حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، استاد شیخ یعقوب بشوی نے سورہ مبارکہ آل عمران کی 133ویں آیت"وَسارِعُوا إِلی مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّماواتُ وَ الْاٴَرْضُ اٴُعِدَّتْ لِلْمُتَّقینَ."ایک دوسرےپر سبقت حاصل کرو اپنے پروردگار کی مغفرت اور جنت کے لئے، جس کی وسعت تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے،کو عنوان درس قرار دیتے ہوئے کہا کہ پروردگار عالم نیکیوں کی طرف دوڑنے کا حکم دیتا ہے اور اس آیت کو "لفظ امر" سے شروع کیا عموماً ہم جو کام کرتے ہیں یا ہم سستی کے شکار ہوتے ہیں یا بڑے کاموں میں دقت اور توجہ نہیں ہوتی تو در اصل پروردگار عالم ہماری توجہ ایک ایسے امر کی طرف مبذول کر رہا ہے جو کام بھی انجام دیں اس میں سرعت،سبقت اور جلدی کریں۔
استاد جامعۃ المصطفی شیخ یعقوب بشوی نے کہا کہ اس آیت میں ہر جلدی مطلوب نہیں ہے چونکہ معاشرے میں بہت سارے گناہ اور منفی کام ایسے ہیں کہ جن کی طرف نہ فقط جلدی کرنے کی ممانعت موجود ہے بلکہ ان کی طرف انسان کو توجہ کرنے سے بھی روک دیا ہے، بعض گناہ ایسے ہیں کہ ان کی طرف تمایل ومیل بھی اگر پیدا ہو تو ممکن ہے وہ اعمال ہمیں جہنم کی طرف لے جائے۔
حجۃ الاسلام بشوی نے مزید کہا کہ ہمیں بہت سارے امور سے بچنا چاہئے اور ان سے بچنے کےلئے قرآن نے کبھی نہی کا صیغہ اور کبھی نفی کا صیغہ استعمال کر کے انسانوں کو ان امور سے روکا ہے اور اگر کہیں پر نہی یا نفی نہیں تو پروردگار عالم ان گناہوں کے نقصانات کا تذکرہ کر کے انسان کو غور، تدبر، تعقل،سمجھنے،عبرت اور سبق لینے کی دعوت دی ہے یہ سب اس لئے ہے تاکہ برے اعمال اور اس کے اثرات سے بچ سکے کیونکہ کسی بھی نیک یا بد عمل اور ان کا اثر۔فقط انسان کی ظاہری حیات تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ اثرات انسانی ابدی زندگی پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں اسی لئے قرآن سختی کے ساتھ ان چیزوں کی نفی کر رہا ہے۔
جامعۃ المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے استاد نے بیان کیا کہ کبھی پروردگار براہ راست امر دیتا ہے کہیں براہ راست امر نہیں دیتا بلکہ ان کے نتائج اور ان کے اثرات و ثمرات کو بیان کرتا ہے تاکہ انسان متوجہ ہوجائے اور انسان کی توجہ ان امور کی طرف مبذول کرائی جا سکے تو مذکورہ بالا آیت میں پروردگار عالم نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ایک انتہائی اہم لفظ ہے اور وہ ہے "سارعوا" کا لفظ،یہ جمع اور امر کا صیغہ ہے انسان عمل میں تیزی لے آئے کیوں پروردگار عمل میں جلدی کرنے کا امر کر رہا ہے؟ روایتوں میں آیا ہے کہ کوئی بھی عمل جب انسان بجا لانا چاہے اور اور وہ عمل انسان کی منفعت میں ہو تو شیطان فوری طور پر اس عمل میں دخالت کرتا ہے چونکہ شیطان کا کام "یوسوس فی صدور الناس" ہے جب شیطان کا کردار ہی وسوسہ ہے تو انسان کوئی بھی نیک عمل بجا لانا چاہے تو فوری طور پر وسوسہ ڈالتا ہے اور انسان اور اس کے عمل کے درمیان شیطان جدائی ڈالتا ہے اسی وجہ سے روایتوں میں آیا ہے کہ جب عمل کرنے کی نیت کرو تو فوری طور پر عمل بجا لاؤ،قرآن بھی کہتا ہے کہ نیک عمل بجا لانے کے لئے دوڑ پڑو اور خصوصاً اس عمل میں کہ جس عمل کا تعلق انسان کی نجات سے ہے جس عمل کا تعلق انسان کی سعادت سے ہو جس عمل کا تعلق انسانی تکامل اور ایمان سے ہو تو اس عمل کی طرف ہمیں دوڑنے کی ضرورت ہے اور دوڑنے میں جو اہم ترین چیز ہے وہ ہے "دقت" عمل کی انجام دہی میں مکمل طور توجہ، تلاش اور انرجی صرف کرنے کی ضرورت ہے چونکہ دوڑنے میں انسان ایک مرتبہ عادی طریقے سے راہ چلتا ہے تو زیادہ توجہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن دوڑنے میں وہ انرجی باقی ہو بہت سارے موارد ایسے ہیں کہ انسان راہ تو چلتا ہے لیکن دوڑنے کی طاقت نہیں ہے دوڑنے کا حوصلہ نہیں ہے اور حوصلہ پیدا کرنے کےلئے ایسا اجر یا انعام رکھے جو دوڑنے کےلئے انسان کو تشویق دلائے اور انسان کے اندر رغبت پیدا کرے اگر دوڑے تو کیا ملے گا البتہ اس آیت میں ہماری زندگی سے متعلق متوجہ کر رہا ہے کہ تیری عمر ختم ہورہی ہے اب اپنی زندگی کو بچاؤ اور نیک اعمال میں صرف کرو اور نیک اعمال بجا لانے میں سبقت کرو ایسے نیک اعمال جو تمہاری مغفرت اور بخشش کا سبب بنے تو ان اعمال کی طرف دوڑو اور یہ مغفرت یہ بخشش تمہارے پالنے والے کی طرف سے ہے تو پروردگار کی طرف دوڑے تو مغفرت عطا ہو گی جب مغفرت ہو گی تو نتیجے میں جنت ملے گی۔
حجۃ الاسلام شیخ یعقوب بشوی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ مذکورہ بالا آیت میں کیوں مرحلہ مغفرت کو پہلے اور جنت کے مرحلے کو بعد میں رکھا؟ وضاحت کی کہ دراصل جنت طیب اور طیبات کا مقام ہے کوئی گناہگار کوئی پلید انسان کوئی نجس انسان بد عقیدہ لے کر جنت میں داخل ہو ہی نہیں سکتا چونکہ جنت مقام قرب الہی ہے تو مقام قرب الہی تک کسی پلید شیء کی پہنچ نہیں ہے،جنت طیب اور پاکیزہ عقیدہ والوں کیلئے ہے جنت پاکیزہ کردار والوں کیلئے ہے اسی وجہ سے کہا مغفرت اور جنت کی طرف جانے میں سبقت لو، لیکن پہلے مغفرت کا مرحلہ ہے پھر جنت کا مرحلہ ہے۔
انہوں نے اس آیت کی تفسیر میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ایک روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امیر المومنین علیہ السلام "وساعوا الی مغفرۃ" کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وسارعوا الاداء الفرائض پروردگار نے جو اعمال تم پر واجب کئے ہے ان اعمال کی انجام دہی کیلئے جلدی کرو، اسی وجہ سے قرآن دستور دے رہا ہے اور سیرت پیغمبر(ص) میں بھی یہی ہے یہ اذان بھی مغفرت کی طرف دعوت عام ہے حی علی الفلاح فلاح کی طرف آجاؤ، دعوت خیر ہے حی علی خیر العمل عمل خیر کی طرف آجاؤ جو کہ سب سے بہترین عمل ہے اسی وجہ سے فرمایا: "
وَ سارِعُوا إِلی مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّماواتُ وَ الْاٴَرْضُ اٴُعِدَّتْ لِلْمُتَّقینَ."
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنت کہاں ہے؟کس جنت کی طرف خدا بلا رہا ہے؟یہاں پر جو ارض ہے یہ طول کے برابر میں نہیں ہے بلکہ اس کی وسعت کو بیان کر رہا ہے تو جنت جس کی وسعت زمینوں اور آسمانوں کے برابر ہے تو ابھی تک نہ زمین کی تہہ کا پتہ چلا نہ آسمان کی بلندی کا پتہ چلا تمام تر سائنسی تحقیق کے باوجود تمام تر علمی پیشرفت کے باوجود تمام تر بشری دعوؤں کے باوجود ابھی تک زمین کی تہہ کا کسی کو پتہ نہیں چلا ابھی تک پہاڑوں کی جو عمیق گہرایاں ہیں ان کا کسی کو پتہ نہیں چلا ابھی تک قرآن آسمانوں کی بات کر رہا ہے ابھی تک پہلے آسمان کی انتہا کا پتہ نہیں چلا لیکن خدا نے مؤمن اور آگے بڑھنے والوں کےلئے ایسی جنت کا انتظام کیا ہے کہ تمام زمینوں اور آسمانوں سے بڑھ کراس کی وسعت ہے۔
شیخ یعقوب بشوی نے آیت کریمہ کے بارے میں آیت اللہ جوادی آملی مفسر قرآن کی تفسیر کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں یہ تمام چیزیں متقین کےلئے نہیں ہیں،خدا کی طرف سے اتنی بڑی سلطنت مل رہی ہے، سارت متقین کی جاگیر یا پھر ان کا تذکرہ نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ سب ایک متقی بندے کی جاگیر ہیں یہاں دنیا میں ہم دو گز زمینوں کے لئے آپس میں لڑتے ہیں دو گز زمین کےلئے نہ حلال دیکھتے ہیں نہ حرام ایک میٹر زمین لینے کے لئے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں عدالتوں کا سامنا کرتے ہیں کیوں ایک دوسرے سے لڑتے ہیں کیونکہ اپنے کو ضرر سے بچانا چاہتا ہے، منفعت لینا چاہتا ہے یہ انسان کی فطرت ہے،لہذا قرآن نے"وَ سارِعُوا إِلی مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُھا السَّماواتُ وَ الْاٴَرْضُ اٴُعِدَّتْ لِلْمُتَّقینَ " کہہ کر بہت بڑا فلسفہ بیان کیا ہے اے کاش ہم ان آیتوں میں غور و فکر کرتے۔
جاری ہے۔