے لیے بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں جبکہ سمندر کی ساحلی پٹی پر عیسائیوں کو سکونت کی اجازت دے دی گئی۔
صلاح الدین ایوبی مسلمانوں کی سنہری تاریخ میں اپنا شجاعانہ کردار ادا کر کے اسی سال وفات پا گئے اور عیسائی آج بھی لبنان اور شام کے ساحلی علاقوں میں آباد ہیں۔ اگرچہ صلیبی جنگیں 1291ء تک جاری رہیں لیکن صلیبی بیت المقدس تک پہنچنے سے پہلے ہی منحل ہو جاتے رہے البتہ صلاح الدین ایوبی کے زمانے میں بھی بعض عرب و غیر عرب حکمران بیت المقدس کے ساتھ بے سود خیانتوں میں مشغول رہے۔
بیت المقدس پر قبضے کا دوسرا دور پہلی جنگ عظیم 1914 ء تا 1918 ء کے بعد شروع ہو گیا تھا اور مسلمانوں کے انحطاط کے بعد یہودیوں کو مختلف ممالک سے لا کر قدس کے گردونواح میں آباد کرنے کی سازش کے تدريجي مراحل کا آغاز بھی کر دیا گیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم 1939ء سے 1945 ء کے بعد سنہ 1948ء میں مسلمانوں کے قلب میں باقاعدہ غاصب اسرائیلی ریاست کا اعلان کر دیا گیا۔
اسرائیل کے سرطانی پھوڑے نے عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کے ساتھ اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کر دیں اور اردگرد کے علاقوں کو ساتھ ملانا شروع کر دیا۔ عرب بادشاہوں نے کبھی تنہا اور کبھی اتحاد بنا کر اسرائیل کے مقابلے کی تکلفانہ کوششیں کیں لیکن ہر بار ناکام رہے۔
سنہ 1948 سے لیکر سنہ 1973 تک 4 معروف عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل نے مزید کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور عربوں کی قومی تحریکیں مایوسی کا ایندھن بن گئیں جبکہ اسرائیل بلا شرکت غیرے پورے مشرق وسطیٰ کا مالک بن گیا۔
سنہ 1979ء میں نور الہی نے ایک بار پھر انقلاب اسلامی ایران کی صورت میں اپنی ضو فشانی کی اور مسلم اُمّہ کے بخت رفتہ نے اپنے بکھرے ہوئے تنکوں کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ رہبر کبیر سید روح اللہ خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ہدایت پر حزب اللہ لبنان نے اپنے ابتدائی مراحل میں ہی شکست ناپذیر اسرائیل کو پچھاڑنا شروع کر دیا اور بیروت کی گلیوں میں اسرائیلی اپنے ٹینک اور لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس کے بعد جہاد اسلامی فلسطین اور حماس جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ جنہوں نے حزب الله لبنان سے الہام لے کر اسرائیل کو سکیڑنا شروع کر دیا۔
حضرت روح اللہ خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد الہی انقلاب کی قیادت آیت اللہ سید علی حسینی خامنہ ای کے سپرد ہو گئی۔ جنہوں نے آزادی قدس کی تحریک کو فیصلہ کن موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ آج ایک طرف ثقافتی اعتبار سے مسئلہ قدس کو ہر غیرت مند مسلمان کے دل میں اتارا جا چکا ہے اور دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں شہید قاسم سلیمانی کی جنگی حکمت عملی کے تحت یمن سے عراق اور پھر پاکستان، افغانستان سے شام تک قدس کی آزادی کے لیے دسیوں مسلح لشکر تیار ہو چکے ہیں۔
داعش کی شکست کے ساتھ، ڈیل آف دی سینچری سمیت امریکہ و اسرائیل کے تمام منصوبے بھی بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ اس وقت تادم تحریر اسرائیل کا حال اس کبوتر کی مانند ہے جو آنکھیں بند کر کے اپنی یقینی موت کا منتظر ہوتا ہے کیونکہ سید علی خامنهای نے آزادی قدس کی نوید سنا دی ہے اور سنا ہے کہ تقدیر الہی بھی علی خامنہ ای کے ساتھ کھڑی ہے۔