۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
سانحہ کوئٹہ

حوزہ/ پاکستان کے شیعہ کی ایک بڑی مجبوری یہ ہے کہ جیسے ہی وہ حق بیانی پر کھل کر سامنے آتے ہیں ، اسے نشانہ قتل بنادیا جاتا ہے ۔ چاہے وہ ملت کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو ۔ اس لیے تمام سربراہان ملت پاکستان کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ کب تک خون ناحق بہتا رہے گا…!؟

تحریر: عظمت علی مبارک پور، اعظم گڑھ

حوزہ نیوز ایجنسی | گذشتہ دنوں کوئٹہ کے مچھ علاقہ میں ۱۱؍ شیعہ ہزارہ کان کنوں کو بے رحمی سے ذبح کردیا گیا ۔ پاکستان میں آئے دن ایسے قتل کے جرائم سرخیوں میں لگے رہتے ہیں۔ وہاں شیعہ حضرات کے لیے ہر قدم پر شہادت اور قتل ہے۔ محرم الحرام ہو یا دیگر مذہبی پروگرام ہر مقامات پر انہیں جان کا خطرہ رہتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ لکھنؤ میں پاکستان کے ایک نوحہ خوان تشریف لائے تھے ۔ انہوں نے نوحہ سے پہلے اپنے تمہیدی کلام میں یہ بات کہی تھی کہ’ آپ مومنین کرام بہرحال امن و امان میں ہیں لیکن ہم جب محرم الحرا م میں گھر سے نکلتے ہیں تو جان ہتھیلی پر رہتی ہے۔ ‘

پاکستان کو وجود بخشنے والا ایک شیعہ مسلمان شخص تھا مگر آج اسی کے دیا ر میں شیعہ کی نسل کشی کی جارہی ہے اور قاتل بے لگام گھوم رہا ہے۔ خبروں کی مانیں تو مقتول کے ورثا اگر حکومتی قوانین کاسہارا لے کر ان قاتلوں کے خلاف کوئی درخواست ڈالتے ہیں تو الٹا انہیں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔ یہ تو ہوئی پاکستان حکومت کی نااہلی اور ریاست مدینہ کی جھوٹی تسلیاں ۔ مدینہ شہر امن ہے ۔ وہاں رحمۃ العالمین کی حیات بسر ہوئی ہے۔ آپ کو چین کی زندگی اسی شہر مدینہ میں نصیب ہوئی ہے ۔ سو پاکستان کا ریاست مدینہ ہونامحض اندھے کا خواب ہے۔

حکومت تو نااہل ہے ۔کیا وہاں شیعہ تنظیمیں بھی نااہل ہیں …؟علمائے کرام کے بارے میں کیا خیال ہے ؟عزاداری کے مسئلہ میں مرد میدان نظر آتے ہیں اور کربلا کو ظلم کے خلاف احتجاج کہنے والے حضرات شیعوں کے قتل پر محض بیانات کو کیسے کافی مان لیتے ہیں …؟احتجاجات بھی ہوتے ہیں مگر سب ناکافی ۔ ابھی کچھ مدت پہلے وہاں شیعہ گم شدگی کی خبریں تھیں مگر کیا ابھی تک کوئی ایسا قانون نہیں بناجس کی حدود میں شیعہ حضرات خو د کو محفوظ مانیں ۔ بات عام شیعہ کی نہیں ، پاکستان کی قد آور شیعہ شخصیات کو بھی پیشگی اطلاع کے قتل کردیا جاتا ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اگر منبر سے کسی نے مذہبی روایات کو توڑا تو اسے کافر اور اس کے خلاف سوشل میڈیا لبریز ہوجاتا ہےمگرقتل کی واردات پر اکثر چپی سادھے نظر آتے ہیں۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ وہاں سب کا اپنا ادارہ ہے ۔ لوگ اسی سے منسلک ہیں اور اسی کے ماتحت زندگی گزارتے ہیں۔ علامہ ساجد نقوی ، علامہ جواد نقوی ، علامہ شہنشاہ حسین نقوی اور اس طرح کے اور بھی کئی علمائے کرام ہیں جن کے مکتب فکر سے اچھی تعداد جڑی ہوئی ہے۔ یہ سب اتحاد کے حامی ہیں مگر مجال کہ ایک پلیٹ فارم پر آجائیں۔ سال رواں محرم الحرام میں روز عاشورہ کو شر پسندوں نے خوب شرانگیزی کی ۔ علمائے کرام سامنے آئے مگر جب آخر الذکر عالم دین نےسرکار سید الشہداحضرت امام حسین علیہ السلام کے چہلم کے موقع پر ملت سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی گذارش کی تو امتی تو آگئے مگر قد آور شخصیت نے اپنے پروگرام علیحدہ کرلیے ۔

تسلیم کرتے ہیں کہ اختلاف ہوتے ہیں مگر ایسا بھی کیا اختلاف کی امت قتل ہورہی ہے اور آپ سردمہری کا مظاہر ہ کررہے ہیں ۔ اٹھیں اور ایوان حکومت تک اپنا مستحکم احتجاج درج کرائیں ۔ ان سے اپنے حق اور ہر پاکستانی شہری کے تحفظ کے سلسلے میں قانون پاس کرائیں۔ذرا ارباب اقتدار سے سوال کریں کہ ہمیں اور کتنی قربانی دینی ہے اور دہشت گرد گروہ کو بھی پیغام پہونچادیں کہ قتل کردینے سے ہماری ملت مٹنے والی نہیں ۔ کب تک مظلوم بنے رہیں گے …؟اٹھیں آواز حق بلند کریں ۔ کب تک دوسروں کے مظالم بیان کرتے رہیں گے …!؟

پاکستان کے شیعہ کی ایک بڑی مجبوری یہ ہے کہ جیسے ہی وہ حق بیانی پر کھل کر سامنے آتے ہیں ، اسے نشانہ قتل بنادیا جاتا ہے ۔ چاہے وہ ملت کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو ۔ اس لیے تمام سربراہان ملت پاکستان کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ کب تک خون ناحق بہتا رہے گا…!؟

تبصرہ ارسال

You are replying to: .