۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
News ID: 365156
17 جنوری 2021 - 14:28
ایام فاطمیه

حوزہ/ میری زندگی کے سب سے خوبصورت اور شیریں دن وہ تھے جب تمہارا نور میرے وجود میں آیا تھا۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ شیریں ایام کتنی جلدی گزر گئے اور کب وہ لمحہ آپہنچا کہ جب یہ دنیا تمہارے وجود سے روشن ہو گئی۔

تحریر: مولانا سید علی امیر رضوی

حوزہ نیوز ایجنسی | یہاں سے تصور کے عالم میں حضرت خدیجہ اپنی بیٹی سے گفتگو فرماتی ہیں: اے فاطمہ!تمہیں معلوم ہے کہ جب چالیس دن کے بعد اللہ کے حبیب اور میرے محبوب گھر واپس آئے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ چالیس تاریک دنوں کے بعد خورشید میرے گھر کی چھت سے طلوع ہوا ہو، میرا دِل روشن ہو گیا تھا اور میں نے اس نور کو اپنے مکمل وجود اور اپنے جسم کے ایک ایک عضو سے محسوس کیا تھا اور پھر تمہارے نور کی موجودگی کو اپنے اندر محسوس کیا تھا۔ 

بیٹی!وہ حالات ایسے نہیں تھے جن کا تصور اور خیال بھی میرے ذہن سے کبھی گزرا ہو۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک بچہ رحم مادر سے اپنی ماں سے گفتگو بھی کر سکتا ہے۔ ایک بچہ شکم مادر میں اللہ کی تسبیح اور تقدیس کرے، ہاں، میں نے سنا ضرور تھا کہ عیسی علیہ السلام نے ماں کی آغوش میں گفتگو کی تھی اور اللہ کی وحدانیت اور اپنی نبوت کا اعلان اپنی ماں کی آغوش سے کیا تھا۔اور یہ میری نظر میں سب سے بڑا معجزہ تھا۔ لیکن مجھے نہیں اندازہ تھا کی کوئی بچہ رحم مادر میں اپنی ماں سے گفتگو کر سکتا ہے اور اسے تسلی اور دلاسہ دے سکتا ہے اور اپنے باپ کی نبوت کی گواہی دے سکتا ہے!اور میں اس وقت خوشی کی وجہ سے پھولی نہیں سماتی تھی جب یہ علم ہوا تھا کہ وہ بچہ کسی اور کا نہیں ہے میرا اپنا بچہ ہے اور وہ مخاطب کوئی اور نہیں میں خود ہوں! اس خوشی کو میں اپنے دل میں کیسے چھپا سکتی تھی،اِس عظمت کو کیسے حمل کر سکتی تھی! 

میری زندگی کے سب سے خوبصورت اور شیریں دن وہ تھے جب تمہارا نور میرے وجود میں آیا تھا۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ شیریں ایام کتنی جلدی گزر گئے اور کب وہ لمحہ آپہنچا کہ جب یہ دنیا تمہارے وجود سے روشن ہو گئی۔ لیکن اس سے پہلے ایک خوف اور ڈر سا تھا اسی لئے قریش کی عورتوں کو اپنی مدد کے لئے بلایا تھا لیکن سب نے آنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ کیا ہم نے تمہیں یتیم عبداللہ کے ساتھ شادی کرنے سے منع نہیں کیا تھا؟ کیا ہم نے نہیں کہا تھا کہ تمہارے رشتے تو بڑے بڑے دولتمندوں کے یہاں سے آئے ہیں، ان میں سے کسی کے ساتھ عقد کر لو؟! کیا ہم نے نہیں کہا تھا اس دولت کو ٹھکرا کر محمد ؐکے فقر کو گلے نہ لگاؤ لیکن تم نے ہماری ایک نہ سنی تو اب خود جانو۔ جاؤ اب اپنے بچہ کی ولادت کی سختی تنہا برداشت کرو۔ 

مجھے اس وقت بڑی تکلیف ہوئی تھی لیکن میں انہیں کیا کہہ سکتی تھی؟ وہ ظلمت اور تاریکی کے ماحول میں رہنے والی عورتیں کیا جانتی تھیں کہ نور نبوت و رسالت کیا ہے؟!وہ کیا سمجھتی تھیں کہ احمد سے شادی کتنا بڑا مقام ہے؟ انہیں کیا معلوم تھا کہ محمد ؐکا اخلاق کیا ہے؟ انہیں کیا اندازہ تھا کہ عطر حسنی ؑو حسینی ؑاور مہدویؑ کی خوشبو کیسی ہوگی؟!

میں تھوڑا پریشان تھی لیکن تمہارے بابا بیحد مطمئن تھے، جتنا ہی میں بے قرار تھی اتنا ہی وہ پر سکون تھے۔ جتنا زیادہ میں بیتاب ہوتی تھی وہ مجھے تسلی دیتے تھے۔ 

اچانک میں نے دیکھا کہ دروازہ کھلا اور چار خواتیں داخل ہوئیں جن کی روحانیت ان کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہی تھی۔ 

میں سوچ ہی رہی تھی کہ یہ کون ہیں کہ ان میں سے ایک کی آواز بلند ہوئی۔ 

خدیجہ!گھبراؤ نہیں، ہم تمہارے خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ہم تمہاری بہنیں ہیں۔ 

مجھے جب تھوڑا اطمینان ہوا تو ایک نے کہا: میں سارہ ہوں، خلیل خدا ابراہیم ؑنبی کی زوجہ۔ 

ایک اور خاتون جو بڑے دلنشیں انداز میں گفتگو کر رہی تھیں اور ان کے لبوں پر تبسم تھا انہوں نے کہا: میں مریم بنت عمران ہوں، عیسی روح اللہ کی ماں۔ 

ایک تیسری خاتون جو محبت آمیز نگاہ سے مجھے دیکھ رہی تھیں انہوں نے بتایا:  میں آسیہ بنت مزاحم ہوں، فرعون کی زوجہ جو موسی پر ایمان لائی تھی۔

اور پھر مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ چوتھی خاتون جو ان کے ساتھ تھیں وہ حضرت موسی کی بہن کلثوم ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ خدا نے ہمیں تمہاری مدد کے لئے بھیجا ہے۔ اس کے بعد سارہ میرے داہنی طرف بیٹھ گئیں، مریم بائیں طرف بیٹھ گئیں، آسیہ میرے سامنے تھیں اورکلثوم پیچھے تھیں۔ 

میں اس وقت خداکے نزدیک تمہارے مقام سے اور زیادہ آشنا ہوئی تھی اور اپنے آپ سے کہہ رہی تھی کہ دیکھو خدا اس مولود کو کتنا چاہتا ہے کہ اس کے لئے جنت سے ایسی عظیم خواتیں کو دائی بنا کر بھیجا ہے۔ 

پھر تم عام بچوں کی طرح دنیا میں نہیں آئی تھیں بلکہ ایسے دنیا میں آئی تھیں جیسے کوئی ماں اپنے بچہ کو ایک آغوش سے دوسری آغوش میں دے دے۔ میں نے تمہیں ان خواتیں کے حوالہ کیا تھا۔ 

تم نے جب اِس دنیا میں قدم رکھا تو پاک و پاکیزہ تھیں، طاہرہ اور مطہرہ۔ مکہ تمہارے نور سے روشن ہو گیا تھا اور دنیا تمہارے نور کی آمد سے چمکنے لگی تھی۔ 

دس حوریں جو اِس وقت بھی سارے بہشتیوں سے زیادہ تمہارے دیدار کے لئے بیتاب ہیں، میرے گھر میں اتری تھیں اور ان کے ہاتھ میں ایک طشت تھا، وہ اپنے ساتھ آب کوثر لے کر آئی تھیں۔ یعنی مصداق کوثر کے لئے حوض کوثر سے پانی لایا گیا تھا۔میں سمجھ گئی تھی کہ تم کوثر ہو اور کسی ماں نے دنیا کو تم جیسی بیٹی نہیں دی ہے۔ 

انہوں نے تمہارے اوپر آب کوثر ڈالا تھا اور دو کپڑے جو جنت سے لائی تھیں جن کا رنگ دودھ سے زیادہ سفید تھا اور جن کی خوشبو مشک وانبر سے بھی زیادہ اچھی تھی وہ تمہارے جسم پر لپیٹے تھے۔ 

ابھی تم نے جب اسماء کو بھیجا کہ وہ بہشتی کافور تمہارے لئے آمادہ کر دیں اور تم نے اپنے رب سے ملاقات کے لئے بہترین لباس زیب تن کیا ہے اور اب جبکہ تم رو بہ قبلہ لیٹی ہوئی ہو اور سفید چادر اپنے اوپر ڈالے ہوئے ہو اور اسماء سے کہا ہے کہ کچھ دیر بعد آکر تمہیں آواز دیں اگر کوئی جواب نہ ملے تو سمجھیں کہ تم اپنے بابا سے جا ملی ہو۔ 

اِس واقت میں اس بہشتی لباس، اس آب کوثر اور تمہاری ولادت کے شیریں لمحوں کی یاد میں کھو گئی ہوں کہ تم چند روزکے لئے جنت سے آئی تھیں اور اب اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں تمہاری روح اٹھارہ سالہ قید حیات سے رہا ہونے والی ہے۔ 

میری بیٹی بتول!خدا نے تمہیں عورتوں میں بے مثل اور بے نظیر بنایا ہے۔ میری بتول!میری لاڈلی بیٹی!خدا نے تمہیں ہر عیب اور نجاست سے پاک رکھا۔ میرے دِل کی ٹھنڈک!خدا نے تمہیں چند روز کے لئے زمین والوں کے پاس امانت کے طور پر بھیجا تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ عورت کی خلقت کا راز کیا ہے؟ ایک خاتون کس بلندی تک پرواز کر سکتی ہے! 

میری بچی!مجھے معلوم ہے ان زمین والوں نے اللہ کی امانت کے ساتھ کیاسلوک کیا ہے؟ مجھے پتہ ہے کہ انہوں نے اسکے پہلو کو شکستہ کر دیا ہے لیکن پہلو سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ انہوں نے تمہارا دِل توڑا ہے، تمہیں بہت ستایا ہے، تمہارے پھول جیسے رخسار کو نیلگوں کر دیا ہے۔ تمہارے محسن کو شکم میں شہید کر دیا ہے، تمہیں ”صُبّت علی  ّ“ کا مرثیہ پڑھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مجھے سب معلوم ہے لیکن میری بیٹی!آؤ میں اور تمہارے بابا تمہارے انتظار میں ہیں۔جنت والے تمہارے شوق دیدار میں لمحے شمارکر رہے ہیں۔ آؤ یہاں آکر جنت والوں کے استقبال سے تمہاری زندگی کی ساری تھکن دور ہو جائے گی۔ تمہارے جسمانی زخم ٹھیک ہو جائیں گے لیکن ہاں میں جانتی ہوں کہ تمہارے دِل پر جو زخم تمہارے بابا کی امت نے لگائے ہیں اسکا مرہم کوئی نہیں ہے سوائے یہ کہ جب تمہارے چاہنے والے تمہارے مصائب سن کر آنسوں بہائیں تو وہی تمہارے ان زخموں کا درد کچھ حد تک کم کر سکتے ہیں۔ 

آؤ بیٹی!کہ فرشتے اپنے پروں کو پھیلائے ہوئے تمہارے استقبال میں کھڑے ہیں۔

جنت کی حوروں نے اپنی پلکوں پر اشکوں کو سجاکر ان سے چراغا ں کیا ہے۔ 

آؤ!جنت کا انتظار آکر ختم کرو۔ آؤ اور آکر اپنے بابا کے گلے لگ جاؤ تاکہ تمہیں کچھ قرار آ جائے۔ 

سلام ہو تم پر، سلام ہو تمہارے بابا پر، سلام ہو تمہارے شوہر پر اور میرا سلام ہو تمہارے نازنین بیٹوں حسن ؑو حسین ؑپر۔ آنے سے پہلے انہیں میری طرف سے پیار کر لینا اور زینب و امّ کلثوم کو گلے سے لگا لینا اور ہاں ایک بات اور!اپنے محسن کے لئے پریشان نہ ہونا کہ وہ یہاں میری آغوش میں کھیل رہا ہے۔ 

جاری۔۔۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .