پہلی قسط
تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | کبھی کبھی زندگی میں ہم وہ نہیں کر پاتے جو سوچتے ہیں ...زندگی کے سمندرکی متلاطم موجوں سے کھیل کھیل میں نہ جانے کیسے ایک ہی پل میں سب کچھ سنجیدہ سا ہو جاتا ہے اور ہمیں معلوم بھی نہیں ہوپاتا کیا سے کیا ہو گیا اور کہاں سے کہاں چلے چلے آئے بس ہر طرف موجیں ہوتی ہیں اور ہماری بے حس و حرکت لاش اور اس کے اطراف میں تیرتی اورپر نیجی آتی جاتی لاشیں ہی لاشیں ۔۔۔
ہم سمجھ بھی نہیں پاتے ایک پل میں کیا ہو گیا ؟ کہاں سے کہاں پہنچ گئے سارے خواب ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں تمام منصوبوں پر پانی پھر جاتا ہےہر حکمت عملی ناکارہ ہو جاتی ہے ہم منزلوں کی طرف بھاگتے ہیں منزلیں آنکھیں چرا کر ہم سے فرار کرنے لگتی ہیں جست و گریز کا ایک عجیب وغریب معرکہ ہوتا ہے کچھ ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جسکی منظر کشی ناممکن ہے خاص کر جب میرے جیسے لوگ اپنےاردد گرد بکھری ہوئی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ دنیاذرا بھی انکے خوابوں انکے خیالوں سے میل نہیں کھاتی تو عجیب سا احساس دل و دماغ پر طاری ہو جاتا ہے--
اس رنگ برنگی دنیا میں ہر رنگ دھندلا اورپھینکا پھیکا سا لگتا ہےجب کتاب دل لہو لہو ہو،عصری جراحتوں کی وجہ سےاٹھنے والی دل کی ٹیسیں خوشی و غم دنوں میں اپنی بانسری بجا کر دونوں ہی کو یکساں طور پر مفلوج کر دیتی ہیں نہ ملنے والا غم غموں سے سیکھ دلاتاہے نہ خوشی ہی سے کچھ حاصل ہوتا ہے
بس سب کچھ سپاٹ سا رہتا ہے ۔
لوگوں کے چہروں پر سجی مصنوعی مسکراہٹیں ہوں کہ دوست و احباب کی آنکھوں میں ہمدردی کے جعلی سایے
بسا اوقات جب کوئی ایسا نہ مل سکے کہ جس سے درد دل بیان کیا جا سکے اور وہ زخم دل کریدنے کے بجاءے دواءے دل کا انتظام کرے تو انسان تڑپ تڑپ کر ان حقیقتوں کو ڈھونڈتا ہے جہاں زندگی کے معنی مل سکیں ۔
عدالت وانصاف ، امن و تحفظ، انسانی اقدار،اخلاقیات ،غرض انسان کے وجودمیں پائی جانے والی تمام جبلتیں جو انسان کی معنوی حیاتیاتی بنیادوں کوتشکیل دیتی ہیں سب کے سب آسمان حیات پر بادل کے ٹکروں کی طرح بکھری ادھر
ادھر تیرتی نظر آتی ہیں لیکن نہ ان میں برس کر زمین دل کو جل تھل کرنےکی طاقت ہوتی ہے نہ منظم ہو کر ایک گھٹا بننے کی کہ انسان اس امید پر ہی جی لے کہ آج نہ سہی کل بارش ہوگی اور تپتا ہوا صحراءے انسانیت ضرور باران کمال سے سیراب ہوگا پھر ہر سو سبزہ ہوگا اقدار کے پھول ہوں گے اخلاق کی
کلیاں ہونگی امن و تحفظ کی کیاریوں میں زندگی کے حسین روپ لہلا رہے ہونگےاور جب ایسا کچھ نہیں ہوتا سوچ صرف سوچ رہ جاتی ہے اور انسان بار بار خود کو سمجھانے کے بعد بھی ارتقاء کے مراحل پر گامزن نہیں دیکھتا تو ایک اپاہج زندگی کی لاش اپنے سر ڈھوتے ڈھوتے بھول جاتا ہے کہ وہ کیا ہے نتیجہ کہیں کسی کا غلام بن جاتا ہے کہیں تو کہیں اپنے ضمیر کا سودا کر بیٹھتا ہے حقیقتوں سے غفلت انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی ایسے میں اپنے ضمیر اور
اپنے وجود کو باقی رکھنے کا عمل بہت سخت اور طاقت فرسا ہوتا ہے جہاں فکروں کی بولیاں لگ رہی ہوں جہاں ضمیروں کے سودے ہو رہے ہوں جہاں صلاحیتوں کی فروخت کا بازار سجا ہو وہاں خرید و فروخت کی آگ میں جل بھن کر خاکستر ہو جانے والی بشریت کی تہوں سے اٹھنے والی بدبو اتنی بھیانک ہوتی ہے کہ انسان الفاظ ڈھونڈتا رہتا ہے لیکن کوئی لفظ پاس نہیں بھٹکتا
کہ بے جان ہو کر بھی اتنی گندگی کا بار اٹھانے کی طاقت ان میں نہیں ۔
نہیں معلوم میرے الفاظ نے میرا ساتھ دیا اور میں اپنی بات پہنچانے میں کامیاب ہوا یا نہیں بس اتنا سمجھیں کہ جب انسان زندگی کے معنی تلاش کررہا ہو اور ہر جگہ اسے ناکامی ملے تو ایسی صورت میں جو احساس جنم لے تواسے آپ کیا کہیں گے ایسا ہی کچھ احساس جو زندگی کے معنی کو ڈھنونڈتےڈھونڈتے مسلسل ملنے والی ناکامیوں کی بنا پر انسان کے پورے وجود پر طاری ہوتاہے بالکل ایسا ہی کسی وقت مجھ پر طاری تھا
محسوس ہوتا گو کہ میں خلا میں جی رہا ہو اور میرے ارد گرد کی دنیا روئی کے گالوں کی طرح میری ہی طرح ٹنگی ہوئی ہے جسکی اپنی کوئی حقیقت نہیں سب کچھ جعلی و فریبی ہے حقیقت کا گزر کہیں نہیں بڑے سے بڑے فریب کو خوشنما رنگوں کے مگرجعلی فریم میں ایسے سجا دیا گیا ہے کہ حقیقت کا گماں ہو ۔
جی ہاں کچھ ایسی ہی کیفیت میرے اوپر طاری تھی دنیا کے تمام وہ حقایق جنکے لئےدنیا لڑتی مرتی ہے مجھے خلا میں قلابازیاں کھاتے دکھتے اور میں اپنے لئےاس خلا سے نکل کر اس فضا کا راستہ تلاش کرتا جہاں سے نئی منزل کی طرف
پرواز کر سکوں اونچا بہت اونچا بلکہ سب سے اونچا اڑ سکون وہاں پہنچ سکوں جہاں پر پہنچ کر مھمل اور بے معنی زندگی کو ایک معنی مل سکیں ان چیزوں کےتکامل کومحسوس کر سکوں جن سے انسان کی زندگی زندگی بنتی ہے اور جن کے بارے میں مجھے لگنے لگا تھا یہ سب چیزیں کبھی تھیں لیکن اب نہیں ہیں انہیں میں کہیں کھو
آیا ہوں اور اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ کہاں اور کیسے کھویا بس اسی قسم کےسوالات اور روح کی تشنگی نے مجھے ایک یادگار سفر کے لیے بار سفر باندھنے
پر مجبور کیا ۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔