۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
فلسطین

حوزہ / فلسطین اور فلسطینی مزاحمت کاروں اور قوم کیلئے ہم پر دعا کرنے کی اہم ذمہ داری ہے۔ الدعا سلاح المؤمن۔۔ اہلِ و عیال مخصوصا معصوم بچوں کے ہمراہ شدید اور مسلسل دعا کی بھی ضرورت ہے، اسے ہم ترک نہ کریں۔

تحریر: مولانا فردوس احمد میر کشمیری

حوزہ نیوز ایجنسی | فلسطین کی نسبت ہماری ذمہ داری اور فرائض کے لئے درج ذیل ۱۲ عملی نمونے ذکر کئے جا رہے ہیں:

۱. فلسطین اور فلسطینی مزاحمت کاروں اور قوم کیلئے ہم پر دعا کرنے کی اہم ذمہ داری ہے۔ الدعا سلاح المؤمن۔۔ اہلِ و عیال مخصوصا معصوم بچوں کے ہمراہ شدید اور مسلسل دعا کی بھی ضرورت ہے، اسے ہم ترک نہ کریں۔ ماہ رمضان میں مخصوصا شب قدروں اور ماتمی یا دیگر تقاریب میں پہلی دعا ظہور امام زمانہ عج اور دوسری دعا فلسطین مظلومین کی نصرت و فتح اور آزادی کیلئے اور امت اسلامی کی بیداری کیلئے نیز دیگر مظلوم اقوام کی بیداری، نصرت اور نجات کیلئے ہونی چاہیے۔

۲. اسی طرح عملی اقدام کے تحت اسرائیلی بلکہ امریکی اور یورپی کمپنیوں، مصنوعات اور چیزوں کے بائیکاٹ کرنے کی مہم بھی عمومی سطح پر اگے چلانی ہے۔

۳. عملی طور پر ہر جگہ، گھر میں، آفیس میں، اسکول میں، دکانوں میں، مساجد و دینی مراکز میں خاصکر میڈیا میں ہر روز صبح و شام فلسطین میں درپیش مسائل، دردناک مظالم، حقائق کا انعکاس، تشہیر کرنا، نیز مظلوم کی حمایت اور ظالم کی شدید مذمت کرنا بھی ضروری ہے۔

7 اکتوبر سے مزاحمتی فورسز اور فلسطینی قوم کی بے مثال اور بے لوث قربانیوں، فداکاریوں، دینی ایمان اور جذبات، ثابت قدمی، اب تک اور ہر روز حاصل ہونی والی جنگی، قومی اور عالمی کامیابیوں اور مسلسل انتھک تلاش اور جہاد کو بے حد زیادہ ہر جگہ پر عام نشر کرنا بھی ضروری ہے۔

۴. فلسطینی قوم اور مزاحمتی گروہوں کی حمایت میں اپنے پیغامات، شعر و شاعری،داستانوں، تصویروں اور تحریروں سے حوصلہ افزائی کرنا اور عام نشر کرنا بھی ضروری ہے جیساکہ شعراء و ادباء کے ساتھ آخری ملاقات میں امام خامنہ ای نے تاکید کی۔

۵. اسرائیلی ظالم اور اس ظلم میں اسکے ہمراہ امریکی، یورپی، عربی اور ایشیائی ممالک کی مذمت کرنا بھی ضروری ہے، ان کا حقیقی چہرہ، پس پردہ اہداف اور سازشوں کو عام برملا کرنا بھی ضروری ہے۔

۵. فلسطین کے مظلومین کی مالی اور غیر مالی مدد کیلئے بھی عمومی اور ایثار کے ہمراہ مسلسل تلاش کرنا بھی ضروری ہے۔

۶. تقریباً چھے ماہ کی جنگ میں طوفان الاقصی اور اسکے بعد فلسطینی قوم اور مزاحمتی کاروں کی انتھک تلاش اور ثابت قدمی سے قومی اور عالمی سطح پر دشمن کی ناکامیوں، شکستوں اور تسلیم ہونے کے مختلف اقدامات کو ہر جگہ پر عام نشر کرنا بھی ضروری ہے۔

۷. مزاحمتی حلقہ، عالم اسلام بلکہ پوری دنیا پر فلسطینی قوم کے احسان اور بے لوث و بے مثال قربانیوں خاصکر خواتین اور بچوں کی مظلومیت اور بے نظیر ایثار، جانفشانی اور فداکاریوں کو عام نشر کرنا بھی ضروری ہے۔

۸. اقوام متحدہ، عالمی ادارہ حقوق بشر، عالمی ادارہ صحت، عالمی ادارہ امداد، عالمی ادارہ عدالت وغیرہ جیسے عالمی نام نہاد اداروں کے بے فائدہ ہونے، بلکہ دوگنی اور سوتیلی ماں کے رویہ کو عام نشر کرنا بھی ضروری ہے۔

۹. فلسطین کے بنسبت اکثر مغربی اور بعض مشرقی ممالک کی ڈبل پالیسی نیز بعض نام نہاد مسلم ممالک کی منافقانہ اور ظالمانہ خیانتوں کو عام نشر کرنا بھی ضروری ہے۔ ۵۷ اسلامی ممالک میں تقریبا ۵۰ ممالک کے سربراہان اور دیگر اداروں کی خیانت بھری خاموشی کے اہداف، اسباب، نتائج اور پس پردہ مسائل کو عام نشر کرنا بھی ضروری ہے۔

۱۰. فلسطین کے بنسبت مزاحمتی حلقہ میں ایران، یمن، عراق، سوریہ، لبنان ، جنوبی افریقہ جیسے اسلامی ممالک اور حزب اللہ،انصار اللہ اور حشد الشعبی جیسے دیگر کچھ نادر مزاحمتی گروہوں وغیرہ کی مسلسل قومی اور عالمی سیاسی اور غیر سیاسی حمایتی اقدامات اور تلاش و کوشش اور مسلسل قربانیوں کو ہر جگہ عام نشر کرنا بھی ضروری ہے۔

۱۱. میڈیا کی دنیا میں سازش یافتہ عالمی سطح پر فلسطین کے خلاف شبہات، سؤالات کا جواب دینا اور غلط خبروں کی مخالفت کرنا اور صحیح خبروں کو عام نشر کرنا بھی ضروری ہے۔

۱۲. اس سال گذشتہ ہر سال کے بنسبت روز قدس کو بہتر، عمومی اور زیادہ سے زیادہ متحرک شرکت کے ساتھ منعقد کرنا اور اہل و عیال کے ساتھ شرکت کرنا بھی ضروری ہے۔

یہ سب اہم اور بنیادی ہے اور ہر ایک کی انسانی، فطری، اخلاقی، اسلامی، عالمی، شرعی اور عقلی نہایت اہم واجب ذمہ داری اور فریضہ ہے۔

خلاصہ اسوقت ہم میں ہر کوئی فلسطین اور مزاحمتی حلقہ کا سفیر اور پرچمدار ہے۔ یہی انسانیت، اسلامیت اور زندہ ہونے کی دلیل ہے ورنہ حیوانات اور جمادات کے ساتھ ہماری کوئی فرق نہیں ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .