۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
حسن علی سجادی

حوزہ/ وطن عزیز پاکستان میں انسانی جان کی قدر ہر گذرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔ مچھ بلوچستان کے معصوم کان کنوں کا بیگناہ لہو، بلوچستان کی سڑکوں سے اٹھنے والی ماؤں اور بہنوں کی دھاڑیں اور شہداء کے ورثاء سردی کے عالم میں ظلم، بربریت اور حکومت کے سرد لہجے کے خلاف مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔

تحریر: حسن علی سجادی، مرکزی صدر اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان

حوزہ نیوز ایجنسی | سرزمینِ پاکستان ایک تویل عرصہ بدامنی کا شکار رہی ہے اور اس بدامنی میں سب سے زیادہ دہشتگردی کا نشانہ ملت تشیع بنی ہے۔ ملک عزیز کے ہر کوچہ و بازار میں مکتب تشیع کا بیگناہ خون بہایا گیا ہے کیونکہ یہاں آئین و قانون کی عمل داری نہیں بلکہ جنگل کا قانون نافذ ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں انسانی جان کی قدر ہر گذرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔ مچھ بلوچستان کے معصوم کان کنوں کا بیگناہ لہو، بلوچستان کی سڑکوں سے اٹھنے والی ماؤں اور بہنوں کی دھاڑیں اور شہداء کے ورثاء سردی کے عالم میں ظلم، بربریت اور حکومت کے سرد لہجے کے خلاف مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔
ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بنائیں اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ اگر خدا نخواستہ یہی صورتحال جاری رہی تو ملکی سالمیت کو اس سے شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
کوئٹہ میں وارثانِ شہداء کا وہی بے بس ہوکر دھرنا دینا اور حکومت کے وہی معمول کے دلاسے۔ کیا ریاست مدینہ بنانے کی دعوے دار حکومت کے کانوں تک چھ بہنوں کی یے صدا نہیں پہنچی کہ "ہمارے گھر میں لاش اُٹھانے والے مرد نہیں رہے"۔ دہشگردوں کا سکیورٹی فورسز کے سامنے گذر کر ہزارہ برادری کے کان کنوں کو بے دردی سے ذبح کرنا کیا ان کے حفاظتی انتظامات پر سوالیہ نشان نہیں؟
حکومت پاکستان اور سکیورٹی فورسز کوئٹہ میں مظلوم اہل تشیع ہزارہ کا قتل عام روکنے کے لئے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات کر کے سانحہ مچھ میں ملوث حیوان صفت دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں اور لواحقین شہداء کو انصاف فراہم کریں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .