۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
News ID: 365115
15 جنوری 2021 - 19:30
مولانا حسن اصغر شبیب

حوزہ/ اگر کوئی خاتون دور حاضر کی خواتین کو زندگی کا درس دے سکتی ہے تو وہ  صرف اور صرف حضرت زہرا( س) کی شخصیت ہے۔

تحریر: مولانا حسن اصغر شبیب، حوزہ علمیہ قم 

حوزہ نیوز ایجنسی | بلا شک و شبہ وجود مقدس حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کی سیرت کائنات کی تمام  صنف نسواں کے لئے  قابل فخر و نمونہ عمل ہے۔ رسول اسلام ﷺ نے ملکہ عصمت و طہارت کی عظمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ان ابنتی فاطمہ سیدۃ نساء اھل الجنۃ (یقینا میری دختر بہشتی خواتین کی  سرادر ہے)۔ اس حدیث نبوی کی  روشنی میں  حضرت زہرا( س) دنیا کی  تما م با سعادت عورتوں   پہ فضیلت رکھتی ہیں، بی بی دو عالم(س) راہ حق و حقانیت  میں ثابت قدم رہنے کی بنا پہ معنویت کی بلند مقامات پہ فایز ہیں۔

یقینا شہزادی فاطمہ(س) ایک خاتون میں پائی جانے والی تمام خصوصیات کا مکمل  آئینہ ہیں، جیسا کہ امام خمینی (رہ) نے  فرمایا : ایک عورت کے لئے تمام قابل تصور جوانب وجود حضرت زہرا (س)میں جلوہ گر ہیں۔ امام خمینی (رہ) ایک باکمال عورت کے تمام کمالات کے مد نظر شہزادی دو عالم (س) کے حوالے سے فرماتے ہیں: جناب زہرا (س )ایک معمولی عورت نہ تھیں، بلکہ ایک روحانی، ملکوتی خاتون اور بہ تمام معنا انسان تھیں؛ وہ ایک ایسی ملکوتی موجود تھیں کہ جو  اس عالم میں انسان کی صورت میں ظاہر ہوئیں؛ ایسی خاتون کہ جن کے اندر تمام خصوصیات انبیاء جلوہ گرتھے؛ ایسی ذات کہ اگر مرد ہوتی تو نبی ہوتی اور رسول اللہ کے مقام پہ ہوتی؛  معنویت, ملکوتیت، الہی و جبروتی جلوے، یہ سب کے سب  شہزادی فاطمہ( س) کے وجود میں جلوہ گر و منور تھے۔ 
اس بے نظیر خصوصیات کے لحاظ سے اگر کوئی خاتون دور حاضر کی خواتین کو زندگی کا درس دے سکتی ہے تو وہ  صرف اور صرف حضرت زہرا( س) کی شخصیت ہے۔لہذا  کائنات کی تمام صنف نسواں کے لئے جناب زہرا (س) کی سبق آموز و قابل ہدایت سیرت اور اقوال کے کچھ گوشوں کو قلمبند کیا جا رہا ہے۔

قناعت، سادگی و شکر گزاری
ایک مسلمان خاتون کو قرآن و اہل بیت(ع) کی تعلیمات کے مطابق ہمیشہ شکر گذار و قناعت پسند ہونا چاہئے اور اپنی تمام کوششوں کو اولاد صالح کی تربیت میں خرچ کرنی چاہئے، کیوں کہ دنیا کا ظاہری حسن و جمال اور اس سے وابستگی انسانی کمال و سعادت کی رکاوٹیں ہیں۔ جس عورت کا مقصد حیات دنیا طلبی، ظاہری شان وشوکت، قیمتی لباس اور دنیاوی عیش و آرام ہوں، وہ زندگی کے پاکیزہ مقاصد و معنویت کی رفعتوں کوحاصل نہیں کر سکتی ۔

سرور کائنات (ص) کی دختر اور تمام مادیات پہ اختیار رکھنے کے باوجود شہزادی زہرا (س) نے سادگی و قناعت کو اپنا طرہ امتیاز سمجھا ۔ سلمان فارسی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک روز حضرت فاطمہ( س) کے سر مبارک پہ معمولی چادر دیکھی تومجھے تعجب ہوا اور کہا ایرانی بادشاہوں و قیصر روم کی بیٹیاں سونے کی کرسیوں پہ بیٹھتی ہیں، قیمتی و ریشمی لباس زیب تن کرتی ہیں، لیکن جس دختر رسول (س) کی عظمت وجلالت سب سے بلند وبالا ہے، اس کے سر پہ نہ ہی گراں قیمت چادر ہے اور نہ ہی بدن پہ خوبصورت لباس؛ جناب زہرا (س) فرماتی ہیں: یا سلمان ان اللہ ذخر لنا الثیاب والکراسی لیوم آخر؛ ( اےسلمان خداوند عالم نے ہمارے لئے (خوبصورت) لباس اور (طلایی) تختوں کو روز قیامت کے لئے ذخیرہ کر رکھا ہے۔ اس وقت شہزادی ( س) خدمت پیغمبر(ص) میں شرفیاب ہوئیں اور عرض کیا :یا رسول اللہ(س) سلمان کو میرے معمولی لباس پہ تعجب ہوا، قسم اس خدا کی جس نے آپکو  رسول بر حق مبعوث کیا  ,میںاور  میرے شوہر علی( ع) نے سادگی زندگی کو   اپنا طرز حیات بنایاہے۔  
بی بی دو عالم (س)ہر حال میں شکر خدا بجا لاتی تھیں، آپنے فرمایا: یا رسول اللہ الحمد للہ علی نعمائہ و الشکر للہ علی آلائہ یا رسول اللہ خدا وند عالم کی حمد وثنا و شکر ہے  کہ اس نے ہمیں  یہ ساری نعمتیں دی ہیں۔
البتہ ایک مسلمان عورت کی  معمولی  و سادگی بھری زندگی کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آلودہ و بد صورت لباس زیب تن کرے بلکہ ضروری ہے اس کی سادگی ہمیشہ پاکیزگی و عزت نفس کے ہمراہ ہو۔

سعی وکوشش اور خیر خواہی
ایک مومن خاتون ہمیشہ تعلیمات الہی کی انجام دہی، اور اپنے گھر والوں کی ترقی کے لئے محنت و مشقت کرتی رہتی ہے۔ جناب فاطمہ(س) تاریخ کی روشنی میں سعی و کوشش کا روشن ترین چہرہ ہیں؛ شہزادی دو عالم(س) جس طرح عبادت وتقوے کی منزل میں معنوی اقدامات کا آئینہ ہیں، اسی طرح اپنی اولاد و اہل خانہ کی پیشرفت کا بھی نمونہ ہیں۔ خاندان کو مستحکم بنانا، نیک وصالح اولاد کی تربیت کرنا، تشنگان علم  ومعرفت کو تعلیم دینا، عوام  الناس کو حقائق سے آگاہ کرنا، اہم موقع پہ خطبہ دینا، المختصر پورے وجود کے ساتھ رشد و کمال و سعادت کی راہوں پہ گامزن رہنا شہزادی دو جہاں (س) کی کوششوں کا  مظہر ہیں ۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ حضرت زہرا (س) نے اپنے اور جناب فضہ کے درمیان امور خانہ کو تقسیم کردیا , ایک دن خودکام کرتی تھیں تودوسرےد ن حضرت فضہ۔  
عفت و حیا کی حفاظت۔
شہزادی  فاطمہ (س) کے بہترین دروس میں  ایک حفظ عفت و حیاکا درس  ہے ۔ایک روز  ایک نا بینا شخص نے بیت امام علی ؑ میں حاضری کی اجازت طلب کی، بی بی دو عالم(س) اس کے وارد ہوتے ہی پشت پردہ چلی گئیں اور حجاب کر لیا ؛ اس وقت موجود رسول خدا [ص]نے سوال کیا: میری دختر  وہ تو نا بینا ہے آپکو نہیں دیکھ سکتا ہے، پھر آپ کیوں پردہ کے  پیچھے چلی گئیں ؟ حضرت فاطمہ)س) نے جواب دیا  ان لم یکن یرانی فانی اراہ و ھو یشم الریح۔ اگر وہ مجھے نہیں دیکھ سکتاپس میں تو  اس کو دیکھ سکتی ہوں  اوروہ ایک ( نا محرم عورت کی) بو حس کر سکتا ہے، رسول خدا ﷺنے فرمایا : اشہد انک بضعۃ منی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ میرا ٹکڑا ہیں۔ لہذامستورات کے لئے ضروری ہے کہ محرم و نا محرم مسائل پہ دقت کریں اور رعایت کریں، ورنہ مخالفت کی صورت میں اس کا بھیانک انجام ان کے دامن گیر ہوگا۔
بنیادی طور پہ نا محرم مرد وعورت کی حرمت کا تحفظ، معاشرہ کی اخلاقی امن و امان  کی ضمانت ہے۔روحانی سکون، جسمانی صحت و سلامتی، معاشرہ کی عزت و سر بلندی، فتنہ و فساد سے دوری، تحفظ ایمان اور حجاب کی رعایت، نامحرم کی شرر آمیز نگاہوں میں پوشیدہ ہے۔ اگر نا محرم نگاہیں ایک دوسرے کی حرمت  کی رعایت کرتی ہیں تو معاشرہ پاک و پاکیزہ رہتا ہے ورنہ  پستیوں اور غلاظتوں میں ڈوب جاتا ہے۔اسی وجہ سے پیغمبر اکرم  ﷺنے حکم الہی کے مطابق  فرمایا: باعدوا بین انفاس الرجال و النساء  ۔ نامحرم زن و مرد  کے درمیان فاصلہ ایجاد کرو۔

اہم ترین عظمت:
جناب زہرا (س)کی نگاہ میں ایک عورت کو اپنے خدا کا سب سے زیادہ قرب اس وقت نصیب ہوتا ہے جب وہ خود کو نامحرموں کی نگاہوں سے محفوظ رکھے اور امور خانہ، تربیت فرزند و شوہر کی عزت وتکریم میں مصروف ہو۔ امام صادق (ع) جناب زہرا (س) سے روایت  نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان ادنی ما تکون من ربھا ان تلزم قعر بیتھا  ۔( ایک خاتون اپنے پروردگار سے اس وقت سب سے زیادہ نزدیک ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر میں موجود ہو(اور امور خانہ  کی انجام دہی  وتربیت فرزند میں مشغول ہو)۔
یقینا مستورات جہان اسلام  اپنی عصمت و عفت کے تحفظ کے سلسلے میں ہرگز  فرمان خداوندی کی مخالفت نہیں کر تی، اپنی پوری زندگی  گوہر نایاب کے مانند اپنے پردہ کی حفاظت کرتی ہیں اور شرم وحیا کو اپنی حیات کا زیور قرار دیتی ہیں  ۔ملکہ عصمت و طہارت ( س) کا یہ مشہور قول  معاشرہ کی پایداری و مضبوطی کا ضامن ہے، جس پہ  تمام صنف نسواں خصوصا  جوان لڑکیوں کو خصوصی توجہ کرنا چاہئے کہ بی بی دو جہاں(س) نے فرمایا: خیر النساء ان لا یرین الرجال ولا یراھن الرجال بہترین  عورت وہ ہے جو ( بغیر ضرورت نا محرم) مردوں کو نہ دیکھے اور  (نامحرم) مرد  (بغیر ضرورت )  اس کو نہ دیکھے۔
دور حاضر میں شیاطین  اور اسلام دشمن طاقتیں کوشش کر رہی ہیں کہ جس عنوان کے بھی  ماتحت ہو، مسلمان  عورتوں کو ان کی اصلیت  سے جدا کر دیا جائے، سماج میں نا محرموں کی نگاہوں کا شکار بنا دیا  جائے  اور ان کی خلقت کے اصل اہداف سےغافل کر دیا جائے۔ لہذا معاشرہ کی اخلاقی مشکلات کا راہ حل یہی ہے کہ ایک دوسرے کی حرمت کا احترام کیا جائے اور صنف نسواں کی سعادت و خوشبختی کا راز اسی میں مخفی ہے کہ  وہ نا محرموں سے کنارہ کشی اختیار کریں, عفت وحیا کو اپنی زندگی کا شیوہ  قرار دیں، خداوند عالم  ہمیں ایک دوسرے کی حرمتوں کا محافظ  قرار دے,  شرم و حیا کو صنف نسواں کی زینت قرار دے,  حجاب و عفت کوزندگی کا طرہ امتیاز قرار دے۔ آمین  یا رب العالیمن بحق محمد و عترتہ الطاھرین(ع)

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .