۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
تصاویر/ شب شهادت بانوی دوعالم در حرم مطهر حضرت فاطمه معصومه سلام الله علیها

حوزہ/ آج ایران ولبنان کے شیعہ سماج میں نہ جانے کتنی فاطمائیں اور زینبات ہیں جو ویسٹرن کلچر کو چیلنج کررہی ہیں۔اورفاطمی قدروں کی پاسداری کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔

تحریر: فاطمہ رضویا،نڈیا

حوزہ نیوز ایجنسی | ذرا آسمان کو دیکھا تو یوں لگا کہ جیسے موسم سرما کی آمد آمد ہے۔ کمرے میں لٹکے ہوئے کیلنڈر پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ شہادت حضرت زہرا کی تاریخ قریب ہے۔

بابا کا مضمون سنا تو میرے دل نے کہا کوئی خدمت تو ہو نہیں پاتی کم از کم اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں شہزادی زہرا کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کروں اورکچھ اپنی بہنوں کے لئے لکھا بھی جائے۔

شائد بہنوں کا بھی یہی احساس ہوا،س لئے میں نے اپنے اطراف کا تھوڑا جایزہ لینا چاہا تو مجھے لگا شائد آپ بہنوں کا بھی یہی احساس ہو کہ دور حاضر میں لوگ بلکہ بہتر کہوں کہ خواتین اور نئی نسل کی لڑکیاں مختلف انداز میں عمومی جگہوں پر اپنی جلوہ نمائی کرتی ہوئیں نظر آتی ہیں جن کے طرز عمل سے پتہ چلتاہے کہ ان کے اندر کتنی عزت نفس باقی رہ گئی ہوگی۔

الگ الگ طریقے کے پوشاک زیب تن کئے مختلف اسٹالس میں خود کو ماڈرن وومن یا ماڈرن گرل ثابت کرنے کی مقابلہ بازی میں سرگرم دیکھائی دیتی ہیں۔ چنانچہ ان میں کچھ وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنی تہزیب وثقافت اور اسلامی قدریں تک قربان کردیں ہیں اورغیروں کی اندھی تقلید میں لگ گئیں ہیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے ناچیز نے ایک نیوز پڑھی جو دلچسپ اور عجیب تھی وہ یہ کہ ایک ویسٹرن لڑکی جس کو حجاب کے سلسلے سے بے حد تشویش اور بے چینی تھی ایک دن کسی مسلم اسکول میں پہنچ گئی جہاں اس نے مختلف خیالات رکھتے والی لڑکیوں سے ملاقات کی۔ان کا موضوع گفتگو فلسفہ حجاب تھا اور جب اس نے مسئلہ حجاب کو مذہبی لڑکیوں میں معقول ومطمین بخش طرز سے پایا تو اس نے سوچا کیوں نہ وہ بھی اسے آزما کر دیکھے۔

کچھ دنوں تک تو وہ اپنے آپ کو راضی نہ کر سکی مگر پھر اس نے حجاب کرنا شروع کر دیا اور اپنے اندر ایک اچھا احساس پیدا ہوتے دیکھا اس نئی تبدیلی سے اسقدر مطمئن تھی کہ مستقل طور پر حجاب کرنے لگی۔حالانکہ وہ مسلمان نہیں تھی،اسی طرح کے بہت سے واقعات اور مثالیں ملیں گی۔

الگ الگ الجھے خیالات،جبکہ بعض لوگوں کے خیال میں محجبہ خواتین بیک وڑڈ ہوتی ہیں یا پرانی ذہنیت رکھتی ہیں اور بعضوں کے خیال میں جو لڑکیاں شارٹس یا مردانے کپڑے پہنتی ہیں وہ اوپن مائنڈڈ(open minded) ہیں۔

یہاں تکہ یہ ویسٹرن کلچر سے اتنا متاثر ہیں کہ رہن سہن بھی فرنگیوں جیسا بنالیا ہے ـ اگرچہ انگریزی زبان جو ایک انٹرنیشنل لینگویج ہے ـ ہر ایک غکو آنی چاہیے مگر یہ عقلمندی نہیں کہ نئی چیزیں سیکھ کر اپنی تہزیب کو بھلادیں یا یہ کہ ہم معارف اسلامی سے وابستہ لوگ پیروان اھل بیت علیھم السلام بھی غیروں کی طرح سے عورت اور مرد کا امتیاز بھول جائیں اور اپنی تہذیب کو دوسروں کی بے منطق ثقافت کے پیچھے قربان کردیں۔

عزائے فاطمیہ کا فائدہ

عزائے فاطمیہ ہمارےمعاشرے کو ایک اچھا موقع فراہم کرتی ہے کہ شہزادی فاطمہ ص کی سیرت وتذکرہ سوئے ہوئے ضمیر کو جگاتی ہے اور سماج کی لڑکیاں اور مسلم خواتین اس پاکیزہ نمونہ زندگی کو تلاشتی ہیں جس سے ذہنوں کی تعمیر ہوتی ہے۔ لہذا ان کی مصیبت پر صرف آنسو نہ بہائیں بلکہ ان کے زخموں کے لئے اپنے عمل سے مرھم بن جائیں اور ثابت کریں کہ ہم فاطمی سماج کی بیٹیاں ہیں نہ کہ ویسٹرن کلچر کے چراغ میں تیل کا کام کرنے والے۔

ہم سب شہزادی دو عالم کی کنیز اور انہیں کی پیرو کار ہیں

لہٰذا ہم پسماندہ نہیں بلکہ راہ یافتہ ہیں اور شیطنت کے جال بچھانے والے یہ جان لیں کہ ان کا جال چاہے جتنا گستردہ کیوں نہ ہو ہم اس جال میں نہیں پھنس سکتے کیونکہ ہماری سوسائٹی کے لئے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت نمونہ عمل ہے انکی حیات طیبہ ہمیں راستہ چلنا سیکھا تی اور بتاتی ہے کہ ایک عورت کو کس طرح زندگی گزارنا چاہیے۔

الحمدللہ آج ایران ولبنان کے شیعہ سماج میں نہ جانے کتنی فاطمائیں اور زینبات ہیں جو ویسٹرن کلچر کو چیلنج کررہی ہیں۔اورفاطمی قدروں کی پاسداری کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔

دعائیہ

خداوند کریم کی بارگاہ میں ہماری دعا ہے کہ پروردگار دگارا ہم سب کو سچی پیروان فاطمہ زہرا علیہا سلام میں سے قرار دے کہ ہم اپنے سماج ومعاشرے کے مفید ثابت ہو سکیں۔ آمین ثم۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .