حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، حال ہی میں ایران کے ایک مشہور مصنف اور ناول نگار "رضا امیرخانی" کا انٹرویو نشر ہوا۔ جس میں ان کا ایک جملہ بہت زیادہ دلچسپ تھا وہ کہہ رہے تھے کہ ’’مجھے اس بات کی فکر ہے کہ ہم مشترکہ مستقبل کے بارے میں بات نہیں کر سکتے، خاص طور پر اگلی نسل کے ساتھ اور میں اس سلسلہ میں خطرہ محسوس کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ملک کو نسل کی تبدیلی اس کی ضرورت ہے"۔
نئی نسلوں اور یہاں تک کہ اگلی نسلوں کے ساتھ رابطے کی بحث انتہائی اہم نکتہ ہے۔ جسے ہیومینٹیز کی بعض شخصیات اور خاص طور پر معاشرتی ماہرین کے خیالات اور آراء میں مطرح کیا جا سکتا ہے، تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس اہم مسئلے کو بعض ثقافتی اور سماجی منتظمین نے اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جتنا کہ ہونا چاہیے تھا!!۔
باہمی تبادل نظر اور معاشرتی مسائل سے آشنائی اور ان کے حل کے لئے نئی نسل کے ساتھ افہام و تفہیم کا رشتہ قائم کیا جانا چاہئے۔
بلاشبہ، اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے جوان نسل کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح افہام و تفہیم کی ضرورت ہے وگرنہ بصورت دیگر کلی طور پر صرف مسئلہ بیان کرنے یا اس مسئلہ سے غفلت برتنے سے ان مسائل کا حل نہیں پیش نہیں کیا جا سکتا۔