تحریر: سید ابراہیم حسین "دانش حسینی"
حوزہ نیوز ایجنسی | ویسے تو ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو ہوا ہند وستان اور پاکستان کو جدا کرنے کا تاریخی فیصلہ بھی سوالوں کی روح سے خالی نہیں ہے اور فکر مسلمان و انسان اب بھی سائل ہے کہ پاکستان بنانے کا مقصد مسلمانوں کو جوڑنا تھا یا پھر توڑنا؟!
لیکن پھر بھی ہم اس مشکل گفتگو کو کسی اور وقت کے حوالے کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ مذہب کے نام پر بنے اوراسلامی ممالک کی پرچم برداری کے خواہاں پاکستان میں خود مسلمانوں کے ایک اہم اور بڑے فرقے اہل تشیع کی حالت کیا ہوئی؟
البتہ یہ بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ مذہب تشیع صرف پچھلے ۷۰ سالوں یا صرف پاکستان میں ہی نشانے پر نہیں ہے بلکہ اسکی تاریخ کے صفحات فرزند حضرت علی علیہ السلام محسن اسلام، مالک بن نویرہ، کربلا، سلجوق، تاتار، اکبر کے کشمیر، بغداد کی گلیوں ،جون پور کی کتابوں، صداّم کی حکومت سیریا و یمن کے خون سے غلطاں بھی ہیں اور انصاف پسندی کے دعویدار تاریخ نگاروں کی قلم و زبان کے ساتھ ہی نگاہوں سے اوجھل بھی ۔
خیر فلحال صرف پاکستان کی ہی گفتگو کرتے ہوئے عرض کروں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پہ تحریر درج کرنے کی خاطر تحقیق کرتے وقت میں خود انگشت بدنداں ہوں کہ ۱۹۴۷ کے اواخر سے آج ۲۰۲۰ کی ابتدائ تک مسلمانوں کی جنت بننے کا دعویٰ کرنے والے پاکستان میں تقریبا ۱۰۰۰۰ انسانوں سے شیعہ ہونے کے جرم میں ان کی زندگی چھینی جا چکی ہے۔!
ویسے یہ شمار میری بھی سمجھ سے پرے ہے لیکن پھر بھی میں بین الملی سطح کی تحریری گفتگو کرتے ہوئے حکومتی رکارڈس پر بھروسہ کرنے کومجبور ہوں۔!
دراصل رکارڈس کے مطابق ظلم کے اس کارواں کا آغاز ۱۹۵۰ کے وادیہ کرم پہ دیوبند کے قبائلی حملے سے ہوتا ہے جو بعد میں ۱۹۵۷ میں ملتان میں عزاداروں کو شہید کرنے، ۱۹۵۸ میں بھکر میں ایک خطیب آقا محسن کے قتل کے ساتھ ہی بڑھتا جاتا ہے اور پھر ۱۹۶۳ کا وہ خوناک سال آتا ہے کہ جہاں یک بعد دیگر چہنٹ، کوہٹہ اور لاہور میں عزاداروں پر حملے ہوتے ہیں اوور پھر یہی وہ سال ہوتا ہے کہ جہاں سندھ کے ضلع خیرپور کے ٹھیری گاوں میں ۱۲۰ عزاداروں کو کلہاڑیوں اور تلواروں سے ذبح کر دیا جاتا ہے۔
اور پھر نفرت و شدت پسندی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد رکھنے میں محمد علی جناح کی ساتھی پاکستان کی گورنر اور صدر رہ چکیں انکی بہن فاطمہ جناح کے جنازے کو سرکاری اعزاز دیۓ جانے پر شیعہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف اعتراض ہوتا ہے بلکہ پتھراؤ بھی کر دیا جاتا ہے۔
جبکہ اسی عرصے میں ضیاء الحق کے ہنگامے کے درمیان صرف خونریزی ہی نہیں ہو رہی ہوتی بلکہ امن کا پیغام دیتے اسلام کے پرچم تلے کھڑے ہونے کا دعویٰ کرتے مسلمانوں کے بیچ نفرت پر مبنی لٹریچر کی آگ بھی بنا کسی شرم و خوف و حراس کے ہر سوئی جلائی جا رہی تھی۔!
جس کے نتیجے میں حیرت دہلوی، عبد الشکور لکھنوی، احمد عباسی اور ابو یزید بٹ جسیے فتنہ پرستوں کی اشتعال انگیز تحریریں ذہن و فکر پہ نفرت و دہشت کا خوفناک ماحول بنائے ہوئے تھیں۔!
البتہ اسی زمانے میں ایک شیعہ عالم دین علامہ غلام حسین نجفی نے بھی جواب میں ویسی ہی زبان کا استعمال کیا اور پھر ۱۹۶۵ سے ۱۹۷۷ تک شیعہ کشی کی مہم دیوبندی علماۓ کے سوشلزم کی مخالفت، البدر و الشمس نامی دہشتگرد تنطیم کی بنیاد رکھنے اور ختم نبوت میں الجھ جانے کے سبب ذرا ماند پڑ گئی۔
اور پھر جولائی ۱۹۷۷ میں جماعت اسلامی سے متاثر جنرل ضیاء الحق نے نہ صرف مارشل لا لگایا بلکہ سرکاری اسکولوں میں شیعہ بچوں کے لئے قبول شدہ دینیات پر پابندی بھی لگادی اور اس طرح شدت پسند تنظیموں کو اک نیا حوصلہ مل جاتا ہے اور اسی کے نتیجے میں پاکستان میں اہل تشیع پر ظلم کا اک نیا دور شروع ہوتا ہے۔
خیر تحریر ذراطولانی ہو چلی ہے اس لئے قلم کو رکھتے ہوئے آخری و فیصلہ کن اگلے دور کی گفتگو کو دوسرے حصّے کے لئے چھوڑتا ہوں لیکن اپنے آج کے اختتامی الفاظ میں موضوع سے ہٹ کر بڑے ہی احتیاط سےلکھنا چاہوں گا کہ فلحال مچھ میں ہوئی ہزارہ شیعہ نسل کشی کا مجھے بھی بے انتہائ افسوس ہے یقینا احتجاج کر رہے لوگوں کی ہر احتیاج پوری ہونی چاہئیے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عمران خان کو کٹگھرے میں کھڑا کیا جائے کیونکہ نفرت کی فنڈنگ پہ پلتی نفرتی فوجوں کے بیچ شیعوں کے جینے کی ایک مشکل جگہ پاکستان جیسے ملک میں آج عمران خان کسی غنیمت سے کم نہیں ہیں اور اس بات کو سمجھنے کے لئے انکے فیصلوں کا غلط مطلب نکالنے کے بجائے فیصلے کی وجہ اور اس کے فائدے سمجھنے ضروری ہیں اور اسے سمجھنے کے لئے ان کی سیاست کا طریقہ انکی سیاست سے پریشان مسلم مخالف طاقتوں کی حیرانی اور پچھلے دو سالوں سے الگ تھلگ پڑ چکے عیاش و بے فکر عرب کا اب نگران ہونا بھی ہے۔!
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔