حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین کفایت حسین قمی سحر عالمی نیٹورک کے اینکر نے حضرت ابوطالب حامی پیغمبر اسلام(ص) بین الاقومی کانفرنس کی ۲۷ویں علمی نشست "شعب ابی طالب میں کردار ابی طالب" میں کہا: اسلام کا تناور درخت ابوطالب کی آبیاری کا نتیجہ ہے ۔
حجت الاسلام والمسلمین کفایت حسین قمی نے سورہ انفال کی ۷۴ ویں ایت کریمہ؛ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ؛ اور جن لوگوں نے ایمان اختیار کیا اور ہجرت کی اور راسِ خدا میں جہاد کیا اور پناہ دی اور نصرت کی وہی درحقیقت واقعی مومن ہیں اور ان ہی کے لئے مغفرت اور باعزّت رزق ہے، کی ذیل میں یہ کہتے ہوئے کہ اس ایت کریمہ کے تحت اگر کوئی عام مومن کو پناہ دے تو خداوند متعال کا قران کا اس ایت میں یہ ارشاد ہے کہ اس کے لئے مغفرت و باعزت رزق ہے فرمایا: اس حوالے سے اگر کوئی کسی نبی کو اور وہ بھی جو الوالعزم نبی اور نبیوں سردار ہو تو اس کا اجر کیا ہوگا، اس مقام پر امام علی علیہ السلام کا ارشاد ہے اگر کوئی کائنات کے آخری رسول کی امداد کرے تو وہ جس کی مغفرت کرانا چاہے گا خداوند متعال اس کی درخواست کو رد نہیں کرے گا، یہ اس فرد کا مقام ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ جناب ابوطالب کی جانب سے مسلمانوں، رسول اسلام اور دین اسلام کی حمایت، ایک تاریخی مسلمات میں سے ہے، مخالفین بھی اس کا انکار نہ کرسکے، اگر چہ انہوں نے اس کے اسباب و علل میں گفتگو کی ہے کہا: شعب ابوطالب میں جناب ابوطالب کی حمایت کی مدت اگرچہ تین سال کا عرصہ ہے مگر یہ مدت رسول اسلام کی بیالیس سال کی عمر کا حصہ وہ ہے جس میں جناب ابوطالب نے مسلسل اپ کی حمایت کی ہے، شعب ابی طالب کے بعد تو بہت ہی مختصر سی مدت میں جناب ابوطالب کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ بھی ان مشکلات و زحمات و مصبیتوں کی وجہ سے جسے آپ نے کفار و مشرکین مکہ کی ناکہ بندی کے دوران برداشت کیا تھا، مگر اس سے پہلے یعنی جناب عبد المطلب کے انتقال کے بعد کہ اس وقت رسول اسلام کی عمر فقط سات یا اٹھ سال کی ہے اس وقت سے لیکر بیالیس سال تک جناب ابوطالب کی جو حمایت و خدمات ہیں وہ گراں قدر ہیں۔
سرزمین قم پر موجود اس ہندوستانی عالم دین نے یہ کہتے ہوئے کہ کتاب البدایہ و النھایہ نے تحریر کیا ہے کہ جس وقت کفار مکہ نے مرسل اعظم کے قتل کی دھمکی دی کہ ہم جہاں بھی انہیں پائیں گے قتل کردیں گے تو جناب ابوطالب شعب میں لیکر چلے گئے کہ جو ایک گھاٹی یا وادی کے مانند ہے کہا: اپ نے اس کے دہانے پر حفاظت کے لئے افراد کھڑا کئے اور دن کی روشنی میں رسول اسلام کو جس جگہ سلاتے، شب کی تاریکی میں اس جگہ اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو سلاتے دیتے اور اپنے بچوں کی جگہ رسول اسلام کو سلاتے تاکہ اگر کسی نے روشنی میں یہ دیکھا ہو کہ رسول اسلام کہاں سو رہے ہیں اور شب میں رسول اسلام پر اگر حملہ کرنا چاہے تو رسول اسلام کی جان بچ جائے اور فرزندان ابوطالب قتل ہوجائیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شعب ابوطالب کے پورے واقعہ کی بنیاد حضور کی جان کی حفاظت ہے۔
انہوں نے اھل سنت عالم دین ابن ابی الحدید کی تحریر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: وہ لکھتے ہیں کہ اگر ابوطالب اور فرزندان ابوطالب نہ ہوتے تو اسلام اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوپاتا، مکہ میں جناب ابوطالب کی خدمات اور یثرب میں حضرت علی ابن طالب کی خدمات، ان باپ اور بیٹے کی وجہ سے اسلام اپنے قدموں پر کھڑا ہوا، یعنی اگر ابوطالب اور نسل ابوطالب نہ ہوتی اسلام کا قلعہ گر گیا ہوتا اور اج اسلام کا نام نہ ہوتا، سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو جناب ابوطالب کا احسان مند ہونا چاہئے تھا، البتہ ہم یہ نہیں کہتے کہ مخالفین جناب ابوطالب کی حمایت کے منکر ہیں بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کا سبب کچھ اور ہے۔
مولانا قمی نے کتاب منھاج السنتہ جلد نمبر ۷ ص نمبر ۳۰۴ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اس کتاب میں تحریر ہے کہ رسول اسلام اور مسلمانوں سے ابوطالب کی حمایت کوئی بڑی قدم نہیں کیوں کہ یہ حمایت اسلام یا رسول اسلام کی حمایت کے عنوان سے تھی بلکہ یہ حمایت ایک قومی تعصب اور خاندانی حمیت کی بنیاد پر تھی کہ جیسے ہمارے معاشرہ میں بھی ہوتا ہے، علمائے تشییع نے اس مقام پر مختلف جوابات دیئے ہیں کہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے چچا تو کئی تھے ابولھب بھی تو ان چچا تھے، مگر ان کے یہاں خاندانی حمیت کیوں نہیں تھی؟ حتی جناب عباس کی شخصیت بھی اختلافی ہے اور ان کردار بھی صاف نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اس مقام پر میری گفتگو یہ ہے کہ تعصب کی بنیاد خود محوری ہے، انسان وہاں تعصب کرتا ہے جہاں خود کو اور اپنے اپ کو معیار قرار دیتا ہے یعنی خود محوری کی بنیاد پر انسان پہلے خود کو اور پھراس سے جو جتنا زیادہ نزدیک ہوگا وہ محور ہوگا، مگر اگر اپ جب جناب ابوطالب کے کردار کو ملاحظہ کریں گے تو وہ وہاں قومی تعصب موجود نہیں ہے کیوں کہ اگر ان کی نگاہ میں خود محوری ہوتی تو وہ ابوطالب جسے شیخ البطحا کہا جاتا تھا، جو مکہ کے سربراہ تھے ، جو مکہ کے بڑے بڑے فیصلے لیا کرتے تھے وہ ھرگز خود کو رسول پر خود کو قربان نہیں کرتے، اور آگے یہ کہ خود محوری کا نظریہ رکھنے والا انسان ھرگز اپنے بیٹوں کو اپنے بھتیجے پر قربان نہیں کرسکتا بلکہ برعکس، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جناب ابوطالب اپنے بھتیجے کو اپنے بیٹے پر قربان کرتے اور یہ چیز اس بات کو بیان کرتی ہے کہ جناب ابوطالب کے یہاں قومی تعصب موجود نہیں ہے، ان کے یہاں خود محوری موجود نہیں ہے تو پھر خود محوری کے مقابل جو چیز موجود ہے وہ خدا محوری ہے اور خدا عین ایمان اور روح اسلام ہے ، خود محوری میں انسان ہر چیز کو اپنے لئے قرار دیتا ہے حتی خدا کو بھی مگر خدا محوری میں انسان تمام چیزوں کو خدا کے لئے قرار دیتا ہے ۔
حوزہ علمیہ قم کے اس برجستہ عالم دین نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اگر جناب ابوطالب کی حمایت و فداکاری دیکھنا چاہتے ہیں خاصکر شعب ابوطالب میں کہ جو اج کی نشست کا موضوع بھی ہے کہ جس نتیجہ میں اسلام بقا تو کیا بلکہ وجود میں ایا ہے کیوں کہ اس وقت اسلام ایک نئے پودے کے مانند تھا کہا: اگر جناب ابوطالب کی حمایت نہ ہوتی تو اسلام کا وجود وہیں پر ختم ہوگیا ہوتا اور وہ جناب ابوطالب کی استقامت ہے کہ جو اپ نے شعب ابوطالب میں انجام دی، جیسا کہ قران کریم نے سورہ ھود ایت کریمہ میں رسول اسلام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا ۚ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ؛ استقامت سے کام لیں اور وہ بھی جنہوں نے آپ کے ساتھ توبہ کرلی ہے اور کوئی کسی طرح کی زیادتی نہ کرے کہ خدا سب کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے" مطلب اے پیغمبر اپ بھی استقامت سے کام لیں اور جو اپ کے ساتھ ہیں وہ بھی استقامت سے کام لیں ۔
انہوں نے مزید کہا: استقامت کا دو پہلو ہے ایک تو اپنی استقامت اور دوسرے ساتھ والوں کی استقامت، اس ایت کریمہ کے بعد حضور(ص) نے فرمایا کہ "شیبتنی سورۃ الھود" سورہ ھود نے مجھے بوڑھا کردیا، یعنی استقامت کا حکم اتنا سخت حکم تھا، کیوں کہ انسان زیادہ سے زیادہ خود کی استقامت کی ذمہ داری لے سکتا ہے مگر جو ساتھ والے ہیں ان کی گارنٹی لینا بہت دشوار اور سخت کام ہے، مگر کامیابی کے لئے دونوں کی استقامت ضروری ہے، اپنی بھی استقامت اور ساتھ والوں کی استقامت بھی، جیسا کہ مفسر عصر ایت اللہ جوادی املی فرماتے ہیں کہ اگر عوام اور حاکم دونوں کی استقامت نہ ہو اور اس ایت کے دونوں حصہ پر دونوں عمل نہ کیا جائے تو ھرگز کامیابی نہیں ملے گی، مقام معظم رھبری تو اپنی جگہ وہ معصوم نہیں ہیں اگر امام علی علیہ السلام بھی استقامت کریں اور ان کی عوام ان کے ساتھ استقامت سے کام نہ لے تو کامیابی نصیب نہیں ہوگی۔
مولانا کفایت حسین قمی اپنے بیان کے اخری حصہ میں مجمع جھانی اھلبیت کے مسئولین اور بین الاقوامی کانفرنس حضرت ابوطالب کے اراکین کا اس اہم نشست کے انعقاد پر شکریہ ادا کیا۔