۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
عادل فراز

حوزہ/ بین الادیان مکالمہ کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، ہر عہد میں اس کی ضرورت رہی ہے لیکن بین المذاہب مکالمہ کا احیاکرنے والوں کی ہمیشہ کمی رہی ہے ۔قرآن مجید نے دوسرے ادیان و مذاہب کی تعلیمات اور مذہبی فلسفے کی یکسر تردید نہیں کی بلکہ حق تک رسائی کے لئے تحقیق کی اہمیت پر زور دیاہے ۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی| بین الادیان مکالمہ (interfaith dialogue) کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ہر عہد میں اس کی ضرورت رہی ہے لیکن بین المذاہب مکالمہ کا احیاکرنے والوں کی ہمیشہ کمی رہی ہے ۔قرآن مجید نے دوسرے ادیان و مذاہب کی تعلیمات اور مذہبی فلسفے کی یکسر تردید نہیں کی بلکہ حق تک رسائی کے لئے تحقیق کی اہمیت پر زور دیاہے ۔پیغمبر اسلام بھی ہر مذہب اور دین کے افراد کے ساتھ مکالمہ فرمایا کرتے تھے ۔آپ ؐ کی حیات طیبہ میں اسلام نے جس تیزی کے ساتھ فروغ پایا اس کی بنیادی وجہ ہر مذہب اور قوم و قبیلے کے ساتھ مکالمہ کا قیام تھا۔افسوس یہ ہے کہ اس تناظر میں آپ کی سیرت اور سنت کو دیگر ادیان و مذاہب کے درمیان پیش نہیں کیا گیا ،ورنہ اسلام نے جس قدر بین الادیان مکالمہ پر زور دیاہے ،شاید ہی کسی دوسرے مذہب نے دیا ہو ۔

عصر حاضر میں بین الادیان کانفرنسوںکا انعقا د تیزی کے ساتھ عمل میںآرہاہے ۔یہ کانفرنسیں مذہبی تعلیمات کی افہام و تفہیم میں زیادہ معاون ثابت رہی ہوں یا نہیں لیکن ایک اسٹیج پر مختلف مذہبی شخصیات کی موجودگی عوام کے لئے مثبت نتائج کی حامل رہی ہے ۔حالیہ کچھ سالوں میں ہندوستان میں بھی انٹر فیتھ کانفرنسوں کےانعقاد کے عمل میں تیزی آئی ہے ۔ان کانفرنسوں کا ظاہری ہدف بہت دل فریب ہے لیکن ان کے متوقع سنگین نتائج اور پوشیدہ بھیانک عزائم سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔افسوس یہ ہے کہ جو لوگ ان کانفرنسوں میں شریک ہورہے ہیں وہ یا تو ان کے اہداف اور نتائج سے بے خبر ہیں یا پھر ان کے لبوں پر چاندی کی مہریں ثبت کردی گئی ہیں ۔ان کانفرنسوں میں کبھی کسی مسلم اسکالر اور مولوی نے مسلمانوں کی مسلسل حق تلفی اور ہندوستان کی زعفرانی سیاست کے بھیانک روپ پر گفتگو نہیں کی ۔بیگانوں کے ساتھ اپنوں نے بھی مسلمانوں کے متشددانہ مزاج اور اشتعال انگیز ذہنیت کا بکھان کیا ،جس کا بیانیہ کچھ سالوں قبل سرکار اور میڈیا کے ذریعہ ترتیب دیا گیا تھا ۔

بین الادیان مکالمے کے لئے جدوجہد کرنے والے بین الادیان شادیوں(interfaith marriage) پر سخت معترض ہیں ۔یہ ایک مضحکہ خیز عمل ہے جس پر غوروخوض کی ضرورت ہے ۔اس پر حیرت یہ ہے کہ interfaith marriage کے لئے بھی وہ تنہامسلمانوں کو مجرم قرار دیتے ہیں ۔interfaith marriageپر قدغن لگانے کے لئے ’لو جہاد‘ کا فرضی بیانیہ تیار کیا گیا ،جس کی زد میں آج پورا ملک ہے ۔اگر بین المذاہب مکالمہ قائم ہوگا تو اس کے نتائج بین المذاہب شادیوں کی شکل میں بھی سامنے آسکتے ہیں ،کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کرسکتاہے ؟اگر interfaith marriage ہندو راشٹر کے قیام میں رکاوٹ ہے تو پھر interfaith dialogue اور interfaith harmony کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے ؟بین الادیان مکالمے کی بات کرنے والوں کو شرح صدر کا حامل ہونا چاہیے ان کے یہاں کم نظری اور تنگ ظرفی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے ۔یوں بھی بین الادیان شادیوں سے کبھی مذہب اور عقائد کو نقصان نہیں پہونچا ۔کیونکہ عام طورپر ایسی شادیوں میں دلچسپی دکھلانے والا طبقہ مذہبی معاملات میں خود کو سیکولر اور لبرل ظاہر کرتاہے ،اس لئے بین الادیان شادیوں کے پس پردہ ان کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں ،مذہبی و عقیدتی اہداف نہیں ۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے ہمیشہ بین الادیان مکالمے کو ترجیح دی ہے ۔

صوفیائے کرام نے ہندوستان میں اس روایت کو خوب فروغ دیا اور اپنی خانقاہوں کے دروازے سب کے لئے کھلے رکھے۔انہوں نے ہر مذہب کا احترام پیش نظر رکھا اور کسی کے ذاتی عقائد میں مداخلت نہیں کی ۔مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی اس سے اچھی مثال اور کہاں مل سکتی ہے ۔ ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں نے بھی بین المذاہب مکالمے کے احیاء پر زور دیا ۔ان کے درباروں میں ہر مذہب و عقیدے کے حامل افراد موجود رہتے تھے ۔خاص طورپر مغلوں نے اس روایت کو حتیٰ لامکان فروغ دیا ۔ان کے محلوں میں ہندورانیوں کی موجودگی نے مذہبی افہام و تفہیم کے باب مزید وا کئے ۔خاص طورپر اکبر کے عہد میں ’عبادت خانہ ‘ کا قیام اور مختلف مذہبوں کی کتابوں اور ہندواساطیر ی فلسفہ کا’ اسلامائزیشن‘ہندوئوں کے ساتھ باہمی روابط کی بنیاد پر ہی وجود میں آیا تھا ۔دین الہی کے عقاید اور نظریات سے اختلاف کیا جاسکتاہے لیکن ملائی نظام سے برگشتگی کی بنیاد پر ہی اکبر نے نئے دین کی بنیاد گذاری کی تھی ۔

اس نئے دین کے قیام کی بنیادی وجہ ملائی نظام کی عدم برداشت اور مختلف مذہبی فلسفوں کی افہام و تفہیم تھی۔آج بھی مسلمان اسی ملائی نظام کی زد میں ہیں ،جس سے باہر نکلنے کی سخت ضرورت ہے ۔ بہرکیف!ہندوستان میں انٹرفیتھ کانفرنسوں کے نام پر مسلمانوں کو مشکوک کرنے کا عمل جاری ہے ۔ایک کانفرنس میں اندریش کمار نے کہاکہ ’جو نعرہ پہلے عبادت کے لئے استعمال ہوتا تھا اب فساد اور لڑائی کے لئے ہوتاہے‘۔انہوں نے ایک مقام پر یہ بھی کہاکہ’ جمعہ کا دن عبادت کا دن ہے لیکن کچھ لوگ اس کو پتھر بازی کے دن میں بدل رہے ہیں‘۔

افسوس یہ ہے کہ ایسی کانفرنسوں میں موجود مسلمان علماء اور خود کو دانشور تسلیم کروانے والے خوش فہم لوگوں نے بھی اس جملے کی تردید یا تنقید نہیں کی ۔کیا مسلمانوں نے کبھی جمعہ کے دن کو سیاسی مفاد میں استعمال کیا ہے؟ سیاسی مفاد بایں معنی کہ انہوں نے جمعہ کی نماز میں کسی سیاسی جماعت کی حمایت اور صریحی مخالفت کا اعلان کیا ہو ؟کیا وہ نماز جمعہ میں آرایس ایس کی مکروہ پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہیں ؟یا پھر انہوں نے شدت پسند عناصر سے انتقام کے لئے ملت کو اکسایاہو ؟ جبکہ پورے ملک میں افراطی مذہبی طبقہ عجب افراتفری کا شکار ہے ۔کیرالا،کرناٹک ،اترپردیش اور بی جے پی کے زیر اقتدار دیگر ریاستوں میں مذہبی و سیاسی طبقہ اقلیتوں کے خلاف زہر پاشی کرتا رہتاہے مگر اس وقت اندریش کمار اور آرایس ایس کے دیگر کارکنان اس پر کوئی صریحی تبصرہ نہیں کرتے ۔

انہوں نے کسی کانفرنس میں ایک بار بھی ’دھرم سنسد‘ کے اشتعال انگیز بیانات اور پرویش ورما جیسے سیاسی رہنمائوں کی نفرت آمیز تقریروں کی مخالفت نہیں کی ۔مقام افسوس یہ ہے کہ انٹر فیتھ کی تمام کانفرنسیں مسلمانوں کے ذریعہ منعقد کرائی جارہی ہیں اور ہدف ملامت و تنقید بھی مسلمان ہی ہوتے ہیں ۔کسی ایک کانفرنس میں حکومت یا آرایس ایس کے نمائندہ نے ’دھرم سنسد‘ کے عزائم اور سیاسی رہنمائوں کی نفرت پاشی پر کوئی واضح تبصرہ نہیں کیا ۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ انٹرفیتھ کی تمام کانفرنسیں کیوں ، کس لئے اور کس کے ذریعہ منعقد ہورہی ہیں ۔ایسے ایسے دانشور اور علماء ان کانفرنسوں میں نظر آرہےہیں ،جن کی شرکت کے بارے میں ہم کبھی تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ان کی شرکت زیر سوال نہیں ہے ،مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسی کانفرنسوں میں مسلمانوں کےمؤقف اور مظلومیت پر بات کیوں نہیں کرتے ؟یا پھر ان کانفرنسوں میں جن لوگوں کی فنڈنگ ہوتی ہے ، تقریر کا ایجنڈہ بھی انہی کی طرف سے دیا جاتاہے ؟۔

انٹرفیتھ کی کئی کانفرنسوں میں بعض نام نہاد صوفیا یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اب اس ملک میں ’سر قلم کردو‘ جیسے نعروں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے نعروں کی تائید کبھی کسی مسلمان نے نہیں کی بلکہ پوری قوم اس طرح کے نعرے لگانے والوں کے خلاف متحد نظر آئی ۔لیکن جن لوگوں نے گائے کے نام پر بے گناہوں کا قتل عام کیا ،غریبوں اور بے قصوروں کی مآب لنچنگ کی ،سی اے اے اور این آرسی کے خلاف ہورہے احتجاجوں میں گھس کر گولیاں برسائیں ،مظاہرین پر بے حد ظلم و تشدد کیا گیا،حد یہ ہے کہ معصوم لڑکیوں پر بھی رحم نہیں کھایا ۔لائبریری میں گھس کر طلباپر لاٹھیاں برسائی گئیں ۔قرآن مجید کی آیات پر گھنائونا سیاسی کھیل کھیلا گیا ۔

پیغمبر اکرمؐ کے کردار کو مسخ کرنے کے لئے ایک مرود شخص کے ذریعہ کتاب تالیف کروائی گئی جس کا مواد زعفرانی رضاکاروں نے آمادہ کیا تھا۔کیا اس کتاب پر ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ جیسا نعرہ دینے والی سرکار نے کوئی مناسب قدم اٹھایا؟مسلمانوں کے خلاف ’دھر م سنسد‘ اور دیگر مقامات پر اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے ،ان کے اقتصادی بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ،ان کی مسجدوں اور عبادت گاہوں کو ہتھیانے کا عمل جاری ہے ،اس کے بعد بھی انٹرفیتھ کانفرنسوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندوستان میں اختلاف و انتشار کی باتیں فقط مسلمانوں کی طرف سے ہوتی ہیں ۔کیا گجرات اور مظفر نگر فسادات کے ذمہ دار تنہا مسلمان تھے ؟ کیادہلی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نفرت کی بھینٹ چڑھانے والے مسلمان تھے ؟ کیوں سرکار اور انتظامیہ کی طرف سے یک طرفہ کاروائی ہوتی رہی ہے ؟ایسے موقعوں پر انٹر فیٹھ کانفرنسوں کے بانی اور داعیان کہاں غائب ہوجاتے ہیں ؟ کیوں منظر عام پر آکر وہ ناانصافیوں اور بے اعتدالیوں کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں کرتے ؟ سب سے زیادہ ذمہ داری علماپر عائد ہوتی ہے مگر وہ اس عہد میں شتر مرغ کی مثال ہیں ؟ ہماری مسجدیں مسمار کی جارہی ہیں ،عبادت گاہوں پر قبضے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔اقتصادی بائیکاٹ اور نسل کشی کے اجتماعی نعرے دیے جارہے ہیں ،مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو ختم کرنے کی تیاری ہے،اسکے باجود ہر انٹرفیتھ کانفرنس میںتنقید کا آسان ہدف بھی مسلمان ہے ۔کیا اب بھی یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ ان کانفرنسوں کا بنیادی مقصد کیاہے اور کون لوگ ان کانفرنسوں کے انعقاد کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔

جب تک مسلمانوں کے درمیان ایسے میر جعفر ،میر صادق اور حکیم احسن اللہ خاں موجود ہیں ،حالات دگرگوں رہیں گے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے درمیان موجود غداروں اور منافقوں کو پہچان کر نئی دانشوروانہ قیادت کی بنیاد ڈالیں ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .