۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
حرم امام رضا

حوزہ/ امام کی ضریح کو چھوڑنے پر دل راضی نہیں،کہاں جاتی جبکہ میرا عشق میری امید اور میری زندگی اور موت یہی تھی،ایک زیارت کہاں کافی تھی دوبارہ پھر سے صف میں کھڑی ہوگئی تاکہ ہزاروں بار زیارت کر سکوں،ایسا لگ رہا تھا کہ ساری دنیا علی بن موسیٰ الرضا(ع) کی ضریح مطہر کے گرد گھوم رہی ہے اور ہم وہ بے نور ستارے ہیں جو خورشیدِ خراسان سے جڑ جانا چاہتے تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سال کے 365دنوں میں جب بھی آپ کی نظر امام رضا(ع) کے گنبد مطہر اور نورانی بارگاہ پر پڑتی ہے توآپ کے جسم و روح دونوں کی حالت بہتر ہوجاتی ہے ،لیکن بہت سارے افراد ایسے بھی ہیں جو سال بھراپنی اپنی حاجات کو عقیدت و محبت کی زنبیل میں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ ڈائریکٹ اپنی دعاؤں کو شرف قبولیت دلوا سکیں ، فرق نہیں کہ آپ کے کندھوں پر گناہوں کا بوجھ ہے یا با ایمان ہیں،مانگو گے تو وہ عطا کرے گا اور ڈھونڈو گے تو مل جائے گااور اگر اس کی مہربانیوں سے کنکٹ ہوگئے تو بقول آج کے نوجوانوں کے ان لمیٹڈاور وسیع بینڈ گیپ ملے گا۔

ہمارا امام ،مہربان اور روؤف امام ہے ،رحم دل امام ہے اور بقول حضرت علامہ کے’’ان کے نورانی حرم کے در و دیوار سے محبت و رحمت برستی ہے‘‘بھلا کیسے ممکن ہے کہ وہ ہمارے درد بھرے سینے کی فریاد نہ سنے؟کیسے ان ہاتھوں کو خالی لوٹادے جن سے گفتگو کے لئے لفظ کم پڑ جاتے ہیں؟

’’نہیں ،علی بن موسیٰ الرضا(ع) ایسے نہیں ہیں،یقیناً سب کا خیال رکھتے ہیں‘‘ یہ الفاظ ایک عرب زبان بچی کے تھے جو صحن غدیر میں کھڑے ہو کر راز و نیاز کر رہی تھی۔

جب میں نےاس سے پوچھا؛’’اتنی دور سے کس لئے آئی ہو؟! کیا تمہیں یقین ہے کہ وہ تمہاری حاجت روائی کرے گا؟‘‘ تو نم آنکھوں کے ساتھ ماتھے پر شکن لاتے ہوئے وہ جواب دیا۔

صحیح کہہ رہی تھی ،علی بن موسیٰ الرضا(ع) کی بارگاہ میں دیر ہے پر اندھیر نہیں ہے ،جان پہچان ہو یا نہ ہوں یا ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ،میرے اس مدعی پر یہ سب ہاتھ دلیل ہیں جو کبھی اس نورانی بارگاہ سے خالی واپس نہیں لوٹے۔

شامی عورت

امام کی ضریح کو چھوڑنے پر دل راضی نہیں ،کہاں جاتی جبکہ میرا عشق میری امید اور میری زندگی اور موت یہی تھی،ایک زیارت کہاں کافی تھی دوبارہ پھر سے صف میں کھڑی ہوگئی تاکہ ہزاروں بار زیارت کر سکوں،ایسا لگ رہا تھا کہ ساری دنیا علی بن موسیٰ الرضا(ع) کی ضریح مطہر کے گرد گھوم رہی ہے اور ہم وہ بے نور ستارے ہیں جو خورشیدِ خراسان سے جڑ جانا چاہتے تھے۔

شامی خاتون اپنی پوتی کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی،اس کا نام زینب تھا اور امام رضا(ع) کی نذر و منت سے پیدا ہوئی تھی ،ابھی اس کی عمر چار مہینے سے زیادہ نہیں گزرے تھے ،اسی کے پیدا ہونے کی خوشی اور شکر ادا کرنے کے لئے آئی تھی ۔

جب میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا:’’ اهلاً و سهلا، شَرَفتونا‘‘ تو اس نے پلٹ کر شکریہ ادا کیا اور کہا میں اہلسنت سے ہوں،اس نے سوچا کہ اب جب اس نے یہ کہا ہے تو وہ انہیں شاید گرفتار کر لیں گی اور انہیں زیارت کرنے سے روک دیں گی،لیکن وہ تو پہلے سے زیادہ ان کی نظروں میں عزیز ہوگی،شیعہ نہیں تھی لیکن امام رضا(ع) کی عاشق تھی۔

کہہ رہی تھی کہ اس بہو کو اولاد نہیں ہو رہی تھی ہم نے اپنی حاجت امام رضا(ع) سے لی ہے ،کہنے لگی کہ وہ یہاں پر منت ادا کرنے کے لئے جانور قربانی کرنے آئی تھی لیکن امام رضا(ع) نے پہل کی اورامام کی دعوت پر امام کے مہمان خانے میں دوپہر کا کھانا تناول کیا،کھانا بہت مزے کا تھا ،اے کاش حرم حضرت زینب(س) میں بھی ایسے خادم ہوتے ۔

سلام ہو آپ پر

اندرگئے اور نور کی زیارت کی ،امید اور مہربانی کی زیارت کی۔ایسا امام جو کبھی بھی اپنے زائرین سے نظریں نہیں ہٹاتا،میرا دل ابھی زیارت سے بھرا نہیں تھا جتنا زیادہ حرم کا طواف کرو گے اتنی ہی محبت بڑھتی چلی جاتی ہے !میں دروازے کی طرف واپس مڑی اور ارد گرد کے لوگوں کو دیکھنے لگ گئی،مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے جیسے شام،عراق،ہندوستان،پاکستان وغیرہ سے شاہ خراسان کی بادشاہی سے دل لگا بیٹھے تھے ،شاید اس عورت کی طرح جس کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا اور اس وقت وہ اس نورانی بارگاہ کی مہمان تھی۔

رواق دارالشرف کے بائیں جانب مسجد بالاسر کے سبز بورڈ کے نیچے اور ضریح مطہر کے روبرو کھڑی تھی،فریاد کر رہی تھی گلے کی رگیں فریاد سے پھول رہی تھیں جیسے ہی تھوڑی آرام ہوئی بیٹھ گئی،میں قریب گئی اور بات کرنا چاہی لیکن فارسی،انگریزی اور عربی میں کوئی زبان بھی ہمیں ایک دوسرے سے وصل نہ کر سکی،نہ اسے پتہ چل رہا تھا کہ میں کیا کہہ رہی ہوں نہ مجھے سمجھ آرہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ،آخر کار اس کے ہاتھ کو پکڑ کر نم آنکھوں کے ساتھ ضریح کو دیکھنے لگ گئیں:’’السلام علیک یا علی بن موسیٰ الرضا(ع)‘‘یہاں پر اس نورانی بارگاہ میں زیارت کی بین الاقوامی زبان آنسو و گریہ ہے ،وہ آنسوجو شاہ خراسان اپنی ولادت کے دن بھی قبول کر رہا تھا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .