۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 363162
12 اکتوبر 2020 - 02:46
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/ عشق حسینی جب دل میں انگڑائی لے تو انسان انجام کی فکر نہیں کرتا اسے اس وقت تک سکون میسر نہیں ہوتا جب تک اپنےآپکو مسلخ عشق تک نہ پہنچا دے۔

تحریر : مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | یہ موڑ آپ کو صحیح منزل تک پہنچانے میں معاون رہے گا آپ لوگ اسی سمت مڑ جائیں اور پریشان نہ ہوں یہ راستے میرے دیکھے بھالے ہیں  مرتے کیا نہ کرتے کوئی تو اس صحرا میں ایسا تھا جو پر یقین انداز میں بات کر رہا تھا جاسم کو بھی اس شخص کی بات سمجھ آ گئی تھی چنانچہ ہم فورا اسکی جانب سے نشاندہی کی گئی راہ پر چلنے کو تیار ہوگئے وہ خچر پر سوار کوئی صحرا نورد قسم کا آدمی معلوم پڑتا تھا چونکہ اسے راستے کی کافی معلومات تھی اس نے نہ صرف ایک محفوظ راستے کی نشاندہی کی بلکہ ہمیں یہ بھی بتایا کہ فلاں فلاں راستہ پر امریکن فوجی ہیں اور فلاں راستہ پر عراقی فورسز اور ان راستوں کی بھی نشاندہی کی جہاں سے قافلوں کو عراق پہنچ جانے کے بعد بھی پلٹایا جا رہا تھا اس شخص نے یہ بھی بتایا پہاڑی کی فلاں سمت جو راستہ جا رہا ہے اس پر ایک ایرانی قافلہ واپس آ رہا ہے آپ اگر ادھر سے جائیں گے تو آپکو وہ کچھ ہی دور پر مل جائیں کتنے افسوس کی بات تھیکہ دور دراز کا سفر طے کر کے خود کو بمشکل عراق تک پہنچانے والے زائرین کو واپس ایران کی سرحد میں بھیجا جا رہا تھا اور وہ حسرت زیارت لئے اسی راہ پر پلٹ رہے تھے جس سے انہوں نےکئی دنوں کا سفر طے کر کے عراق کی سرحد میں قدم رکھا تھا بہر کیف جو راستہ اس نے بتایا تھا اسکے کہنے کے مطابق سے سے محفوظ راستہ یہی تھا بقول اسکے اس راستہ پر کوئی سیکورٹی اہلکار بھی نہیں ہے سو ہم نے سوچا اسی راہ کو آزمایا جا سکتا ہے بہر حال یا ابا الفضل العباس کہتے ہوئے تھکن سے چور ہم راستہ آزمانے کو تیار ہو گئے ابھی کچھ ہی دور چلے تھے کہ ہم نے دیکھا کچھ پچاس ساٹھ لوگوں پر مشتمل کچھ لوگ قافلہ کی صورت چلے آرہے ہیں ہم بھی انہیںطکے ساتھ ہو لئیے اور اس مقام پر  جاسم پرجوش انداز میں  کہا کہ راستہ مل گیا ہے ۔
۔۔۔ ہم نے اس قافلہ میں  دیکھا کہ بوڑھی عورتیں، بچے اور مرد بوجھل قدموں سےبڑی مشکل سے چل پا رہے ہیں سبھی کی حالت بہت خستہ لیکن سبھی کے اندر جذبہ ایثار پایا جا رہا  ہے اور سبھی ایک دوسرے کو سہارا دئیے چلے جا رہے ہیں ان کی ظاہری حالت دیکھ کر ہی لگ رہا تھا بہت غریب و مالی اعتبار سے بہت کمزور ہوں گے ہم بھی انہیں کے ساتھ ہو لئے جب اس قافلے کے لوگوں سے کچھ بات چیت ہوئی تو باتوں باتوں میں پتہ چلا ان کا تعلق افغانستان سے اورافغانستان کے دور دراز علاقوں سے اپنے مولا کی خاطر چلے آ رہے ہیں یہ اس دور کی بات ہے افغانستان میں  امریکہ کا معروف آپریشن  Operation Enduring Freedom چل رہا تھا اور   سبز خود والے سرخ موت بانٹتے گھوم رہے تھے یا یوں کہا جائے جب بظاہر افغانستان پرطالبان جیسے خونخوار درندوں پر خدا ظالموں کو مسلط کر کے اپنے بے گناہ قتل کئیے گئے بندوں کا انتقام لے رہا تھا اور جن لوگوں نے مال و دولت وطاقت صرف کر کے طالبان کو بنایا تھا وہی ان کی بیخ کنی کر رہے تھے کابل پر امریکہ کا پرچم لہرا رہا تھا اور اتحادی افواج پہاڑوں کے اندر بنی مخفی گاہوں میں طالبانیوں کو ڈھونڈھتے گھوم رہے تھے افغانستان پر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک ٹنوں ٹن بم بر سا رہے تھے اور طالبان کے خونخواردرندے پہاڑوں اور غاروں میں جائے امن تلاش کر رہے تھے وہی لوگ  جنہوں نے۱۹۹۶ سے دو ہزار ایک  تک افغانستان کی شاہراہوں ،گلیوں اور کوچوں میں موت کا نقارہ بجایا جنکی جہالت کی تال پر موت نے رقص کیا تھا ،جنکی عصبیت ونفرت کے بھڑکتے شعلوں نے انسانیت کے خرمن کو دھواں دھواں کیا بے گناہوں کی لاشوں پر  لا الہ الا اللہ و محمد رسول اللہ کی تحریریں کندہ کر کےجنہوں نے کلمہ توحید کا خون کیا تھا اور خوش تھے کہ ہم نے پرچم توحید کولہرایا ہے آج وہی جنونی  اپنے پرانے حلیفوں اور آقائوں کے قہر کا شکارتھے اور انکی بربریت و بہیمیت کے شکار ہونے والے مظلوموں کی آہیں  کروزمیزایلوں اور جدید امریکن  بموں کی صورت ان کا تعاقب کر رہی تھیں  کربلا
کی سمت جاتے ہوئے افغانستان کے اس کاروان عشق کو دیکھ کر میرے پردہ ذہن پر سقوط  بامیان و مزار شریف کے مناظر گردش کر رہے تھے جہاں آج اپنی جان بچا کر پہاڑوں کی طرف بھاگتے انہیں طالبانیوں نے شیعوں کو چن چن کرماراتھا اور ان شیعوں کے درمیان ہزارہ قوم پر ہونے والے ظلم کی تو بات ہی کیا اسے کون بیان کر سکتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا
بس مختصر یہ سمجھیں کہ حال یہ تھا کہ ایک دن کا سورج اپنےساتھ نہ جانیں کتنی بچھی ہوئی لاشوں کا پیغام لاتا جن گھروں میں چہل پہل ہوتی شام ہوتے ہوتے وہاںسناٹا چھاہا ہوتا اس لئیے کہ سورج کے ڈوبتے ڈبتے انکاسب کچھ ختم ہوجاتانہ جانیں کتنے عورتوں کے سہاگ اجڑ گئے کہ ان کا جرم اھلبیت ع سے محبت تھا نہ جانے کتنے بچے یتیم ہو گئے کہ انکا جرم عشق حیدر کرار تھا نہ جانیں کتنی گودیاں سونی ہو گئی کہ ان کا جرم آنے والے کل کے لئے علی اصغرؑ و اکبر تیار کرنا تھا ایسے بچوں کی تربیت جو چھ میہنے کے ہوتے ہوئے اتنی بصیرت رکھتے ہوں کہ دشمن کی جرات و طاقت کا نشہ ایک تبسم میں اڑا دیں ایسے جوانوں کی تربیت جو سینہ پر برچھی کھا لیں دین کا سینہ چھلنی نہ ہونے دیں یہی سب تھا کہ ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا نتیجے میں جہاں بھی شیعہ آبادیاں تھیں وہاں پہنچ جاو تو کہیں اونچے کھنبوں میں جوانوں کی لاشیں لٹکتی ملتیں جنہیں کھمبوں میں لٹکا کر مار دیا گیا تھا یا ویران گھروں کے باہر بے سدھ پڑے بوڑھے جوان اور بچےملتے جنکے گلے کاٹ کر سروں کو  درختوں کی شاخوں اور ٹہنیوں میں لٹکا دیا گیا تھا کہ طالبان کی نظر میں کافر تھے اور انکا انجام ہی یہی تھا کہیں دیواروں پر کھونٹوں کو گاڑ کر سروں کو سجا کر ححاج ثقفی کی جنایتوں کو دہرایا گیا تھا ان سب مظالم و جنایتوں کے باوجود یہ افغانستان کے مجاہد شیعہ زندگی کی ہربازی ہار جانے کے بعد بھی عشق اھلبیت کی ڈگر سے منحرف نہ ہوئے تھے اور آج  ایک بار پھر  جبکہ ان کے ملک میں نا امنی تھی اور ہر طرف انسانی پیکروں کی چتھڑے اڑتے نظر آ رہے تھے کہیں طالبان انتقام کی آگ میں خود کش حملوں کی ذریعہ لوگوں میں دہشت پھیلا رہے تھے تو کہیں اتحادی افواج نام نہاد غلطیوں کےذریعہ پورے پورے گاوں اور شہروں کو خاک سے یکساں کر رہی تھی لیکن اس کےباوجود بھی حسینی عشق کے یہ پرندے آسمان حیات پر اڑتے ہوئے اپنے نشیمن کی طرف روان دواں تھے کہ ان کے لئیے اس ظلم و ستم سے پٹی ہوئی اندھیر دنیامیں ایک ہی امیدوں کا جلتا ہوا چراغ تھا جس کا نام تھا حسین اور وہ ہر خطرہ کو بھلا کر حسین حسین کرتے ہوئے کربلا کی طرف گامزن تھے یقینا ایسی صورت میں افغانستان سے نکل پڑنا اور بغیر اس نتیجہ کی پروا کئیے کہ واپسی پر کیا ہوگا یہ یہی بتاتا ہے کہ
عشق حسینی جب دل میں انگڑائی لے تو انسان انجام کی فکر نہیں کرتا اسے اس وقت تک سکون میسر نہیں ہوتا جب تک اپنےآپکو مسلخ عشق تک نہ پہنچا دے۔
جاسم ہمیں ان لوگوں کے ہمراہ شہر کوت کے نزدیک کسی ایسے گاوں تک لے گیاجہاں سے کربلا کے لئیے بسیں جاتی تھیں ہم لوگ جب اس مقام پر پہنچے تو عجیب کشمکش نظر آئی مسافروں کو لیکر کھینچا تانی تھی تھکے ماندھے مسافراس سے پہلے کے کچھ سمجھ پاتے جن طاقت ور ہاتھوں میں پہنچتے وہ اپنا شکار سمجھ کر انہیں مطلوبہ بس میں بٹھا دیتے ہم لوگوں نے جاسم سے کہا کہ بھائی تم نے راستہ بھول کر ہمارا پہلے ہی اچھا خاصا حشر بنا دیا ہے اب کم از کم اس نئی افتاد سے بچاو اور ہمیں بغیر گھتم گتھی کے کسی مناسب سواری میں سوار کرا دو خدا نے ہماری مدد کی اور وہ ہمیں ایک ڈھابے تک لے آیا جہاں عراقی چائے کے ساتھ ٹھنڈا پانی کولڈرنکس اور ناشتے کا انتظام تھا ہم نے مختصر سا ناشتہ کیا اس کے بعد جاسم نے ہمیں ایک مینی بس میں بٹھا دیا جو کربلا کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔
جاری ہے...

تبصرہ ارسال

You are replying to: .