۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
عادل فراز

حوزہ/ نیتن یاہو اور ایتماربن گویر جیسے متشدد اور جارح نظریات کے حامل افراد اکو ملک کی باگ ڈور سونپنا عالمی امن کے لئے کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی| اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو کی نئی کابینہ کی تشکیل عالمی امن کے لئے خوش آیند نوید نہیں ہے ۔نئی حکومت میں ایسے سیاسی چہروں کو شامل کیا گیاہے جو دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے بدنام رہے ہیں ۔چونکہ اسرائیل ایک طویل مدت سے سیاسی بحران سے دوچار تھا ،لہذا نئی حکومت کی تشکیل میں انتہائی دائیں بازو کی صہیونی جماعتوں کی مدد حاصل کی گئی ہے ۔

ان جنونی صہیونی جماعتوں کے کئی سیاست مدار نتین یاہو کی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز ہیں، اول تو نتین یاہو کا سیاسی نظریہ کبھی عالمی امن کے لئے فال نیک ثابت نہیں ہوا،اس پر ’’جیوش پور پارٹی ‘‘کےسربراہ ایتماربن گویر کو وزیر برائے امن و سلامتی مقرر کیاگیاہے ،جس پر کئی دہشت گردی کے مقدمے عائد ہیں ۔اس مخلوط حکومت میں انتہا پسند نظریے کے حامل بیزالیل اسموٹرچ بھی شامل ہیں ،جو ہمیشہ امن عامہ کے لئے خطرہ بنا رہاہے۔’’جیوش پور پارٹی‘‘ کے ایک پارلمانی رکن نےفلسطینی عوام کو دھمکاتے ہوئے کہا تھاکہ’ اس بار اسرائیل اور فلسطین میں جو جنگ ہوگی وہ آخری ثابت ہوگی۔

اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ایسے متشدد اور جارح نظریات کے حامل افراد اکو ملک کی باگ ڈور سونپنا عالمی امن کے لئے کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔

بن گویر کے جارح سیاسی نظریے کا پہلا ثبوت حالیہ مسجد اقصیٰ کا دورہ ہے ،جو فلسطینیوں کو اکسانے اور ضابطوں کی کھلی خلاف ورزی تھا۔اگر اس دورہ کے خلاف فلسطین کی مقاومتی تنظیموں نے جارح موقف اپنایاہوتاتو مشرق وسطیٰ ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر ہوتا ۔

بن گویر کو اسرائیلی عدالت نے نسل پرستی اور دہشت گردی کا مجرم پایا تھا ،اس کے باوجوداس کو وزیر برائے سلامتی مقرر کرنا اسرائیل کے سیاسی بحران کو ظاہر کرتاہے۔یہ شخص میر کہانے کا شاگرد ہے جس کی پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور امریکہ نے اسے دہشت گرد قرار دیا تھا۔بن گویر عربو ں سے بے اتنہا نفرت کرتاہے ۔وہ متواتر یہ مطالبہ کرتارہاہے کہ غرب اردن کے ساتھ غزہ اور اسرائیل میں آباد عرب شہریوں کو ملک بدر کردیاجائے ۔

نتین یاہو بھی اسی طرح کے سیاسی نظریات کے حامل ہیں ۔ان کے مطابق’ مغربی کنارہ سمیت اسرائیل کے تمام تر علاقوں پر فقط یہودیوں کا حق ہے ‘۔انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے داماد جارڈ کشنز کے ساتھ مل کر ’’صدی معاہدہ‘ ‘ کا مسودہ پیش کیا تھا ،جس کی رو سے یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کیا گیا تھا ۔اس مسودہ کی فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے سخت مخالفت کی تھی اور عالمی پیمانے پر بھی اس مسودہ کو مسترد کردیا گیا تھا ۔اس کے باجود عالمی استعمار کی کوششوں سے اسرائیل اور امریکہ کے حلیف ملکوں نے اس مسودہ کے نکات کو تسلیم کرلیا تھا جن میں بعض مسلمان ملک بھی شامل ہیں ۔

’’صدی معاہدہ‘‘ در اصل فلسطینیوں کی خود مختاری اور انسانی حقوق پر دن دہاڑے ڈاکہ ڈالنے کی ایک کوشش تھی،جس کو ناکام بنادیا گیا،حالانکہ اسرائیل آج بھی اس معاہدہ کے نفاذ کے لئے کوشاں ہے ۔اس معاہدہ کی روسے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین پر غلاموں کی طرح زندگی گذارنی ہوگی اور انہیںبنیادی شہری حقوق بھی حاصل نہیں ہوں گے ۔حد یہ ہے کہ ان کے دفاع کی ذمہ داری بھی اسرائیلی فوج کی ہوگی جس کے لئے فلسطینیوں کو ایک معین رقم کی ادائیگی کرنا ہوگی۔اس معاہدہ کے اکثر شرائط منصہ شہود پر نہیں ہیں ،اس لئے پورے طورپر ان پر تبصرہ نہیں کیا جاسکتا ،لیکن یہ معاہدہ فلسطین کی خودمختارانہ حیثیت کو ختم کرنےکی ایک ناکام کوشش تھی۔

گویر کے سیاسی عزائم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اس نے ۳ جنوری کو مسجد اقصیٰ کا دورہ کرکے عالمی امن کو برباد کرنے کی کوشش کی تھی ۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اس دورہ پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور عالمی سطح پر امن پسند لوگوں نے اس دورہ کی سخت مذمت کی ۔مسجد اقصیٰ اسرائیل کے زیر قبضہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے۔ضابطے کے مطابق مخصوص اوقات میں غیر مسلم مسجد اقصیٰ کا دورہ کرسکتے ہیں لیکن انہیں وہاں عبادت کی اجازت نہیں ہے ۔

رپورٹس کے مطابق صہیونی بنیاد پرست مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوج کے اشارے پر خفیہ عبادت کرتے ہیں جس کی مقامی فلسطینی سخت مخالفت کرتے رہے ہیں ۔اکثر اوقات یہ مخالفت خوں ریزی میں بدل جاتی ہے اور پھر اسرائیلی فوج نہتے فلسطینیوں پر بھرپور جارحیت کا مظاہرہ کرتی ہے ،جس پر عالمی میڈیا نے کبھی کوئی ڈبیٹ نہیں کی ۔اسی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا تھا جس میں اسرائیل اور فلسطینی سفیر کے درمیان سخت الفاظ میں بحث و مباحثہ ہوا۔فلسطینی مندوب ریاض منصور نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہاکہ اسرائیل سلامتی کونسل ،بین الاقوامی برادری اور فلسطینیوں کے لئے انتہائی تحقیر آمیز رویہ کا اظہار کرتارہاہے ۔انہوں نے اسرائیل کے خلاف کارائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ ’آخر وہ کونسی ریڈ لائن ہے جسے اسرائیل عبور کرے گا تو سلامتی کونسل کہے گی کہ بس!اور اس کے مطابق عمل کیا جائے گا‘۔اسرائیلی سفیر نے سلامتی کونسل کے اجلاس کو مضحکہ خیز اور بے نتیجہ قرار دیاتھا جبکہ فلسطینی مندوب نے اس اجلاس کو خوش آیندقرار دیا۔ریاض منصور کا بیان حقیقت پر مبنی ہے لیکن اقوام متحدہ بے دست و پا ادارہ ہے جوہرگز عالمی استکبار کے خلاف نہیں جاسکتا ۔اس لئے اس ادارہ سے یہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اسرائیلی دہشت گردی یا عالمی استکباری نظام کے خلاف ایک لفظ بھی کہہ کرسکے۔

چونکہ اقوام متحدہ کوئی آزاد ادارہ نہیں ہے بلکہ اس کی نکیل عالمی استعمار کے ہاتھوں میں ہے ۔اگر ہم اقوام متحدہ کی حصولیابیوں اور اہم کاروائیوں کا جائزہ لینے لگیں تو کوئی اہم نکتہ ابھر کر سامنے نہیں آسکے گا ،اس لئے فلسطین کے مسئلے کا حل اقوام متحدہ کے پاس نہیں ہے اور نہ اسرائیل فلسطین کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے موقف کو تسلیم کرے گا ۔

صہیونی وزیر بن گویر نے عوامی مقامات پر فلسطینی پرچم لہرانے والوں پر دہشت گردی کا مقدمہ چلانےکا بھی فیصلہ کیاہے۔انہوں نے اپنے بیان میں کہاکہ اسرائیلی قانون توڑنے والے لوگ دہشت گردانہ پرچم نہیں لہراسکتے اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے ۔اس لئے ہم نے عوامی مقامات سے دہشت گردی کی حمایت کرنے والے پرچموں کو ہٹانے اور اسرائیل کے خلاف اشتعال انگیزی روکنےکے لئے یہ حکم دیاہے ۔فلسطینیوں نے گویر کے اس حکم نامہ کو یکسر مسترد کردیاہے اور اسے فلسطینی شناخت کو مدھم کرنے کی ناکام سعی سے تعبیر کیاہے ۔ان کے مطابق مقبوضہ فلسطین میں پرچم کشائی ان کا بنیادی حق ہے جو عالمی قانون اور اقوام متحدہ کے آئین کی روشنی میں بھی واضح ہے ۔گویر عالمی قانون کی صریحی خلاف ورزی کرکے جنگ کے شعلے بھڑکانا چاہتے ہیں ۔

گویر کا یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی جیل میں 40 سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد کریم یونس کو آزادکیا گیا۔ان کی رہائی کا جشن منانے کے لئے غزہ میں عوامی تقریبات کا انعقاد کیا جارہاہے جس میں اسرائیل کو غاصب اور دہشت گرد ریاست نیز عوامی مقامات پر فلسطینی پرچم کشائی کا سلسلہ جاری ہے ۔اس موقع پر بن گویر کا یہ بیان صہیونی ریاست کی شکست اور فلسطینیوں کے استقلال پسند عزائم کا عندیہ ہے ۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ صہیونی ریاست فلسطینیوں کےعزائم سے کس قدر خوف زدہ ہے ۔ایک ایسی ریاست جو خود کو دنیا کی سب سے طاقت ور ریاست باورکراتی ہے ،فلسطینی پرچم کے عوامی مقامات پر لہرانے سے اس قدر گھبراجائے گی ،یہ کس نے سوچا تھا ؟بالآخر ایسا ہوا ! کیونکہ فلسطینی عوام اپنے جغرافیائی حدود اور عالمی سطح پر اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے بیدار ہوچکی ہے

۔فلسطینیوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی جتنی کوششیں عالمی استکبار کی طرف سے کی گئی تھیں ،ان کو مزاحمتی تنظیموں کی افہام و تفہیم اور فلسطینی عوام کی بیداری نے ناکام بنادیاہے ۔ورنہ آج سے پہلے فلسطینی عوام میں اس قدر اتحاد اور باہمی مزاحمت کا جذبہ نہیں دیکھا گیا تھا ۔اب عوامی مقاومت میں اضافہ ہورہاہے جسے صہیونی ریاست اپنے وجود کے لئے خطرہ مان رہی ہے ۔اسی لئے عوامی مقامات پر فلسطینی پرچم لہرانے کی مما نعت کردی گئی ،لیکن آیا یہ ممکن ہوگا؟ فلسطینیوں نے اپنی آزادی اور حقوق کی بازیابی کے لئے بے دریغ قربانیاں دی ہیں ،تو کیا وہ عوامی مقامات پر اپنا پرچم لہراتے ہوئے دہشت گردی کے مقدمات سے ڈرجائیں گے؟ ہر گز نہیں ! ایسا کبھی نہیں ہوگا!

فلسطین میں گزشتہ کچھ دنوں سے خوں ریزمزاحمت کا سلسلہ جاری ہے ۔صہیونی ریاست کے عزائم اور دہشت گردی کے خلاف فلسطینی عوام اور مقاومتی تنظیموں نے سخت موقف اختیار کیاہے ۔عالمی میڈیا کے ذریعہ مسلسل خبریں آرہی ہیں کہ فلسطینیوں پر اسرائیلی تشدد تھمنےکانام نہیں لے رہاہے ،ساتھ ہی فلسطینی اپنے تحفظ اور حقوق کی بازیابی کے لئے مسلسل مزاحمت کررہے ہیں ۔ظاہر ہے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی فوج کا مقابلہ نہتے فلسطینیوں کے لئے آسان نہیں ہے ۔

البتہ اب فلسطین کی مقاومتی تنظیمیں یکسر ہتھیاروں سے عاری بھی نہیں ہیں ۔جیساکہ ہم نے حماس اور اسرائیل کی گیارہ روزہ جنگ کے دوران دیکھا کہ کس طرح ایک چھوٹی سی مقاومتی تنظیم نے اسرائیلی فوج کو دن میں تارے دکھلادیے تھے ۔حماس نے گیارہ دنوں تک اسرائیلی فوج کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کرکے دنیا بالخصوص اسلامی ممالک کو یہ باورکرادیا تھاکہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے ۔

اگر حماس جیسی چھوٹی سی تنظیم اپنی بلند ہمتی اور ناقابل تسخیر عزائم سے اسرائیلی فوج کے دانت کھٹّے کرسکتی ہے تو اگرعالم اسلام قبلۂ اول کی بازیابی اور فلسطین کی آزادی کے لئےباہمی اتحاد کا مظاہرہ کرے تو صہیونی ریاست کےناپاک عزائم ہمیشہ کے لئےبرباد ہوجائیں گے ۔مگر افسوس اکثر مسلمان ملک عالمی استکبار کے زیر اثر ہیں ،اس لئے ان سے کسی مزاحمت کی توقع کرنا خوش فہمی سے زیادہ اور کچھ نہیں !

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .