۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
انٹرویو

حوزه/مجمعِ وحدتِ اسلامی عراق کے سربراہ نے کہا کہ یوم القدس عالمِ اِسلام اور حتی یورپ میں بھی آزاد لوگوں کی فلسطینیوں کی امنگوں کے ساتھ یکجہتی کا باعث بنا ہے اور وہ بھی رمضان المبارک کے آخری جمعے کو القدس ریلی کا بھرپور اہتمام کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عالمی یوم القدس کی مناسبت سے حوزہ نیوز ایجنسی کے بین الاقوامی نمائندے نے مجمعِ وحدتِ اسلامی عراق کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید علی العلاق کے ساتھ خصوصی گفتگو کی ہے جس کا ترجمہ محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے:

حوزہ: عالمی یوم القدس کے موقع پر مسلم ممالک کو اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر دشمن کے خلاف متحد ہونے کی کیا ضرورت ہے؟

مسئلۂ فلسطین، امتِ اسلامیہ اور ملتِ فلسطین کی شرعی، اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے، کیونکہ فلسطین یہودیت اور صہیونیت کی دشمنی اور ظلم کا شکار رہا ہے اور یوم القدس امتِ اسلامیہ کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتا ہے۔ فلسطین کو ہماری روزمرہ اور سیاسی زندگی میں شامل ہونا چاہئے، جن کی زندگی دینِ اسلام سے دور ہے وہ فلسطینیوں اور ان کے حوصلوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، لیکن انقلابِ اسلامی ایران نے فلسطین کو اس کی ترجیحات میں واپس کر دیا ہے اور اس سلسلے میں امتِ اسلامیہ کا اتحاد، فلسطین اور قدس شریف کی آزادی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

حوزه: مسجد الاقصیٰ میں حالیہ کشیدگیوں کے پیش نظر، عالمی یوم القدس کے اثرات اور اس سلسلے میں اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

یوم القدس عالمِ اِسلام اور حتی یورپ میں بھی آزاد لوگوں کی فلسطینیوں کی امنگوں کے ساتھ یکجہتی کا باعث بنا ہے اور وہ بھی رمضان المبارک کے آخری جمعے کو القدس ریلی کا اہتمام کرتے ہیں۔ فلسطینی کاز کے دشمن یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مسئلۂ قدس ایران کے ساتھ مختص ہے، جبکہ یہ مسئلہ پوری امت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ ہے اور امام خمینی (رح) نے بھی اسی مقصد کی بنا پر آواز اٹھائی۔ یوم القدس زندہ رہے گا اور قابض صہیونیوں کے خلاف فلسطینیوں کی طرف سے جاری جدوجہد اور مزاحمت میں روز بروز اضافہ ہو گا اور خدا کی راہ میں جہاد ہی صہیونیوں کو مقبوضہ علاقوں سے بے دخل کرنے کا واحد راستہ ہے۔

حوزه: غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا اصل مقصد کیا ہے؟ اور کیا یہ تعلقات صرف خطے کے ممالک کے ساتھ مضبوط کرنا چاہتے ہیں؟

دنیا کے بہت سے ممالک، مسئلۂ فلسطین کو فلسطینیوں کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کے بجائے اپنے مفادات کی تلاش میں ہیں۔ ماضی میں اسلامی اور عرب ممالک فلسطین کو اپنی ترجیح سمجھتے تھے، لیکن غداروں نے اپنے برسر اقتدار آنے کے بعد، اپنے مفادات اور اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لئے صہیونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا شروع کردیا اور ان حکمرانوں نے اپنے اپنے ملکوں میں انقلابی اقدامات کو روکا اور اسرائیل کو قبول کیا، لیکن خطے پر تسلط پانے کے صہیونی منصوبے کے خلاف بیداری پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ تعلقات کو معمول پر لانے کا ہدف صہیونی حکومت سے خطرے کو دور کرنا ہے لیکن خدا کے فضل و کرم، اسلامی جمہوریہ ایران کی برکت اور خطے میں مزاحمت و مقاومت کی وجہ سے صدی کی ڈیل اور صہیونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں رکاوٹ پیدا ہو گئی۔

آج بھی بعض عرب ممالک غاصب اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خواہاں ہیں، لیکن خطے میں موجود اقوام اور مزاحمت انقلابی طریقۂ کار کو تسلیم اور سازشوں کا شکار ہونے نہیں دیں گی، ہمیں فلسطین کے اندر فلسطینی عوام کو اسلحہ اور فوجی امداد فراہم کرنی چاہئے اور یہ شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس جیسے مزاحمتی رہنماؤں اور مزاحمتی سپاہیوں کی کوششوں سے حاصل ہوا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .