حوزہ نیوز ایجنسی | حج "امت مسلمہ کے عقیدے کے اظہار اور موقف کے اعلان کی ایک جگہ" ہے اور امت مسلمہ اپنے صحیح اور قابل قبول اور قابل اتفاق رائے موقف کو بیان کر سکتی ہے، قابل قبول اور قابل اتفاق رائے... اقوام، مسالک۔ ممکن ہے حکومتیں کسی اور طرح سوچیں، کسی اور طرح کام کریں لیکن اقوام کا دل، الگ چیز ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اقوام مختلف معاملات میں اپنے موقف کا اظہار کر سکتی ہیں۔ اگرچہ برائت، ابتدائے انقلاب سے ہی حج میں موجود رہی ہے لیکن غزہ کے بڑے اور عجیب واقعات کے پیش نظر خاص طور پر اس سال کا حج، حج برائت ہے۔ اور مومن حجاج کو اس قرآنی منطق کو پوری اسلامی دنیا میں منتقل کرنا چاہیے۔ آج فلسطین کو اسلامی دنیا کی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔
حج؛ موحد انسان کی زندگي کا ایک مجموعی مرقع
حج، اسلام کے سب سے بڑے دینی واجبات میں سے ایک ہے جس کے انفرادی و سماجی پہلو بڑے نمایاں طور پر سامنے آتے ہیں۔ "انفرادی پہلو میں ہدف تزکیہ، پاکیزگي و نورانیت تک رسائي، بے قیمت مادی ذخائر سے دوری، معنویت کی طرف رغبت، خداوند متعال سے انسیت اور اللہ تعالی کا ذکر، اس سے توسل اور اس کے حضور گڑگڑانا ہے۔" (15/4/1997) اجتماعی پہلو سے دیکھا جائے تو حرم امن الہی میں مختلف مسلم اقوام کے اجتماع کا ہدف، قومیت اور شخصیت سے پرے ایک الہی امر کو جامۂ عمل پہنانا ہے تاکہ وہاں مسلمان "ایک ساتھ رہیں، ایک ساتھ رہنے کو محسوس کریں اور اس چیز کو، جو قومیت سے بالاتر ہے یعنی مسلمان ہونا اور اتحاد اسلامی، انھیں سمجھایا جائے۔" (5/ 4/ 1995) در حقیقت خداوند عالم حج میں " موحد انسان کی زندگي کا ایک جامع مرقع پیش کرتا ہے اور ایک علامتی عمل کے ذریعے مسلمانوں کو باہدف اور بامقصد زندگي کا درس دیتا ہے۔" (18 /5/ 1993) اس طرح سے کہ حج کے تمام مناسک "اس تصویر کے ایک حصے کا علامتی اشارہ ہیں جو اسلام نے اپنے مطلوبہ اجتماع کے سلسلے میں پیش کی ہے۔" (10/8/ 2019)
برائت کا موقع
حج میں "ابراہیم خلیل اللہ نے اپنے پارۂ تن کو قربانگاہ میں لا کر توحید کا ایک مظہر، جو اپنے نفس پر غلبے اور اللہ کے حکم کے سامنے پوری طرح سے سر تسلیم خم کرنے سے عبارت ہے، دنیا کی پوری تاریخ کے تمام موحدوں کے سامنے ایک یادگار کے طور پر چھوڑا۔" (18/9/ 2007) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی "وقت کے مستکبروں اور زر و زور کے خداؤں کے سامنے توحید کا پرچم لہرایا اور خدا پر ایمان کے ساتھ ہی طاغوت سے برائت و بیزاری کو نجات کی شرط قرار دیا۔" (18/12/ 2007) ان تعلیمات کی بنیاد پر ایرانی قوم نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد حج کا ایک نیا معنی اخذ کیا اور اس کے رفیع حقائق امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ذریعے ایرانی قوم کے لیے آشکار ہوئے، "برائت کے ہمراہ حج، مسلمانوں سے افہام و تفہیم والا حج ہے، وہ حج ہے جو "اشداء علی الکفار" اور "رحماء بینھم" والا حج ہے۔" (16/7/ 2018) اور فریضۂ حج میں ایک سب سے نمایاں سیاسی عمل، "برائت کا موقع ہے۔" (23/9/ 2015)
مشرکین سے برائت، حج کی روح
چونکہ کعبہ "اسلام کا مرکز ہے، اسلام کی روح اور حقیقت، توحید ہے اور خانۂ خدا توحید کا مظہر ہے، لہذا نعرہ، توحید کا نعرہ ہے اور برائت بھی، شرک سے برائت ہے۔" (5/4/ 1995) اپنے عمیق قرآنی مفہوم کے ساتھ توحید کا مطلب "اللہ کی طرف توجہ، اس کی طرف بڑھنا اور بتوں اور شیطانی طاقتوں کی نفی ہے۔" (18/5/ 1993) اور یہ بات کہ حج سے متعلق آیات میں "بارہا ذکر خدا کی بات کی گئي ہے، اس چیز کی نشانی ہے کہ اس گھر میں اور اس کی برکت سے اللہ کے علاوہ ہر عنصر مسلمانوں کے ذہن اور عمل سے باہر نکال دیا جانا چاہیے اور ان کی زندگي سے شرک کی مختلف قسموں کا خاتمہ ہو جانا چاہیے۔" (18/5/ 1993) یہی وجہ ہے کہ "مشرکین سے برائت اور بتوں اور بت پرستوں سے بیزاری، مومنوں کے حج کی جان ہے۔ حج کا ہر مقام اپنا دل خدا کے حوالے کرنے، اس کی راہ میں کوشش اور جدوجہد، شیطان سے برائت، اسے دھتکارنے اور کنکری مارنے اور اس کے مقابلے محاذ تیار کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔" (18/12/2007)
شرک سے جنگ
حج میں برائت کا مطلب "دشمن کی سازش کو برملا کرنا اور اس سے بیزاری کا اعلان ہے۔" (1/4/ 1998) "ہر زمانے کے طاغوتوں کی تمام بربریت، مظالم، برائيوں اور بدعنوانیوں سے بیزاری اور وقت کے مستکبروں کی منہ زوری کے مقابلے میں استقامت ہے۔" (5/8/ 2019) اسی لیے برائت کا پروگرام، "ان سب سے برائت و بیزاری کے اعلان کا وسیلہ ہے اور یہ ان شیطانی عناصر کی نفی اور تمام اسلامی معاشروں پر اسلام اور توحید کی حکمرانی کے قیام میں اسلامی عزم کے عملی شکل اختیار کرنے کی راہ میں پہلا قدم ہے۔" (18/5/ 1993) بنابریں برائت میں جو جنگ ہے، وہ شرک کے ساتھ جنگ ہے، کفر کے ساتھ جنگ ہے، وہ جنگ جو حج میں نہ ہو تو وہ بھائيوں اور مومنین کی آپس میں جنگ ہے۔" (11/9/ 2013)
مشرکین سے برائت: تشریح کے موقع سے لے کر مسلمانوں کی عزت کی تقویت تک
دوسری جانب مشرکین سے برائت، امت مسلمہ کے لیے کچھ اقدامات اور اثرات کی حامل ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ "آج (مغربی ایشیا کے) اس خطے میں امریکا کی شر پسندانہ پالیسیاں ایک طرف اور صیہونی حکومت کے جرائم دوسری طرف، تمام مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔" (23/9/ 2015) اور "اس سلسلے میں تشریح، حقائق کو برملا کرنے اور سامراج و امریکا سے برائت کے اعلان کے لیے حج کے موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔" (20/12/ 2004)
دوسری بات یہ کہ اگر حج صحیح اور مکمل ہو تو "پہلے امت مسلمہ کی تمام مشکلات کو بڑھنے سے روک دیتا ہے، پھر انھیں ختم کر دیتا ہے اور پھر اسلام کی عزت، مسلمانوں کی زندگي کی بہتری اور اغیار کے شر سے اسلامی ملکوں کی آزادی و خودمختاری کا منبع بن جاتا ہے۔" (23/4/ 1996) اور تیسری بات یہ کہ مشرکین سے برائت کا پروگرام حج میں ایک بڑی تبلیغ ہے "یہ موجودگي ہی اپنے آپ میں تبلیغ ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ آپ نے حج کو اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ، ایک مکمل پیکیج کے طور پر قبول کیا ہے۔" (26/10/ 2009)
شرک ہمیشہ ایک جیسا نہیں ہوتا
البتہ شرک ہمیشہ ایک ہی طرح کا نہیں ہوتا۔ بت ہمیشہ لکڑی، پتھر اور دھات کی مختلف شکلوں میں ہی ظاہر نہیں ہوتے۔ خانۂ خدا اور حج کے تعلق سے ہر زمانے میں شرک کو اس زمانے کے مخصوص لباس میں اور خدا کے شریک بت کو اس دور کی مخصوص شکل میں پہچاننا اور اس کی نفی کرنا اور اسے مسترد کرنا چاہیے۔ (16/6/ 1991) لیکن "بے شک آج اور ہمیشہ وہی طاقتیں ہیں جنھوں نے انسانی زندگي کے نظام کی حکمرانی کو زبردستی اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور آج سب سے زیادہ واضح سامراجی طاقت، امریکا کی شیطانی طاقت، مغربی کلچر کی طاقت اور وہ بے راہ روی اور بدعنوانی ہے جو یہ طاقتیں مسلم ممالک اور اقوام پر مسلط کر رہی ہیں۔ (15/5/ 1994)
مظلوموں کے قتل اور جنگ کی آگ بھڑکانے سے برائت
لہذا آج کل مشرکین سے برائت کا پروگرام "آج استکباری قوتوں اور ان میں سر فہرست امریکا کے کفر و شرک کے محاذ سے اعلان برائت کا مطلب، مظلوم کے قتل عام اور جنگ بھڑکانے سے بیزاری ہے، امریکی بلیک واٹر اور داعش جیسے دہشت گردی کے مراکز کی مذمت ہے ... بچوں کی قاتل صیہونی حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں اور اس کے مددگاروں کے خلاف امت اسلامیہ کی فلک شگاف پکار ہے، مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے حساس علاقے میں امریکا اور اس کے حامیوں کے جنگ بھڑکانے کی مذمت ہے ... جغرافیائی محل وقوع یا نسل یا جلد کے رنگ کی بنیاد پر تفریق و نسل پرستی سے بیزاری ہے، اس کا مطلب اس شرافت مندانہ، نجیبانہ اور منصفانہ روش کے مقابلے میں جس کی اسلام دعوت عام دیتا ہے، جارح و فتنہ انگیز طاقتوں کی استکباری اور خبیثانہ روش سے بیزاری ہے۔"(6/7/ 2019) اور "آج مسلمان حج میں جو برائت کا نعرہ لگاتا ہے وہ سامراج اور اس کے زرخریدوں سے برائت کی آواز ہے جن کا اثر و نفوذ ، افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی ملکوں میں زیادہ ہے اور انھوں نے اسلامی معاشروں پر شرک آلود نظام زندگی، مشرکانہ سیاست اور ثقافت مسلط کر کے، مسلمانوں کی زندگی میں 'عملی توحید' کی بنیادیں منہدم کر دی ہیں اور انھیں غیر خدا کی عبادت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کی توحید صرف زبانی ہے، توحید کا صرف نام ہے اور ان کی زندگی میں توحید کے معنی کا کوئی اثر باقی نہیں بچا ہے۔" (16/6/ 1991)
مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن
البتہ آج مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن صیہونی اور وہ لوگ ہیں جو ان کی مدد کرتے ہیں کیونکہ "حالیہ صدیوں کا سب سے بڑا ظلم، فلسطین میں ہوا ہے۔ اس دردناک واقعے میں، ایک قوم کی ہر چیز، اس کی سرزمین، اس کا گھر، کھیت اور اثاثہ، اس کی عزت اور اس کی پہچان چھین لی گئي ہے۔" (10/8/ 2019) اور "آج جو بھی صیہونیوں کی حمایت کرتا ہے، چاہے وہ امریکا اور برطانیہ وغیرہ جیسے سامراجی ممالک کے حکام ہوں یا اقوام متحدہ وغیرہ جیسے عالمی ادارے ہوں جو کسی نہ کسی طرح، یا اپنی خاموشی سے یا اپنے بیانوں اور غیر منصفانہ رائے زنی سے ان کی حمایت کرتے ہیں، اس معاملے میں شریک جرم ہیں۔ پورا عالم اسلام ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہو، مقابلہ کرے، برائت کا اعلان کرے ... یہ ایک اجتماعی فریضہ ہے۔" (29/7/ 2014)
برائت کا حج
حج "امت مسلمہ کے عقیدے کے اظہار اور موقف کے اعلان کی ایک جگہ" (30/7/ 2017) ہے اور امت مسلمہ اپنے صحیح اور قابل قبول اور قابل اتفاق رائے موقف کو بیان کر سکتی ہے، قابل قبول اور قابل اتفاق رائے... اقوام، مسالک۔ ممکن ہے حکومتیں کسی اور طرح سوچیں، کسی اور طرح کام کریں لیکن اقوام کا دل، الگ چیز ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اقوام مختلف معاملات میں اپنے موقف کا اظہار کر سکتی ہیں۔ (30/7/ 2017) اگرچہ برائت، ابتدائے انقلاب سے ہی حج میں موجود رہی ہے (2024/5/6) لیکن غزہ کے بڑے اور عجیب واقعات کے پیش نظر خاص طور پر اس سال کا حج، حج برائت ہے۔ (2024/5/6) اور مومن حجاج کو اس قرآنی منطق کو پوری اسلامی دنیا میں منتقل کرنا چاہیے۔ آج فلسطین کو اسلامی دنیا کی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔ (2024/5/6)
البتہ اسلامی جمہوریہ نہ تو کسی کے انتظار میں بیٹھی رہی اور نہ آگے بیٹھی رہے گی لیکن اگر مسلم اقوام اور مسلمان حکومتوں کے مضبوط ہاتھ اطراف و اکناف سے آ کر ساتھ دیں تو اس کا اثر بہت زیادہ ہو جائے گا۔ پھر فلسطینی عوام کی المناک حالت اس طرح جاری نہیں رہے گی، یہ فریضہ ہے۔ (2024/5/6)