حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، استاد شیخ یعقوب بشوی کے پندرہواں درس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الله تبارک وتعالی:"قُلْ لا اٴَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی." آج کے دن پیغمبر(ص) کے گھر میں خوشی ہے اور آج جو مولود بابرکت اس دنیا میں آیا ہے یہ ایسا بابرکت مولود ہے کہ جب یہ دنیا میں آیا تو امیر المؤمنین علی علیہ السلام اس بچے کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس لے گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ آپ اس بچے کا نام انتخاب کریں، پیغمبر فرماتے ہیں: میں اپنے خدا پہ سبقت نہیں لےسکتا تو اتنے میں جبرئیل امین نازل ہوئے اور کہا اللہ نے اس بچے کا نام حسن رکھا دیا ہے۔
یقیناً اس عظیم ہستی کی محبت اور فضیلت دیکھنا چاہیں تو قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں مولا کی فضیلتیں بیان ہوئی ہیں ، مولا کے روزہ رکھنے کے بارے میں سورہ دھر نازل ہوا، یقیناً اس سورے میں اقتدار آل محمد کا تذکرہ ہے کہ دنیا میں ان کا کردار اور آخرت میں ان کی حکومت اور ان کےلئے جو اجر وثواب اور ان کی نیتوں تک کا تذکرہ خدا نے اس سورے میں بیان کیا ہے۔
اسی طرح عصمت وطہارت کے اس عظیم مالک کی اگر ہم آیتوں میں فضیلت ڈھونڈنا چاہیں تو خداوند عالم نے سورہ مبارکہ احزاب میں آیہ تطہیر کی شکل میں امام حسن مجتبی کی طہارت اور عصمت کا اعلان کیا ہے اور اس ہستی کی مزید اگر فضیلت کو ڈھونڈنا چاہیے تو سورہ احزاب آیہ درود کی شکل میں قیامت تک آنے والے انسانوں کےلئے ان پر درود کو خدا نے لازمی قرار دیا ہے کہ جب بھی محمد وآل محمد کا تذکرہ ہوتو ان پر درود وسلام بھیجو اور اسی طرح مولا کی محبت کے بارے میں اگر ہم دیکھنا چاہیے تو سورہ مبارکہ شوری میں،"قُلْ لا اٴَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی." کہہ کر اللہ نے ان کی محبت کو قیامت تک آنے والے انسانوں پر واجب قرار دیا ہے۔
قرآن کے آئینے میں مولا امام حسن(ع) کی فضیلتیں بہت زیادہ ہیں ان کی فضیلتوں کا کوئی احصاء نہیں ہے آپ سورہ کوثر کے مصداق اتم ہیں۔
سبط نبی اکبر(ع) کا ایک اخلاقی پہلو یہ ہے کہ آپ نے ہر موڑ پہ انسانیت کی رہنمائی فرمائی اور اسی وجہ سے آپ نے معاشرتی مسائل کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کروائی اور ان کے راہ حل کی طرف بھی آپ نے توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا:لوگو!معاشرے میں جو لوگ ہلاک ہوتے ہیں ،وہ تین قسم کے لوگ ہیں اور ان کو تین چیزیں ہلاک کرتی ہیں:
1۔کبر وتکبر؛ ایک انتہائی رذیلانہ اور ایک بری صفت ہے کہ انسان خود بینی اور برتر بینی کی اس مذموم صفت میں مبتلا ہوتا ہے، جب انسان تکبر کی بیماری میں مبتلا ہو جائے چونکہ کبیر المتعال اللہ کی صفت ہے،اللہ کی کسی بھی صفت کو ہم مخلوق کےلئے تصور نہیں کر سکتے، کیونکہ متکبر اللہ کی ذات ہے اور اسی لئے فرمایا:تکبر کرنے کا حق کسی مخلوق کو نہیں ہے،امام نے فرمایا: بچو اس بری صفت سے، اس لئے کہ تم کیا عبرت نہیں لیتے؟
ابلیس نے سب سے پہلے تکبر کیا تو پروردگار نے قیامت تک اسے ملعون قرار دیا لہذا جو بھی اس صفت کو اپنے اندر پیدا کرے گا تو قیامت تک لعنت کا مستحق قرار پائے گا،کیونکہ یہ صفت معاشرہ اور انسان سوز صفت ہے۔
2۔ دوسری مضموم صفت حسد ہے؛آپ نے فرمایا: کہ حسد سے بچو اس لئے کہ حسد ایک بری معاشرتی، اخلاقی ،اجتماعی اور فردی صفت ہے لہذا یہ صفت بھی کسی گھر اور معاشرے کو نابود کرنے کےلئے کافی ہے۔
مولا فرماتے ہیں:کیا تم آدم کے بیٹوں سے عبرت نہیں لیتے؟ ایک دوسرے سے حسد کی وجہ سے ، ایک نے دوسرے کو قتل کردیا اور اس کی نسل ہی ختم ہوگئی اور حاسد قیامت تک لعنت کا حقدار قرار پایا۔
ہابیل اور قابیل کا قصہ ،قابیل نے حسد کیا تو وہ پروردگار عالم کی لعنت کا مستحق قرار پایا، معاشرے میں منفور ہوا اور قیامت تک کے انسانوں کےلئے وہ بدبختی کی علامت بنا کیونکہ حسد تمام برائیوں کی ماں اور جڑ ہے۔ ہمیں اگر اپنے ایمان اور اعمال کو محفوظ رکھنا ہو تو اس بری صفت سے بچنے کی ضرورت ہے۔
یہ صفت بہت ہی بری اور ایمان کو ختم کرنے والی صفت ہے یہاں تک کہ پروردگارعالم حسد سے پناہ لینے کی تعلیم دے رہا ہے "ومن حاسد اذا حسد"
3۔ تیسری مضموم صفت؛لالچ کی صفت ہے اگر یہ صفت کسی میں آجائے تو خدا کی بڑی نعمتوں سے محروم ہو جائے گا، امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں: اپنے بابا آدم اور اماں حوا کی طرف دیکھیں اسی لالچ کی صفت تھی جس نے ان کو جنت سے نکال کر زمین کی طرف بھیج دیا لہذا ہمیں ان اخلاقی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
امام حسن مجتبٰی(ع) کی ذات اور ان کے کردار سے آگاہ رہنا ضروری ہے ، آپ علیہ السلام کے کردار کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) کی ایک معروف حدیث ہے کہ "الحسن والحسین سیدي شباب اھل الجنہ"؛ پیغمبر امام حسن کے مستقبل کی ضمانت دے رہے ہیں کہ میرا حسن کوئی معمولی شخصیت نہیں ہے بلکہ یہ جنت کے جوانوں کے سردار ہے۔امام حسن کو پیغمبر اپنے آغوش میں لے کر امت سے کہتے تھے لوگو میں حسن سے محبت کرتا ہوں تم بھی حسن سے محبت کرو اور جو حسن سے محبت کرے گا میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جو حسن سے بغض رکھے گا میں اسے بغض رکھتا ہوں اور متعدد مقامات پر پیغمبر نے فرمایا لوگو یہ میرا بیٹا حسن ہے جو اسے جنگ کرے گا اس سے میری جنگ ہوگی جو اسے صلح کرے گا اسے میری صلح ہوگی۔
اسی لئے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ امام حسن نے صلح کیوں کی ؟سوال تب ہوگا کہ امام حسن صلح نہیں کرتے اس لئے صادق وامین پیغمبر نے خبر دی تھی کہ حسن صلح کریں گے جب پیغبر نے خبر دی تھی کہ حسن صلح کرے گا تو صلح نہ کرے تو تعجب کا مقام ہے۔
پیغمبر (ص) نے فرمایا:"الحسن والحسین امامان قاما اوقعدا" حسن اور حسین علیہم السلام دونوں امام ہیں،یہاں لفظ امام کو لایا اس لئے کہ یہاں اس منصب کا تذکرہ کیا جس منصب کو ابراہیم نے اپنی نسل کےلئے پروردگار سے مانگا تھا جب ابراہیم کو امامت کا عہدہ ملا تو کہا :"قال ومن ذریتی قال لاینال عھدی الظالمین" تو اللہ نے ابراہیم سے کہا یہ عہدہ تیری نسل میں تو چلے گا لیکن جو ظالم ہوگا اس عہدے سے محروم رہے گا تو یہاں پر پیغمبر اسلام نے وہی لفظ امام کو لایا ہے بس جو بھی حسن اور حسین علیہم السلام سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا وہ ہلاک ہوجائے گا اور جو حسن اور حسین علیہم السلام سے لڑے وہ بھی ہلاک ہوجائے گا اس لئے پیغمبر(ص) فرما رہے ہیں یہ دونوں تمہارے امام ،پیشوا اور رہبر ہیں، امت کا کام رہبرکے پیچھے پیچھے چلنا ہے،تو یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام وہ نہیں ہوتا جسے بادشاہت ملے امام وہ نہیں ہوتا جو تخت پر بیٹھے امام وہ نہیں ہوتا جو حکومت چلائے اس لئے یہ منصب الہی ہے، منصب الہی، مصلی پہ بیٹھنے والوں کو عطا ہوتا ہے یہی تو وجہ ہے منصب نبوت، ابراہیم علیہ السلام کے حصے میں آیا ہے اگر یہ منصب تخت والوں کےلئے ہوتاتو ابراہیم کے بجائے نمرود کو ملنا چاہئے تھا اس لئے نمرود تخت کا مالک تھا،نمرود بادشاہ تھا اور نمرود حکومت کرتا تھا، لیکن الہی قیادت کا مالک،الہی عہد کا مالک،الہی رہبری اور الہی منصب کا مالک ابراہیم قرار پائیں اور وہی ابراہیم کی قیادت حسن تک چلی ہے ابراہیم کی قیادت حسین تک چلی ہے اسی وجہ سے پیغمبر نے فرمایا حسن اور حسین دونوں امام ہیں صلح کریں یا جنگ۔ تمہیں نہ حسن پر اعتراض کرنے کا حق ہے نہ حسین پر ،بلکہ امت کی ذمہ داری یہ ہے کہ حسن علیہ السلام اگر صلح کریں تو حسن علیہ السلام کی اطاعت کرے حسین اگر جنگ کریں تو حسین علیہ السلام کی اطاعت کرے کیونکہ یہ دونوں ہستیاں امام ہیں اور امت کو امام سے سوال کرنے کا حق نہیں ہے بلکہ یہاں پر تسلیم کی منزل ہے۔
جاری ہے ۔
آپ کا تبصرہ