از قلم: ڈاکٹر پیام اعظمی
حوزہ نیوز ایجنسی। پیغمبرؐ اسلام کی آنکھ بند ہوتے ہی مدینے کی گلیاں یتیمہ پیغمبرؐ فاطمہؑ زہرا کی دل خراش صداؤں سے گونجنے لگیں۔ گریہ زہراؑ نے اہل مدینہ کو مضطرب کردیا۔ سب اپنے اپنے کام پر لگ گئے مگر فاطمہؑ کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ صبح رونا شام رونا۔ گھر میں رو رہیں ہیں۔ بیت الحزن میں جا کر رو رہیں ہیں۔ گھر کا کام کر رہی ہیں مگر روۓ جا رہی ہیں۔ چکیاں پیس رہی ہیں مگر روۓ جا رہی ہیں۔ مصلے پر کھڑی ہیں مگر آنسو بہہ رہے ہیں۔ تلاوت قرآن ہو رہی ہے مگر سیلاب اشک جاری ہے۔ ضعف و نقاہت بڑھتا جا رہا ہے۔ مگر آنسو نہیں رک رہے ہیں۔ کمر خمیدہ ہو گئی مگر رونے کا سلسلہ جاری ہے۔ جب تک زندہ رہیں روتی رہیں اور اتنا روئیں کہ گریہ زہراؑ ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنا گریہ کیوں؟ کیا صرف یتیمی کا احساس تھا جو فاطمہؑ کو اتنا رونے پر مجبور کر رہا تھا؟ کیا یہ صرف باپ کا غم تھا جو فاطمہؑ کو تڑپا رہا تھا؟ کیا صرف پیغمبرؐ کی جدائی کا اثر تھا جس نے فاطمہؑ کو بےچین کر رکھا تھا؟ کیا یہ صرف شفقت پدری سے محرومی کا اظہار تھا؟ فاطمہؑ تعلیمات پیغمبرؐ کا مجسمہ تھیں۔ نبیؐ آخر کی نبوت کا شاہکار تھیں۔ تعلیمات قرآنی کی بولتی ہوئی تصویر تھیں اور اس مزاج کی وارث تھیں جس کے نزدیک حیات دنیا حیات آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس خاندان کا مرکزی کردار تھیں جہاں زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں۔ اس گھرانے میں اپنی یا اپنے عزیزوں کی زندگی اسی وقت تک پسندیدہ ہے جب تک حکم خدا ہے اور اگر مرضی خدا بدل جائے تو موت اتنی ہی عزیز جتنی عزیز زندگی تھی۔ پھر فاطمہؑ جانتی تھیں کہ پیغمبرؐاسلام دنیا سے رخصت ہو کر مقام محمود پر پہنچ چکے ہیں اور الہی نعمتوں سے ہم آغوش ہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی کے مقابلے میں حسین تر ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ اس دنیا کی زندگی میں پیغمبرؐ کے لیے آرام و راحت نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور بعد انتقال جنت کی زندگی میں سب کچھ ہے۔ اور یہی نہیں بلکہ پیغمبرؐ کی پیشن گوئی کے مطابق فاطمہؑ تھوڑے سے وقفے کے بعد جنت میں پہنچ کر اپنے والد بزرگوار سے مل جائیں گی یعنی جدائی کا زمانہ بہت مختصر ہے۔ پھر آخر گریہ زہراؑ کا سبب کیا ہے۔ پیغمبرؐ کا غم؟ باپ کی جدائی؟۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ فاطمہؑ زہرا وفات پیغمبرؐ کے پس منظر میں بہت کچھ دیکھ رہی تھیں۔ ان کی نگاہیں باپ کی جدائی کے آئینے میں مسلمانوں کے بھیانک مستقبل پر تھیں۔ امت کی بہبودی کے لئے بے چین رہنے والے باپ کی حساس بیٹی دیکھ رہی تھی کہ تاریخ کا رخ بدل رہا ہے۔ گریہ زہراؑ کا مفہوم سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ تاریخ انسانی کے اس نازک ترین لمحے کا تجزیہ کریں جب پیغمبرؐ اسلام کی آنکھ بند ہو رہی تھی اور پیغمبرؐ دنیا سے سفر کر رہے تھے۔
پیغمبرؐ اسلام کی موت صرف ایک نبی کی موت نہیں تھی بلکہ قدرت کا ایک انتہائی اہم فیصلہ نافذ ہو رہا تھا۔ ایک ایسا فیصلہ جس کا تجربہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہ تاریخ انسانی کا ایک انتہائی نازک موڑ تھا۔ یعنی زمین سے آسمان کا رشتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹوٹ رہا تھا۔ وحی کا دروازہ بند ہو رہا تھا۔ اب نہ کوئی کتاب اترنے والی ہے نہ کوئی نبی مبعوث ہونے والا ہے۔اب تک انسانی قیادت کی ذمہ داری انبیاء و مرسلین پر تھی۔ جبرئیل اور دوسرے آسمانی فرشتے مدد گار تھے مگر اب تاریخ ایک ایسے دور میں داخل ہو رہی تھی جس میں قیادت اور امامت کا فریضہ ایک ایسے انسان کے کاندھوں پر آ چکا تھا جو مزاج پیغمبریؐ کا وارث ہونے کے باوجود پیغمبر نہیں تھا۔ جو سیرت و کردار میں صفات نبوی کا حامل ضرور تھا مگر بنی نہیں تھا۔ جو نفس رسولؐ تھا لیکن خود رسول نہیں تھا۔ جو صد فی صد علم کتاب کا حامل تھا مگر کتاب اس پر نہیں اتری تھی۔ اللہ و رسولؐ نے اسے اسی دن کے لئے معین کیا تھا، تیار کیا تھا، بھیجا تھا کہ جب سلسلہ نبوت و رسالت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منقطع ہو تو انسانی قیادت کی ذمہ داری یہ عظیم انسان سنبھال لے۔ یقیناً دور انبیاء میں بھی ایسے درمیانی وقفے رہے ہیں جب کوئی نبیؐ و رسولؐ زمین پر موجود نہیں تھا۔ مگر یہ سلسلہ اس سے پہلے کبھی قطع نہیں کیا گیا تھا۔ اللہ__ کتنے بڑے دل و دماغ کا مالک تھا۔ وہ انسان جو فرشتوں کے رابطے اور واسطے کے بغیر انسانی قیادت کی ذمہ داری کے لئے تیار تھا۔
پیغمبرؐ اسلام کی وفات تاریخ کے ان دونوں ادوار کے درمیان خط فاصل کی حیثیت رکھتی تھی اور پیغمبرؐ نے تاریخ کو ٢٣ سال میں جس راستے پر لگا دیا تھا وہ امن و سلامتی کا راستہ تھا۔ کامیابی اور کامرانی کا راستہ تھا۔ سکون و اطمینان کا راستہ تھا۔ تمام کرہ ارض پر عدل اجتماعی کے قیام کا راستہ تھا۔ سب دیکھ رہے تھے فاطمہؑ بھی دیکھ رہی تھیں کہ اگر تاریخ اسی نہج، اسی رفتار، اسی رخ پر چلتی رہی تو مستقبل قریب میں ساری دنیا جنت کا نمونہ بن جائے گی۔ ظلم و ستم کا خاتمہ ہو جائے گا۔ نہ کوئی مستکبر ہوگا نہ کوئی مستضعف، نہ ظالم ہو گا نہ مظلوم۔ زمین سے نعمتیں ابلنے لگیں گی اور آسمان سے رحمتیں برسنے لگیں گی۔
مگر جب فاطمہؑ نے دیکھا کہ لوگ اس عظیم انسان کے خدمات حاصل کرنے سے انکار کر رہے ہیں جسے پیغمبرؐ نے اسی دن کے لئے پالا تھا۔ مسلمان پیغمبرؐ کے قائم کئے ہوئے عادلانہ سماج کی قیادت کی ذمہ داری اسے نہیں سونپ رہے ہیں جو منصوص الہی تھا۔ تاریخ اپنا رخ بدل رہی ہے۔ مسلمان اس راستے پر قدم رکھ رہے ہیں جو ہلاکت و فلاکت کا راستہ ہے، ظلم و جور کا راستہ ہے، کفر و نفاق کا راستہ ہے۔ شرک و توہمات کا راستہ ہے۔ استعمار و استحصال کا راستہ ہے۔
فاطمہؑ کے پہلو میں پیغمبرؐ کا دل اور فاطمہؑ کی نظروں میں رسالت کا نور تھا۔ زمان و مکان کے پردے فاطمہؑ زہرا کی نگاہوں کے سامنے حائل نہیں ہو سکتے۔ تو اب فاطمہؑ دیکھ رہی تھیں کہ سرزمین عرب بے گناہوں کے خون سے رنگین ہو گی۔ فرات و دجلہ کا پانی زہر ہلاہل بن جائے گا۔ مدینہ تاراج ہوگا۔ صحن کعبہ میں گھوڑے باندھے جائیں گے۔ دشت کربلا آل محمدؐ کے خون میں نہائے گا۔ بغداد کی گلیاں آگ برسائیں گی۔ سادات کا خون گارا بنے گا۔ بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔ ایران و عراق کی زمین پر انسانی خون کا سیلاب آۓگا۔ عدل و انصاف کے الفاظ صرف کتابوں میں رہ جائیں گے۔ دنیا میں ہونے والے لاکھوں لاکھ یتیموں کی فریادیں فاطمہؑ کے کانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ ظہور تک ہونے والی بیواؤں کی سسکیاں فاطمہؑ سن رہی تھیں۔ صدیوں تک ظلم و ستم کے شکنجے میں جکڑی ہوئی انسانیت کی چیخیں فاطمہؑ سماعت فرما رہی تھیں۔ دنیا کے اربوں مستضعفین کی بیچارگی فاطمہؑ کا دل دہلا رہی تھی۔ فاطمہؑ رو رہی ہیں روۓ جا رہی ہیں اپنے غم میں نہیں امت کے غم میں۔ کیوں نہ روتیں۔ فاطمہؑ اس باپ کی بیٹی تھیں جس نے امت کے لئے پیٹ پر پتھر باندھے تھے۔ اس باپ کی لخت جگر تھیں جس نے زخم کھا کے امت کو دعائیں دی تھیں۔ آخر فاطمہؑ اس امت کی بربادی اور ہلاکت کیسے برداشت کر لیتیں جس کے لئے فاقے کئے تھے چکیاں پیسی تھیں جس کی فلاح کے لئے آبلے بھرے ہاتھوں سے دعائیں مانگی تھیں۔ اور اب امت کا بھیانک مستقبل فاطمہؑ کو تڑپا رہا ہے۔ مدینے کی خاموش فضاؤں کا سینہ چیرتی ہوئی دلخراش آواز گونج رہی ہے۔
صُبَّتْ عَلىَّ مَصآئِبٌ لَوْ اَنَّها.