حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، استاد شیخ یعقوب بشوی کے دسویں درس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"وَاٴَنکِحُوا الْاٴَیَامَی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَکُونُوا فُقَرَاءَ یُغْنِھِمْ اللهُ مِنْ فَضْلِہِ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ."
غیر شادی شدہ مردوں اور عورتوں کی شادی کردو اور اسی طرح اپنے نیک غلاموں اور کنیزوں کو بھی بیاہ دو، اگر تنگ دست ہوئے تو الله اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا، الله بہت صاحب وسعت اور علیم ہے۔
حدیث کی روشنی میں یقیناً اجتماعی اور فردی زندگی میں جو اہم ترین مسئلہ ہے وہ انتخاب ہمسر،یعنی میاں بیوی کے انتخاب کا مرحلہ ہے، چونکہ یہ زندگی میں ایک مہم ترین مرحلہ ہے اور شریعت کی نگاہ میں یہ نصف دین ہے اگر انسان شادی کرلے تو بہت سارے مشکلات اور مسائل سے بچ سکتا ہے اسی وجہ سے روایتوں میں تاکید ہوئی ہے شادی کرو۔
اس سلسلے میں ہمارے پاس بہت ساری روایات موجود ہیں اور قرآن خود معاشرے کو بھی جوانوں کے مسئلے میں ذمہ دار ٹہراتا ہے "وَاٴَنکِحُوا الْاٴَیَامَی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَکُونُوا فُقَرَاءَ یُغْنِھِمْ اللهُ مِنْ فَضْلِہِ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیم.ٌ"غیر شادی شدہ مردوں اور عورتوں کی شادی کردو اور اسی طرح اپنے نیک غلاموں اور کنیزوں کو بھی بیاہ دو، اگر تنگ دست ہوئے تو الله اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا، الله بہت صاحب وسعت اور علیم ہے۔
پروردگار ہم سے کہہ رہا ہے کہ پورا معاشرہ اس مسئلے میں اقدام کرے،مالی اور اقتصادی مشکلات کو حل کرنا پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے اسی وجہ سے قرآن میں جمع کا صیغہ لا کر معاشرے کو خطاب کیا ہے؛"وَاٴَنکِحُوا الْاٴَیَامَی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَکُونُوا فُقَرَاءَ یُغْنِھِمْ اللهُ مِنْ فَضْلِہِ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیم.ٌ"
اور اس مسئلے میں ہم عموماً فقر وفاقہ کی شکایت کرتے ہیں تو پروردگار عالم ضمانت دے رہا ہے کہ تم قدم بڑھاؤ تمہارے فقر کو ہم امیری میں تبدیل کریں گے تو ہمیں خدا کے وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور اقدام کرنے کی ضرورت ہے عموماً ہمارے معاشرے میں اس اعتبار سے بہت سارے مسائل ہیں شریعت نے کہا ہے کہ نکاح کے بعد لڑکی شوہر کے گھر بھیج دے لیکن عموماً آج کل ہمارا معاشرہ ماڈرن ہو چکا ہے اور ہم نے مغرب کو اپنا رول ماڈل قرار دیا ہے اور اسلام کے احکام سے روگردانی اختیار کی ہے اس وجہ سے مختلف قسم کی سزائیں بھی ہم کاٹتے ہیں اور بہت ساری خواتین یا تعلیم کے بہانے ان کی بالکل بھی شادی نہیں ہوتی وہ اپنے گھر بیٹھے اپنی عمر کو گوا بیٹھتی ہیں اور ان کے لئے ہمسر کے انتخاب کا مرحلہ ہی نہیں آتا دراصل یہ بھی ہمارے معاشرے میں خود ایک بہت بڑے ظلم کا مصداق ہے، انتخاب ہمسر کے حوالے سے چونکہ آج کل کے معاشرے میں پاکیزہ باکردار با عفاف خواتین کی مقدار بہت کم ہیں تو قرآن مجید اس حوالے سے ہماری رہنمائی کرتا ہے سورہ مبارکہ نور کی آیت نمبر26 میں آیا ہے کہ ہم کسے انتخاب کرے اور کون ہماری زندگی میں شریک حیات بن کر آسکتی ہے یہ جوانوں کےلئے اہم ترین سوال ہے آج کل بہت ساری شادیاں سوشل میڈیا،فیسبک،واٹس ایپ پر انجام پاتی ہیں، نہ خاندان کا پتہ نہ کسی اور طریقے سے آشنائی بس صرف ایک ہیلو کرنے سے ان کے درمیان دوستی اوربات شادی تک پہنچ جاتی ہے۔
پروردگار ایک معیار دے رہا ہے "الخبیثات للخبیثین والخبیثون للخبیثات" جو خبیث بدعقیدہ خواتین ہیں وہ بدعقیدہ مردوں کےلئے ہی زیبا ہیں اورجو بدعقیدہ مرد ہے وہ خبیث عورتوں کےلئے ہی لائق ہے،خبر دار! نیک اور صالح لوگوں کے لئے خبیث عورتوں کا انتخاب نہ کرو اور اسی طرح طیبات کا خبیثوں کے ساتھ رشتہ مت جوڑو۔ تبہی تو ہمارے معاشرے میں بہت ساری لڑکیوں کی جبر و ستم سے شادی ہوتی ہے لڑکی روتی، چیختی اور لڑتی ہے کہ میں نے اس سے شادی نہیں کرنی ہے لیکن والدین کسی نہ کسی وجہ سے یا تو والدین غریب ہیں مال ودولت کی طمع یا تو کسی بدمعاش انسان کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہیں، دراصل وہ لڑکی راضی نہیں ہے لیکن شادی ہوجاتی ہے بسا اوقات ایسی شادیاں جب تک لڑکی راضی نہ ہو نکاح بھی باطل ہے یہ شادی جب تک لڑکی کی رضایت سامنے نہ آئے یہ شادی جائز نہیں ہے یعنی یہاں پر پروردگار عالم نےشادی کے حوالے سے ایک معاشرتی اصول دیا ہے کہ خبیث لوگوں کا نکاح طیب لوگوں کے ساتھ نہ ہو اور اسی طرح طیب خواتین کا نکاح خبیث کے ساتھ منع ہے تو یہاں پر پروردگار عالم نے واضح طور پر فرق کو بیان کیا ہے۔
یہ شریعت کا اہم ترین حکم ہے کہ آپ انتخاب ہمسر کے وقت اس شیء کا خیال رکھے کیونکہ شادی کے بعد جو سب سے بڑا مسئلہ ہے اولاد کا ہے امام خمینی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ماں کی گود مرد کی معراج ہے اگر مرد کمال کی طرف جاتا ہے تو اس کا پہلا مدرسہ ہی ماں کی گود ہے جب ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہے تو دیکھنا ہے کہ مدرسے کو کیسا ہونا چاہئے یہ گود کن خصوصیات کی حامل ہے؟ ہر گود میں آپ کی اولاد کی تربیت نہ ہو۔
کیوں؟ اس لئے کہ قرآن فرما رہا ہے: "والبلد الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ والذی خبث لا یخرج منه الا نکدا؛" یہ سورہ مبارکہ اعراف کی آیت نمبر58 ہے پروردگار عالم یہاں پر ایک ضرب المثل کو بیان کرتا ہے کہ جو طیب زمین ہوگی اس میں آپ جو بھی بوئیں گے تو وہاں پر طیب چیزیں ہی نکلیں گی لیکن جو خبیث اور نکمی زمین ہوگی وہاں سے آپ کو کانٹے اور خاردار چیزوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ملے گا اور یہی اشارہ ہے کہ جو گود پاکیزہ ہو اس پاکیزہ گود میں پلنے والا بچہ بھی پاکیزہ ہوگا، کل کو وہ معاشرے میں ایک صحیح فرد بن کر اپنا کردار ادا کرسکے گا وگرنہ جو گود پاکیزہ نہ ہو اس گود میں پلنے والی نسل بھی آلودہ ہوگی یہی وجہ ہے آپ تاریخ میں دیکھیں گے بہت سارے تاریخ کے شہسوار تاریخ کے میدان میں یا تو ان کے منفی کردار ہمارے سامنے ہے یا مثبت کردار ہمارے سامنے ہے۔ کربلا کے میدان میں ایک یزیدی لشکر ہے اور ایک طرف حسینی لشکر ہے لیکن دونوں کے درمیان زمین اور آسمان کا فرق ہے کیونکہ گودوں کی تربیت کی وجہ سے امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے میدان میں باربار اپنے خطبوں میں فرمایا کہ میری جدہ خدیجتہ الکبری ہیں جسے سیدہ نساء العالمین کہتے ہیں اور میری ماں فاطمہ بنت رسول اللہ ہیں جو سیدہ نساء العالمین ہیں ،میں پاکیزہ گودوں میں پلا ہوں اور اسی طرح یزید کی تربیت کس طرح ہوئی ابن سعد کی تربیت کیسے ہوئی تو دراصل خبیث گودوں میں پلنے والے خبیث ہی نکلتے ہیں اور طیب گودوں میں پلنے والے طیب نکلتے ہیں اسی وجہ سے قرأن بلد طیب کے انتخاب کا امر دیتا ہے تاکہ پاکیزہ کردار سامنے آئے۔
سورہ مبارکہ نور کی آیت نمبر 27میں ارشاد پروردگار ہو رہا ہے: "وقال نوح رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا انک ان تذرھم یضلوا عبادک ولا یلدوا الا فاجرا کفارا۔نوح یہ دعا کر رہے ہیں،کافروں میں سے بھی کسی کو نہ چھوڑنا سب کو غرق کرنا سب کو عذاب میں مبتلا کرنا اس کے بعد وہ علت بھی بیان فرما رہے ہیں پروردگار دراصل اس اجتماعی قانون کو نوح کی زبان سے بیان فرما رہا ہے تاکہ یہ قانون ہم تک پہنچے اور ہم ان قوانین پر عمل کریں قانون یہ ہے کہ نوح کہہ رہے ہیں کہ اگر ان کافر گھروں کو چھوڑدے تو یہ معاشرے میں کردار ادا کریں گے ان کا کردار یہ ہوگا کہ یہ آپ کے بندوں کو راہ ہدایت سے گمراہ کریں گے چونکہ ان کی تربیت نہیں ہوئی یہ کافر گھروں میں ہے کافر گودوں میں پلا ہے ان کے ماں باپ کافر ہیں یہ پورا ماحول کافر ہے یہ پورا معاشرہ کافروں کا ہے تو کافر نسل سے وہی سامنے آئے گا جو تیری عبادت کرنے والی نسلوں کو گمراہ کرے گا یہاں پر نوح کی زبانی یہ بھی خبر دے رہا ہے بلکہ ان کے جو بچے ہوں گے ان میں بھی دو خصوصیات ہوں گی، ایک وہ فاجر ہوں گے اور دوسری خصوصیت وہ کفران نعمت کا شکار ہوں گے تو دراصل ہمارے پاس ایک قانون ہے وہ ہے قانون وراثت؛وراثت یہ ہے کہ بعض جو خاندانی صفات ہیں وہ صفات انسان سے منتقل ہوجاتی ہیں اور اس کی نسل تک پہنچ جاتی ہیں اسی وجہ سے جناب زھراء علیہا السلام کی شہادت کے بعد امیر المؤمنین علیہ السلام شادی کرنے سے انکاری تھے چونکہ جب تک جناب سیدہ زندہ تھیں آپ نے کسی دوسری عورت کا انتخاب نہیں کیا لیکن بعد میں جب اسرار کیا تو مولا نے عقیل کو بلا کر فرمایا کہ میرے لئے کسی ایسے خاندان سے بیوی کا انتخاب کرو وہ خاندان حسب ونسب، شجاعت کے اعتبار سے غیرتمند خاندان ہو تاکہ اس خاندان کی لڑکی سے جو میری اولاد ہوں گی وہ بھی ایک باغیرت نسل ہو، یہی وجہ ہے کہ جب ام البنین کا انتخاب کیا ان کا نام فاطمہ تھا لیکن ایسی شرافت مند خاتون تھیں کہ جب گھر میں آئی تو کہا مجھے فاطمہ نہ کہو میں فاطمہ کے بیٹوں کی نوکرانی بن کے آئی ہوں اور یہی وجہ ہے کہ جناب ام البنین سے عباس علمدار جیسے شجاع اور باغیرت بیٹے مولا امیر المومنیں کو عطا ہوئے اور عباس دراصل فاطمہ سلام اللہ علیہا کی دعاؤں اور علی علیہ السلام کی نماز تہجد کے آنسوؤں کے مجموعے کا نام ہے۔
پیغمبر(ص) فرماتے ہیں: تزوجوا فی الحجز الصالح فان العرق دساس۔
صالح اور اصل خاندان میں شادی کرو اگر کسی بیوی کا انتخاب کرنا ہے تو اس کا خاندان دیکھو خاندان کیسا ہے چونکہ اس نطفے کا اثر آگے ہے ایک جہگے پر آکے یہ رکتا نہیں ہے بلکہ اس نے آگے نسلوں میں منتقل ہونا ہے لیکن اپنے ساتھ آبا واجداد کی اخلاقی صفات ہیں انکی خصلتیں ہیں صلب پدری سے رحم مادری کی طرف تو یہ انتہائی اہم ترین نکتہ اور مرحلہ ہے۔
اسلام نازک مرحلے کی طرف انسانوں کی توجہ کو مبذول کرتا ہے اور اسی طرح ہر لڑکی کو لینے سے منع کرتا ہے بلکہ اسلام کہتا ہے لڑکی کو جمال کی خاطر نہ لو ممکن ہے بہت ساری لڑکیاں جمال تو رکھتیں ہیں لیکن صفات انسانی نہیں رکھتیں اسی لئے لڑکی کے انتخاب کے وقت اس کے دین کی طرف نگاہ کرو نہ کی جمال کی طرف، اگر ایسا ہوا توپروردگار عالم، مال اور جمال دونوں عطا کرے گا۔ یہ فقط بیوی نہیں ہے بلکہ شریک حیات ہے آپ کی نسل کے آگے بڑھنے کا ذریعہ ہے، اس کی گود میں آپ کی اولاد نے یا معراج تک جانا ہے یا اسفل السافلین تک جانا ہے چونکہ ماں کا کردار بہت اہم ہے آپ قرآن میں دیکھیں گے کہ نوح کا بیٹا کیوں گمراہ ہوا اس لئے کہ بدعمل ،بدعقیدہ ماں کی گود میں پلا تھا اسی وجہ سے یہ نسل منحرف ہوگئی کیونکہ بدعقیدہ گود میں پلی تھی اسی لئے صم بکم عمی فھم لا یرجعون کے مصداق بنیں، اب یہاں پر لاکھ کوشش بھی کرے تو ہماری کوشش نتیجہ نہیں دے گی اس وجہ سے نوح جیسے نبی نوح جیسے مبلغ دین نوح جیسے صاحب شریعت نبی پکارتے رہے، بلاتے رہےلیکن ایمان لانے کے بجائے کافر بیٹا کہتا رہا کہ مجھے پہاڑ بچائے گا دیکھو کتنا بدعقیدہ اولاد نکلی کیونکہ ایک ناپاک گودی میں یہ پلا تھا تو ہمیں بدعقیدہ لڑکیوں سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔
پیغمبر اسلام (ص) دوقسم کی عورتوں سے شادی کرنے سے صاف منع فرماتے ہیں" ایاک والخضرا الدمن" بچو اس سبزے سے جو گوبر کے اوپر نکلے بعض اوقات اس گوبر کے اوپر سبزہ نکلے لیکن دیکھنے میں بہت خوبصورت ہے لیکن اس کی جڑ ناپاک ہے چونکہ جس جڑ سے اس کے وجود کےلئے غذا ملی ہے وہ پاکیزہ نہیں ہے دراصل یہاں پر ایک مثال پیغمبر(ص) دے رہے ہیں،اصحاب حیران ہو گئے اور سوال کیا یا رسول اللہ ومالخضراء الدمن؟ وہ گوبر پہ نکلنے والا سبزہ کونسا ہے؟ تو پیغمبر(ص) نے فرمایا:" المرءہ الحسناء فی منبت السوء"
مراد وہ عورت ہے کہ جو پست اور خبیث خاندان میں پلی ہو نہ صلب پدری میں کوئی برکت ہے نہ رحم مادری میں کوئی برکت ہے۔
اسی لئے فرمایا :"السعید سعید فی بطن امہ والشقی شقی فی بطن امہ" ؛ جو سعید ہوتا ہے وہ ماں کے پیٹ سے مبارک بن کے نکلتا ہے اسی طرح جو شقی ہوگا وہ ماں کے بطن سے شقی بن کے آتا ہے ماں کی گفتگو اس بچے پر اثر کرے گی ماں کا کردار اس بچے پر اثر کرے گا حتی بچہ شکم مادر میں ہی کیوں نہ ہو،لہذا ہمارے جوانوں کو انتخاب ہمسر کے دوران بہت ہی دقت اور باریک بینی سے اقدامات اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔
جاری ہے۔