تحریر: سید قمر عباس قنبر نقوی سرسوی - نئی دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی | عالمی وبا کورونا جس نے دنیا کو عاجز و نظامِ زندگی کو مفلوج کرنے کے ساتھ دینِ اسلام کے بنیادی رُکن حج بیت اللہ کی سعادت سے بھی دو سال تک محروم کردیا ( انِ دو سالوں میں صرف سعودی عرب میں مقیم افراد ہی نے انتہائی مختصر تعداد میں مناسک حج ادا کیے تھے حج 2022 کے لیے بھی حکومت سعودی عرب خاموشی اختیار کیے ہوئے تھی دنیا کے کسی ملک حج 2022 کی تیاریاں شروع نہیں کیں تھیں - خدا کا شُکر ہے کہ ہندوستان دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جس کی وزارت اقلیتی امور ( نگران امورِ حج ) نے اپنے وزیر مختار عباس نقوی کی قیادت میں حج 2022 کی تیاریں اس وقت شروع دیں تھیں جب ظاہری طور پر حج کے آثار سیاہ نہیں تو دھندلے ضرور نظر آرہے تھے، پوری دنیا حج کے حوالے سے تذبذب اور مایوسی کا شکار تھی ہماری ہندوستانی حکومت یقین و اطمینان کے ساتھ حج کی تیاریوں میں مصروف تھی - خداوند متعال کا شُکر ہے دو سال کے بعد بیرونی مسلمانوں کو بھی حج کی اجازت مل گئی ۔ حج کی اجازت ملنے پر جہاں مسلمانوں میں ایک طرف اطمینان ہے وہیں دوسری جانب عازمینِ حج کی عمر اور تعداد معین و مقرر کرنے پر حکومت سعودی عرب کے لیے مایوسی اور ناراضگی اظہار بھی ہو رہا ہے - بہرحال خوشیوں اور سعادتوں کے سفر ، سفرِ حج کا عمل شروع ہوگیا ہے۔
محترم حجاج کرام ! آپ بہت بلند نصیب ہیں کہ خدا نے آپ کو حج کی سعادت بخشی ہے کیونکہ حج وہ عظیم عبادت ہے جسکی فضیلت و عظمت اور اہمیت و افادیت حضرتِ پیغمبر اکرمؐ کی احادیث اور حضراتِ اہلیبتؑ اور حضراتِ اصحاب کرامؓ کے فرامین میں واضح طور بیان کی گئی ہے۔
حجاج کرام پروردگار نے آپ کو اتنا نورانی اور روحانی بنا دیا ہے کہ وہ آپ کی دعاؤں کو رد نہیں کر ے گا رب جلیل نے آپ کو وہ مقام بخشا ہے کہ آپ جس کے گناہوں کی بخشش کی دعا کردیں پروردگار اس کو معاف کر دے گا- آپ کا وجود اس وقت اس نومولود کی طرح ہے جو ابھی ابھی شکم مادر سے برآمد ہوا ہے - اس کا مطلب یہ ہے کہ حج بیت اللہ کی ادائیگی کے بعد ایک نئی زندگی کا آغاز ہے جس میں آپ کو عبادت و بندگی کی بنیادیں انتہائی مضبوط کرنی ہیں آپ کے کردار و اعمال میں ایسی تبدیلی پیدا ہو جو برے کاموں سے اجتناب اور نیک کاموں کی طرف توجہ کا سبب بنے - اپنا اخلاق بلند اور غصہ ٹھنڈا رکھیں اور دوسرے کے کام آنے کی کوشش کریں- محترم حجاج کرام پروردگار نے آپ کو اتنا نورانی اور روحانی بنا دیا ہے کہ وہ آپ کی دعاؤں کو رد نہیں کر ے گا- رب جلیل نے آپ کو وہ مقام بخشا ہے کہ آپ جس کے گناہوں کی بخشش کی دعا کردیں پروردگار اس کو معاف کر دے گا- آپ کا وجود اس وقت اس نومولود کی طرح ہے جو ابھی ابھی شکمِ مادر سے برآمد ہوا ہے - اس کا مطلب یہ ہے کہ حجِ بیت اللہ کی ادائیگی کے بعد ایک نئی زندگی کا آغاز ہے جس میں آپ کو عبادت و بندگی کی بنیادیں انتہائی مضبوط کرنی ہیں آپ کے کردار و اعمال میں ایسی تبدیلی پیدا ہو جو برے کاموں سے اجتناب اور نیک کاموں کی طرف توجہ کا سبب بنے۔ اپنا اخلاق بلند اور غصہ ٹھنڈا رکھیں اور دوسرے کے کام آنے کی کوشش کریں۔
حضرت پیغمبر اکرمؐ کی خدمت عالیہ میں ایک شخص حاضر ہوا کہتا ہے یا رسول اللہؐ میں صاحبِ حیثیت ہوں دولت، قوت اور صحت میرے پاس ہے لیکن دنیاوی کاموں نے مجھے ایسا جٙکڑ رکھا ہے کہ میں حج پر نہیں جاسکتا میں چاہتا ہوں کہ یہ پیسہ کہیں خرچ کردوں، خاتم النبیینؐ نے ارشاد فرمایا تو سونے کے پہاڑ کو بھی خرچ کر دہے گا تو حج کا ثواب نہیں پا سکتا، حضورؐ نے ارشاد فرمایا جا اللہ سے زندگی مانگ، توبہ کر چونکہ استطاعت کے باوجود حج ترک کرنا گناہان کبیرہ میں سے ہے۔
خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب اہمیتِ حج واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں بستیوں میں لوگوں کو بھیج کر دیکھواوں کہ کس کس کے پاس مال و دولت اور جسمانی توانائی ہے اور انھوں نے ابھی تک حج نہیں کیا تو ان لوگوں سے جزیہ وصول کیا جائے کیونکہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔
حضرت پیغمبر اسلام (ص) نے عبادتِ حج کو دلیلِ ایمان قرار دیا ہے چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں کہ فرض ہونے کے بعد حج کو ترک کرنے والے کی موت مسلمان کی موت نہ ہوگی وہ یہودی و نصرانی مرتا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے حج اور حاجی کی عظمت واضح کر تے ہوئے مزید ارشاد فرمایا کہ حج ادا کرنے والا گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے شکم مادر سے پیدا ہونے والا طفل بےگناہ۔
حضرت امام جعفرؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ نے حج فرض کیا تو اُس کا اِس امر کے لیے شکر ادا کرو چونکہ یہ آخرت کے بازاروں میں ایک بازار ہے اور اس بازار میں سامانِ آخرت ملتا ہے، یہاں سے آخرت کے لیے جتنا سامان اِکھٹا کر سکتے ہو کر لو- آپؑ نے مزید ارشاد فرمایا کہ اگر اہل قبور سے دریافت کیا جائے کہ تمہاری کوئی تمنا دنیا میں ہے تو وہ سب یک زبان ہو کر کہیں گے کاش ہمارے نامہ اعمال میں ایک حج ہوتا-
حضرت امام علی ابن حسینؑ فرماتے ہیں کہ حج وہ عظیم عبادت ہے جس کے وسیلے سے بندے کو بارگاہ پروردگار میں حاضری کا شرف نصیب ہو تا ہے اور پھر اپنے گناہوں کو معاف کرا کر واپس پلٹتا ہے چونکہ حج کے سبب توبہ قبول ہوتی ہے اور اُن تکلیفوں سے راحت ملتی ہے جنھیں خدا نے ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کے سبب ہم پر عائد کی ہیں- خلاصہ یہ ہے کہ حج ، قرآن کریم اور احادیث حضرت رسول اکرم اور فرامین حضرات اہلیبتؑ و حضرات اصحاب کرام کی روشنی میں غیر معمولی اہمیت کا حامل فریضہ اور انتہائی اہم عبادت ہے۔ حج و عمرہ کرنے والا خدا کا مہمان ہوتا ہے اور خدا اسے مغفرت اور بخشش ہدیہ کے طور پر عطا کرتا ہے ۔ حج فقر اور تنگدستی کو ختم کرتا ہے۔ حج مسلمان کو غفلت اور گناہ کی آلودگیوں سے دور کر کے پاک و پاکیزگی اور تقوی و نیکی کی بلند وادیوں تک پہنچاتا ہے - حج کو ٹالنا بے برکتی و تباہی اور باعث مصیبت و پریشانی ہے بار بار حج و عمرے کی ادائیگی باعث ثواب اور سعادت ہے لیکن ملت کے مسائل اور ضروریات کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے- حجاج کرام کو یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ حج کی یہ سب بشارتیں اُسی کو نصیب ہوگیں جو حج صرف اور صرف خوشنودئ پروردگار کے لیے طریقہ حضرت رسول اللہ (ص)، حضرات اہلیبتؑ اور حضرات اصحاب کرام کے مطابق ادا کرے گا-