۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 363148
11 اکتوبر 2020 - 00:15
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزه/ آج جب پیاس خود پر طاری ہوئی تو کربلا والوں کی تشنگی کا تھوڑا سا احساس ہوا اس باردل سے آواز نکلی کربلا کے تشنہ لبوں پر ہمارا سلام

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | کافی دیر تک آقای کاشانی کی بچی کی معصومانہ باتوں  ہمارے کانوں میں گونجتی رہیں  وہ باتیں جنہوں نے اپنے اشکوں سے وضو کر کے ہمیں آگےبڑھنے کا موقع فراہم کر دیا تھا۔
اب اس سفر میں ہمارے ساتھ حسین ع کی ننھی بچی سکینہ کی ایک خاص معیت بھی تھی جس کی گریہ کی آوازیں  ہمارےاحساس کو جنھجھوڑ رہی تھیں گو کہ ہر طرف ایک ہی آواز تھی ہائے میرا
بابا ہائے میرا بابا ۔۔۔۔ 
اپنے اہل خانہ سے بات کر لینے کے بعد اب ہم سفر کے لئیے تیار تھے خاص کر آقای کاشانی کی کیفیت دیکھنے لائق تھی جو اپنی بچی سے بات کرنے کے بعد ہم سب سے زیادہ کربلا کی ننھی بچی کے اپنے بابا سے فراق کے درد کو محسوس کر رہے تھے۔
بہر حال ہمارے سفر کا ایک چھوٹے سے پڑاو کے بعد دوبارہ آغاز ہو چکا تھا اور ہم اب ایک جیپ نما گاڑی میں سوار ہو کر ایرانی سرحد پر تعینات فوجی جوانوں کی نظروں سے بہت دور ایک بیابان صحرا کی جانب نکل پڑے تھےکچھ دور چلنے کے بعد ہمیں اتار دیا گیا اور ہم سے کہا  گیااب یہاں سےپیدل چلنا ہےنماز مغربین پڑھ کر ہم فورا نکل ہی نکل لئے تھے۔
آسمان کا مطلع صاف تھااور دھیرے دھیرے آسمان کے ستارے زائرینِ کربلا کے آفتاب شوق کی زیارت کے لئیے اپنی نقابوں کو الٹ رہے تھےجو ہم سے مختلف راہوں پر کربلا کی طرف گامزن تھے ہر ایک خطرہ سے بے خبر ہر ایک انہونی سے بے خبر-یہ پہاڑی علاقہ تھا ہمیں پہاڑوں کو کہیں عبور کرنا تھا اور کہیں پتھریلی زمینوں چٹانوں اورجھاڑیوں اور کانٹوں سے گزرنا تھا اس دوران جب کبھی کہیں راستہ صاف ہوتا ہمیں نہ جانے کتنے نقش قدم نظر آتے سیکڑوں اورہزاروں کی تعداد میں ہم سے پہلے لوگ اپنے عشق کا امتحان دے چکے تھے ہم
کوئی اکیلے نہیں تھے اتنا ضرور تھاکہ ہمیں اپنی طرف بلانے والے کی صدائے ھل من ناصر  آج بھی  صدیوں کے دبیز  پردوں کو چیر کر   ہم تک پہنچ رہی تھی بظاہر ہم اس کی زیارت کےلئیے جا رہے تھے لیکن ہمارے پاس ایسا کچھ نہیں تھا کہ ہم کہہ سکیں مولاآپ کا چاہنا والا آپکی زیارت کے لئے آ گیا
 ۔۔۔۔نہ نیت کی پاکیزگی نہ وجود
میں ہیجان عمل کی آگ نہ جذبوں کی صداقت بس ہوا کے دوش پر ایک موہوم سی محبت کا دیا تھا 
جس کی تھرتھراتی لو کو خواہشات دنیا کا کوئی بھی جھونکہ ہمیشہ کے لئے خاموش کر سکتا تھا اس لئیے کہ  فانوس عمل کو ہم پہلے ہی کہیں
ریزہ ریزہ کر چکے تھے اور اسکا
ثبوت یہ تھا اس اوبڑ کھابڑ راستہ میں شروع سفر میں تو ضرور ہوا کہ ہم نےایک دوسرے کا تعاون کیا اور اگر کوئی تھک گیا تو اسکا سامان اپنے کاندھوں پر ڈال دیا لیکن آگے چل کر حال ایسا تھا کہ ہر ایک اپنی فکر میں تھاپسینہ سے شرابور چلتے چلتے اپنے دوسرے بھائیوں کے لئیے ٹہر کر انتظارکرنے تک کا عمل طاقت فرسا تھا ۔اس سفر کی عجیب بات یہ تھی کہ ہر آدھاگھنٹے پر شدید پیاس لگتی لیکن ہمارے ساتھ کے بلد چی ہمیں دو چار گھونٹ پانی سے زیادہ نہیں پینے دیتے جن پر ہمیں بہت غصہ آتا وہ کہتے آگے پانی
کی سخت ضرورت ہوگی اور ایسا ہوا بھی جب ہم سفر کے اختتامی مرحلہ میں تھےتو ہمارے پاس پانی ختم ہو گیا جس کی وجہ سے حلق میں کانٹے پڑ گئے دور تادور حد نگاہ بس صحرا تھا اور ہم ایک ایک بوند پانی کوترس رہےتھے پیروں میں آگےبڑھنے کی سکت نہیں تھی اور یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ابھی کتنا
راستہ اور چلنا ہے کیونکہ سفر کے آغاز کے چار  پانچ  گھنٹےبعد ہی ہماری ہمتیں جواب دے چکی تھییں اور ہم بلد چی سے پوچھتے کہ ابھی کتنی دور ہے تووہ کہتا بس پہنچ گئے وہ جو سامنے پہاڑٰی نظر آ رہی ہے بس اسکو طے کرنا ہےاور وادی تک پہنچنا ہے
لیکن بظاہر چاند کی روشنی میں نہائی سامنے نظر آنےوالی پہاڑی ہمارے ہر قدم کے ساتھ دور ہوتی چلی جا رہی تھی اور اب تو
تقریبا رات تمام ہونے آئی تھی جب پیاس کی شدت بڑھی اور پیروں میں اب اتنی سکت نہ رہی کے آگے بڑھ سکیں تو ہمارے بلد چی ہمیں قریب بلا کر تھوڑاتھوڑا پانی دیا اور ہمیں بہت غصہ آیا کہ اس کے پاس پانی تھا لیکن اس نےاب تک نہیں دیا اس بے آب و گیاہ صحرا میں پانی کے چند قطرہ ملے تو جان میں جان آئی اور پہلی بار زندگی میں احساس ہوا کہ پانی کیا ہوتا ہے اورتشنگی کسے کہتے ہیں
۔۔۔ کربلا میں حسین پیاسے تھے بیبیاں پیا سی تھیں اورننھے بچے پیاسے تھے یہ تو بہت سنا تھا یہ بھی سنا تھا کہ ننھا ششماہہ پیاس سے جاں بلب تھا لیکن پیاس ہوتی کیا ہے اس سے بخبر تھے آج جب پیاس خود پر طاری ہوئی تو کربلا والوں کی تشنگی کا تھوڑا سا احساس ہوا اس باردل سے آواز نکلی کربلا کے تشنہ لبوں پر ہمارا سلام ۔۔۔۔۔
ہم نماز کے بعد سے جو چلے تو مسلسل چل ہی رہے تھے بس جب تھک جاتے توتھوڑا آرام کرتے اور پھر دوبارہ چل دیتے راستہ میں پتھریلی زمینیں بھیآئیں جھاڑ جھنکاڑ میں آئے اور چھوٹی چھوٹی دو نہریں بھی جن میں زانوں زانوں تک پانی تھا جنہیں ہم نے ایسے طے کیا جیسے سیلاب زدہ علاقوں میں لوگ سامان سر پر رکھ کر طے کرتے ہیں  ان نہروں میں شاید کسی ایک کا نام کنچان تھا 
نہروں کو پار کرنے کے بعد عجیب بات یہ ہوئی کہ جناب حیدری کاشانی نہر پار کرتے ہی ایک جگہ بیٹھ گئے کہ اب ہم سے نہیں چلا جاتا ان کا کہنا تھا بدن میں جتنی طاقت تھی اب ختم ہو چکی ہے آگے بڑھنا ممکن نہیں ہمیں اب تھوڑی دیر آرام کر لینا چاہیے دوسری طرف بلدی کہہ رہے تھے اب ہم نزدیک ہیں تھوڑا آگے چل کر بیشک آرام کر لیں لیکن یہ جگہ آرام کرنے کےلئیے مناسب نہیں ہے اسی دوران ہمارے تعجب کی انتہا نہ رہی کہ جناب کاشانی نے اپنے سامان میں سے طاقت کا انجیکشن نکالا اور خود ہی لگا بھی لیا ہم نے انسولین کے انجکشن تو  آسانی سے لگتے دیکھے تھے لیکن طاقت کا انجیکشن پہلی بار کسی کو  اپنے ہی ہاتھوں لگاتے ہوئے دیکھ رہے تھے کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم پھر اپنی منزل کی طرف چل پڑے اب سحر کا وقت نزدیک تھا اور
ہم بظاہر عراق کے بدرہ شہر کے نزدیک تھے ہمارے بلدچی نے اچانک ہمیں زمین پر لیٹ جانے کو کہا ہم زمین پر لیٹ گئے اور لیٹے لیٹے ہم نے محسوس کیا ہمارے تھوڑے فاصلے سے زن زن کر کے کچھ فوجی ٹرک گزر گئے ٹرکوں کے گزر جانے کے بعد انہوں نے کہا اب یہاں سے آپ لوگوں کو وہیں قدم رکھنا ہے جہاں ہمیں رکھنا ہے یوں تو انکی شروع ہی سے ہدایت تھی کہ آپ کو من مانے طریقہ سے نہیں چلنا ہے ایک بلد چی بڑی سی ٹارچ لیکر ہمارے آگے چل رہا تھا اور ایک پیچھے ہمیں ہمیں ویسے ہی چلنا تھا جیسے آگے والا چل رہا تھا اور وہیں قدم رکھنا تھا جہاں وہ قدم رکھ رہا تھا اس کا کہنا تھا اس طرح آپ زیادہ محفوظ رہیں گے اس لئیے کہ یہ ہمارا روز کا کام ہے اور اس راستہ کو بارہاآزما کر ہم یہ یقینی بنا چکے ہیں کہ یہاں پر کوئی خطرہ نہیں ہے اس کے علاوہ ممکن ہے کہ کہیں جنگ کے دوران کی کوئی مائن آپکے پیروں کے نیچے آجائے انکے بقول ایسا بہت سے زا ئرین کے ساتھ ہوا بھی تھا چنانچہ ہم مجبور تھے کہ انہیں کے قدم سے قدم ملا کر چلیں فی الحال ہمیں جان بچانی تھی تو انہیں کے مطابق چلنا تھا یہ اور ان کے پیچھے چلنے کا عمل ہمیں بتا رہا تھا کہ اگر روح کو بچانا ہے تو پھر اسی کے پیچھے چلو  جو اپنی روح کو بچا کر ملکوت تک کا سفر طے کر چکا ہے کہ اس راہ میں نیا تجربہ روح کی ہلاکت کا سبب ہوگا
شاید اسی لئیے دین کی راہ میں ہمیں فقہاء و مجتہدین کے
نقش قدم پر چلنے کو کہا گیا ہے کہ نہ جانے بندگی کی راہ میں کہاں کہاں شیطان نے بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں کہاں کہاں مائنز فٹ کر دیں ہیں ہمیں کیا معلوم اگر ہمیں منزل تک پہنچنا ہے تو مراجع و فقہاء کے بتائے راستہ پر چلنا ہے تبھی ہم بندگی کے کمال تک پہنچ سکتے ہیں ۔۔چلتے چلتے ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں سے عربی میں بات کرنے کی کچھ آوازیں آ رہی تھیں اس مقام پر ہمارے بلد چیوں نے کہاکہ خاموشی کے ساتھ سر جھکا کر بیٹھ جاو خطرہ ہو سکتا ہے ہم بھی ہدایت کے مطابق سر دبکا
کر بیٹھ گئے سپیدی سحر میں ہم اپنے کچھ فاصلہ پر قبائلی لباس میں کچھ بندوق برداروں کو دیکھ سکتے تھے اسی دوران کچھ اور لوگ بھی آگئے اورانہوں نے چلا کر پوچھا تم لوگ کون ہو؟
ان کی گنوں کی نشانے ہماری طرف تھےاور ہم اس عجیب و غریب اتفاق پر بس ٹکڑ ٹکر دیکھ رہے تھے کہ یہ ایک دم سےکیا ہو گیا ہمارے بلد چی نے کہا یہ لوگ زیارت کے لئیے کربلا جا رہے ہیں اور زائرین ہیں اتنے میں ایک بندوق بردار ان کے درمیان سے نکل کر ہمارےقریب آیا اور کہا میرے پیچھے آو ہم لوگ مرتے کیا نہ کرتے اس کے پیچھےچلنے کے لئیے اٹھے کہ اس نے پھر اشارہ سے ہمیں بٹھا دیا اور کہا یہیں بیٹھو میں ابھی آتا ہوں ہم اس کے محلی لہجہ میں کہی گئی باتوں کو سمجھنےکی کوشش کرتے کہ وہ پتہ نہیں کیا کیا کہتا ہوا نکل گیا ہماری سمجھ میں بس یہی آیا کہ میں اپنے دوستوں کے پاس سے ہو کر آگے کا راستہ پتہ کر کے آتاہوں تم لوگ یہیں رہنا ہمارے اوپر عجیب و غریب کیفیت طاری تھی اور دوسری
طرف ہمارے بلدچی کہہ رہے تھے بھائی ہمارا کام ختم ہمیں پسہ دو ہمیں فورانکل  جانا ہے نہیں تو دن میں واپسی پر ہمارے لئیے مشکل ہو جائے گی ہم سوچ رہے تھے انہیں پیسہ دے دیا تو یہ تو نکل لیں گے اور بچیں گے ہم اور وہ بھی ان بدو لوگوں کے بیچ جنکی باتیں بھی پوری طرح سمجھ نہیں آ رہی تھیں
ایک طرف جو ہمیں لے کر آئے تھے وہ واپس جانا چاہتے تھے دوسری طرف وہ لوگ تھے جنکے بارے میں ہمیں پتہ نہیں کون ایسے میں ان لوگوں کو پیسہ بھی دینا تھا جو یہاں تک لائے تھے دماغ کی چولیں ہل گئیں تھیں کیا کریں کیا نہ کریں بلدچی ہم سے کہہ رہے تھے ہم نے آپکو عراق میں چھوڑ دیا ہمارا کام ختم ہماری محنت کے پیسے دو ہم انکا منھ دیکھ رہے تھے کہ یہ کونسا چھوڑنا ہوا اب ہم آگے کیسے بڑھیں نہ کہیں کوئی سڑک ہے نہ گاڑی ہے نہ ہی ہمیں یہ پتہ ہے کس طرف جانا ہے نہ ہی کوئی نقشہ ہمارے پاس ہے جسکے ذریعہ ہم کربلا کا راستہ ڈھونڈ نکالیں لیکن بلدچی اپنی بات پر اڑے تھے کہ ہمارے پیسے دو اب باقی کا سفر تم خود جانو انجام کار  جب بلد چیوں کا اصرار بڑھا تو انہیں پیسہ دے دئیے اور وہ خدا حافظ کر کے نکل لئیے اب ہم سوچ رہے تھے کہ آگے کا سفر کیسے ہوگا کہیں یہ قبائلی لوگ بعثیوں سے تو نہیں ملے ہوئے ہیں جو اس راہ پر گھات لگا کر بیٹھے ہوں اور ہمیں پکڑ کر کہیں لے جائیں ہم کہاں ہیں یہ لوگ کون ہیں بدرہ شہر سے ہم کتنا آگے نکل چکے پیں آگے آبادی بھی ہے یا نہیں آگے کا سفر کہاں سے شروع ہو ہم اس بارے میں سوچ ہی رہے  تھے کہ اپنی کلاشنکوف لئیے ایک شخص ہمارے بالکل سر پر آ کھڑا ہوا اور کہا میں جاسم ہوں اور آپ کو کربلا جانے والی بس میں بٹھانے کی ذمہ داری میری ہے میرےساتھ چلو ہم لوگ گردن جھکائے اس  کے پیچھے پیچھے چل دئیے جاسم تھوڑا خبطی سا انسان لگتا تھا معلوم ہوتا کلاشنکوف آگے کی طرف تانے چلتے چلتے ایک دم سے جو پیچھے مڑتا تو ہمیں لگتا کہ بس زندگی کا یہی قدم ہمارا آخری تھا جواٹھا چکے ۔۔۔لیکن پھر چل دیتا ایک تو رات بھر کی تھکن اوپر سے بھوک و
پیاس کی شدت اب تو پانی کے چند قطرے بھی ہمارے اس نہیں تھے پھر یہ جاسم عجیب و غریب راستوں پر لے جاتا اور پھر وہیں لےآتا جہاں سے چلے تھے اس دوران ہم نے کہا بھائی کہیں نماز قضا نہ ہو جائےہم لوگ راستہ نماز کے بعد بھی ڈھونڈ لیں گے پہلے نماز پڑھ لیں پانی توتھا نہیں تیمم کر کے نماز پڑھی اور دعاء کی بار الہا اب تو ہم عراق کی سرزمین پر ہیں تجھے واسطہ ابو الفضل العباس کا اگر ہم راستہ بھٹک گئے ہیں تو راستہ دکھلا دے اور اگر نہیں بھٹکے ہیں اور جاسم ہمیں ادھر ادھر گھماکر تھکا رہا ہے تو اس سے نجات دلا دے کہ رات بھر چلنے کے بعد اب اتنی طاقت نہیں کہ اس کی سی تیزی کے ساتھ اس کے ساتھ چل سکیں ۔۔۔۔مولانا جعفر صاحب کا جام صبر بھی چھوٹنے لگا تھا اور ہم لوگ آپس میں یہ سرگوشی کر رہےتھے کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ جاسم سنی ہو اور ہمیں یوں ہی وادیوں اورپہاڑیوں سے اپر نیچے لے جا کر تھکا رہا ہو اور جب ہم تھک کر چور ہو جائیں تو ہمارا کام تمام کر دے ۔۔۔۔ایسے میں ہم نے ہمت کر کے اس سے پوچھا جاسم
کیا تمہیں  راستہ نہیں پتا اگر نہیں پتا تو ہم لوگوں کو چلاو مت ہم تھک
چکے ہیں مزید چلنے کی ہمت نہیں ہے ہم یہیں پر بیٹھ جاتے ہیں ہو سکتا ہےکچھ اور لوگ یا کوئی قافلہ یہاں سے گزرے تو اس سے راستہ معلوم کر لیں گےاس نے جواب دیا نہیں میں کوئی راستہ نہیں بھولونگا آپ لوگوں کو پہنچانامیری ذمہ داری ہے ۔۔
ہم سوچ رہے تھے یہ آخرکیسی ذمہ داری ہے اور اسے یہ ذمہ داری کس نے سونپ دی صبح سے دن کے ۱۱ بجنے آئے تھے نہ کربلا کی منزل
کا پتہ تھا نہ کسی آدمی کہ نہ آدمی زاد کا اتنے میں دیکھا کہ ایک خچر پرسوار کوئی پہاڑی آدمی چلا آ رہا ہے اس سے راستہ معلوم کیا تو اس نے بتایافلاں فلاں راستہ پر عراقی اور امریکن فوجی ہیں اور فلاں راستہ سے کچھ فاصلے پر ایک باریک سا موڑ ہے ۔۔۔۔
جاری ہے...
 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .