۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
حجۃ الاسلام والمسلمین محمد صرفی

حوزہ/محمد ابن عبدالوھاب اور محمد ابن سعود ان دونوں نے آپس میں توافق کیا کہ این ہم میں سے ایک حکومت کی باگ ڈور سنبھالے اوردوسرا دینی اور مذھبی امورکوسنبھالے اورانھوں کے سرزمین حجاز پر اپنی حکومت تشکیل دینے کے لئے لوگوں کی خون ریزی شروع کردی اور مسلمانوں کو قتل عام شروع کر دیا، انھوں نے حجاز کی حکومت کو قتل و غارت گری کے ذریعہ اپنے اختیار میں لے لیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،دبیرخانہ شہید سردار سلیمانیؒ قم،ایران میں انہدام جنت البقیع کے ایام میں مختلف پروگرام کاسلسلہ جاری رکھا گیا ہے تقریر کے علاوہ ان امور مذکورہ پر سوال و جواب کا سلسلہ بھی بہت منظم اور دقیق انداز میں نمایاں ہوا جسے ہرنے بہت پسند کیا،آجکی اس تقریر میں حضرت آقای صرفی کو دعوت دی گئی،آپ نے عنوان مذکورہ پرروشنی ڈالتے ہوئے بیان کیا کہ انہدام جنت البقیع کے ایام ہیں لہذا اسی مناسبت سے چند باتیں آپکی خدمت میں عرض کرنا ہے.محمد ابن عبدالوھاب اور محمد ابن سعود ان دونوں نے آپس میں توافق کیا کہ این ہم میں سے ایک حکومت کی باگ ڈور سنبھالے اوردوسرا دینی اور مذھبی امورکوسنبھالے اورانھوں کے سرزمین حجاز پر اپنی حکومت تشکیل دینے کے لئے لوگوں کی خون ریزی شروع کردی اور مسلمانوں کو قتل عام شروع کر دیا، انھوں نے حجاز کی حکومت کو قتل و غارت گری کے ذریعہ اپنے اختیار میں لے لیا۔

حجةالاسلام والمسلمین مولاناسیدعلی عباس رضوی جنہوں نے اس تقریرکا خلاصہ پیش کیاتاکہ تمام محبان ایمہؑ اس سے بھرپور فایدہ اٹھاتے رہیں، فرماتے ہیں کہ آقای محمدصرفی نے کہا کہ مدینہ کی سرزمین کو مسلمانوں کے خون سے رنگین کردیا اور وہ مدینہ جو رسول خدا اور اھلبیت (ع) کا مرکز اور انکا گہوارہ تھا اس میں انھوں نے غاصبانہ تصرف کیا، بے گناہ مردوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد کو انھوں نے قتل کیا اور انکی وحشی پنے کا عالم یہ تھا کہ سن (1344) میں ایمہ علیھم السلام کی قبروں کو بھی منھدم کر دیا اور اس پر بھی اکتفا نہیں کیا اور عید غدیر میں جب زوار کربلا سے نجف کی طرف زیارت مولا امیر المؤمنینؑ کے لئے جا رہے تھے اور کربلا میں کم افراد باقی رہ گئے تھے تو انھوں نے موقع کو غنیمت جانا اور کربلای معلی میں حرم امام حسین (ع) اور حرم ابالفضل (ع) کا محاصرہ کیا اور حرم مبارک پر حملے کئے اور ان دوحریمین کو نقصان پہنچایا تقریبا 2000 زائروں کا قتل علام کیا لیکن یہ باتیں چونکہ اس زمانے میں میڈیا اتنا فعال نہیں تھا کم لوگوں کو معلوم ہو سکی، اور اسکے بعد انھوں نے شھر مقدس نجف اشرف کا رخ کیا اور وہاں حرم مطھر کا محاصرہ کیا تو عورتوں نے اپنے مردوں کو غیرت دلائی کہ اگر تم مردوں نے حرم امام کا دفاع نہ کیا تو ہم عورتیں جمع ہوکر حرم مطھر کا دفاع کریں گے۔

ایک ماہ حرم امیرالمؤمنین انکے محاصرہ میں تھا یہاں تک کہ نجف کے جوانوں نے قیام کیا اور حرم مطھر کا دفاع کیا اور حرم مطھر کو انکے پلید ارادوں اور انکے چنگل سے آزاد کرایا.تاریخ نے نقل کیا ہے کہ محمد ابن عبدالوھاب ایمہ بقیع کی قبروں کو خراب کرنے کے بعد آیا قبر مطھر پیامبراکرم [ص] پر اور نعوذباللہ قبر پر لات مارکر کہا: مدینہ میں تمھاری اولادوں کی قبر کو مسمارکرچکا ہوںاور اب جا رہا ہوں عراق میں قبر علی اور تمھارے نواسوں حسنین کی قبروں کو نابود کرنے اور اسکے بعد میں واپس آوں گا اور آکر تمھاری قبر کو بھی نابود کرونگا لیکن جیسے سے قبر پیامبر اکرم[ص] کی مسماری کی خبر شھر مصر علماء جامعہ الاظھر مصر تک پہنچی تو علماء مصر نے پیغام بھیجا کہ اگر تم نے پیامبر کی قبر کو نقصان پہنچایا تو گویا تم نے اھل سنت کے ساتھھ جنگ کا اعلان کر دیا ہے علماء جامعۃ الاظھر کے اس پیغام سے یہ ڈرا اور اس انے اپنے اس ارادہ کو ترک کیا ورنہ یہ پیامبر اکرم[ص] کی قبر کو بھی نابود کرنے کا ارادہ کر چکا تھا.۔۔۔۔۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) کے شیدائی حجةالاسلام والمسلمین مولاناسیدشمع محمدرضوی، حجةالاسلام والمسلمین مولاناریاض حسین جعفری، حجةالاسلام والمسلمین مولاناشیخ کامل حسین،حجةالاسلام والمسلمین مولانا سیدصابر رضارضوی،مولانالیاقت علی، مولاناامام رضا،مولانارضوی،حجةالاسلام،مولانااحمدعباسمولاناامیرحسن وغیرہ نے عنوان مذکورہ پرکافی سعی وتلاش کی اورپروگرام کوکامیاب بنانے میں بھرپورمحنت کی۔

آقای محمدصرفی مدظلہ العالی نےمزیدفرمایا!دو نکتہ قابل اھمیت ہے: ۱؎آل سعود اور مذھب یھودی اھلبیت (ع) سے دشمنی میں ایک جیسے ہیں اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے دونون کا مذھب ایک جیسا ہے، اگر آج بھی انکو موقع مل جائے تو یہ اھلبیت (ع) کے روضوں کو مسمار کرنے سے باز نہیں آئیں گے جیسا کہ داعشیوں نے عمل کرکے لوگوں پر ظاھر کردیا ہے. مقام معظم رھبری فرماتے ہیں: کہ اگر مدافعین حرم کی یہ آھنی دیوار ان داعشیوں کے سامنے نہ ہوتی تو یہ تمام ایمہ(ع)کےحرموں کا نام و نشان مٹا دیتے۔

امام خمینیؒ فرماتے ہیں: اگرصدام کےظلم کونظر اندازبھی کردیںکہ جو اس نے ہمارے متعلق کیا ہے، امریکا اور اسرائیل کہ جس نے مسلمانوں کے قبلہ اول پر ناجایز قبضہ کر رکھا ہے اور مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہا اگر اسکے ظلم کو بھی فراموش کردوں لیکن آل سعود کے ظلم کو نہیں بھلا سکتا. امام یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ صدام کے ظلم کو فراموش کردوں، امریکہ اور اسرائیل کے ظلم کو بھول جاؤں کہ ہر گز نہیں بھول سکتا، لیکن اگر اسکو بھول بھی گیا مگر آل سعود کے ظلم کو کبھی نہیں بھول سکتا۔

اے وھابیوں تم قبور آئیمہ اطھار علیھم السلام اور انکی زیارت کو شرک کہتے ہو، آئیمہ بقیع کی زیارت کو شرک کہتے ہو، تمھارے بزرگوں نے قبر امامین عسکرییں کو بم سے اڑا دیا، تم امام حسین (ع) کی قبر کی بے حرمتی کی، تم نے کاظمین کی بے حرمتی کی.

اول تو یہ کہ علماء شیعہ و اھلسنت نے تمھاری ان روایتوں کو ضعیف بتایا ہے کہ جس سے تم حرمت زیارت پر استدلال کرتے ہو، دوسری بات یہ کہ اگر علماء وھابی قبروں کی زیارت کو شرک مانتے ہیں تو تمام اھلسنت مشرک ہیں کیوں کہ تمام اھل سنت قبر کی زیارت اور ضریح کو مانتے ہیں اور اسکی زیارت کرتے اور بوسہ دیتے ہیں: مثلا ابوحنیفہ کی قبر بغداد میں کہ جو ضریح بھی ہے اور زوات اسکی زیارت کو جاتے ہیں، عبدالقادر گیلانی کی قبر بغداد میں لوگ اسکی زیارت کو جاتے ہیں اور اسے بوسہ دیتے ہیں، ابو حنیفہ کی قبر بغداد میں کہ جس پر گنبد و ضریح بھی بنی ہے اور اھلسنت کی زیارت کا مرکز ہے، قبر احمد ابن حنبل بغداد میں اھلسنت کی زیارت کا مرکز بنا ہوا ہے، ابو حریرہ کہ جسکی قبر اھلسنت کی زیارت کا مرکز بنا ہوا ہے، بخاری کہ جسکی قبر سونے سے مزین کی گئی ہے، کاظمین پر حملہ کیا جاتا ہے جو کہ بغداد میں ہے مگر اسی بغداد میں ابو حنیفہ کی قبر ہے اس پر کوئی حملہ کیوں نہیں کرتا، معاویہ لعنت اللہ علیہ اور اسکا بیٹا یزید ملعون سوریہ میں اسکی قبر موجود ہے اسے کوئی خراب کیوں نہیں کرتا، اسکی زیارت پر حرمت کے فتوے کیوں نہیں لگائے جاتے۔

کیا قبر ضریح اور بارگاہ کا بنانا صرف ایمہ معصومین علیھم السلام کےلئےشرک ہے یا یہ سب کے لئے ہے، اگر یہ سب کے لئے ہے تو جن افراد اھلسنت کا ہم نے نام لیا ہے انکی زیارت پر حرمت کے فتوے کیوں نہیں لگاتے ہو، انکی زیارت سے جوانوں کو کیوں نہیں روکتے ہو، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمھارا مقصد قبر، گنبد، ضریح یا بارگاہ نہیں ہے بلکہ تمھاری دشمنی اھلبیت رسول[ص] سے ہے تم جوانون کو انکی محبت سے دور کرنا چاہتے ہو۔

لیکن دنیا یہ جان لے کہ اھلبیتؑ کے چاہنے والے کسی بھی زمانے میں کسی بھی حاکم کے ڈر سے اھلبیت کی زیارت کو ترک نہیں کر سکتے، لوگوں نے اس زیارت کے لئے اپنے ہاتھھ کٹوائے ہیں لیکن زیارت کو ترک نہیں کہا ہے، لوگوں اس زیارت کے لئے اپنی گردنیں کٹوائی ہیں لیکن اس زیارت کو ترک نہیں کیا ہے، حتی کہ لوگوں نے اس زیارت کے لئے اپنی اولاد اور بچوں کو بھی قربان کیا ہے مگر اس زیارت سے دست بردار نہیں ہوئے ہیں اور نہ کبھی دست بردار ہوں گے.خداوند عالم ہم سبکو با معرفت زیارت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سبکو زائر امام حسینؑ اور زائر اھلبیت علیھم السلام میں قرار دے انشاء اللہ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .