۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
حجت الاسلام جواد شبستری

حوزہ / حجۃ الاسلام والمسلمین شبستری نے کہا: حضرت امام سجاد علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں "خداوند عالم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ آپ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ ایک مسلمان عورت کافر شخص کے نکاح میں رہے"۔ حضرت فاطمہ بنت اسد کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے میں سابق تھی اور وہ اپنی زندگی کے آخر تک حضرت ابو طالب علیہ السلام کے نکاح میں رہیں۔ یہ ان کا حضرت ابو طالب کے نکاح میں باقی رہنا حضرت ابو طالب علیہ السلام کے ایمان کی بہترین دلیل ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے خبر نگار سے گفتگو کرتے ہوئے ایران کے شہر ارومیہ میں حجۃ الاسلام والمسلمین جواد مجتہد شبستری نے حضرت ابو طالب علیہ السلام کے یوم وفات کی مناسبت سے تعزیت و تسلیت عرض کی اور کہا: حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کفالت کی ذمہ داری حضرت ابو طالب علیہ السلام نے قبول کی تھی۔ وہ پوری عمر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حامی و ناصر رہے۔

پیغمبر اسلام کے بچپنے میں حضرت ابو طالب اور ان کی بیوی حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا ان سے بہت پیار و محبت کرتے اور انہیں اپنے بچوں پر ترجیح دیتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد حضرت ابوطالب علیہ السلام ان پر راسخ ایمان رکھتے تھے البتہ بعض اوقات بعض مصلحتوں کی وجہ سے اس ایمان کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ وہ جب تک زندہ تھے کفار اور مشرکین کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک آئیں اور انہیں آزار و اذیت پہنچا سکیں اور یہ جو نقل ہوا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیتیں پہنچائی گئیں تو وہ حضرت ابو طالب علیہ السلام کی وفات کے بعد کی تھیں اور ان کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عرصۂ حیات اس قدر تنگ کردیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی کے ذریعہ خدا کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔

صوبہ مغربی آذر بائیجان کے ایکسپرٹس اسمبلی (مجلس خبرگان) کے رکن نے کہا: حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہما کی وفات کی وجہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے سال د ہم کو عام الحزن قرار دیا اور یہ سال پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے غم و حزن کا سال تھا۔

انہوں نے کہا: شیعہ علماء کی نظر میں حضرت ابو طالب علیہ السلام کا ایمان ناقابل انکار حقیقت ہے اور اہل سنت کے بعض علماء نے بھی اپنی کتب میں ایمان ابو طالب علیہ السلام کو مسلمہ امر قرار دیا ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین شبستری نے کہا: امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک روایت میں حضرت ابو طالب علیہ السلام کے ایمان کے متعلق فرمایا ہے "لَوْ وُضِعَ اِیمَانُ اَبُوطَالِبٍ علیه السلام فِی کَفَّةٍ وَایِمَانُ هَذَا الْخَلْقِ فِی الْکَفَّةِ الاْخْرَی، لَرَجَحَ اِیمَانُهُ؛" اگر حضرت ابو طالب علیہ السلام کے ایمان کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور باقی تمام لوگوں کے ایمان کو ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو حضرت ابو طالب کا ایمان ان تمام افراد کے ایمان سے سنگین ہوگا"۔ اس روایت سے حضرت ابو طالب علیہ السلام کے بلند مقام اور محکم ایمان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا: حضرت ابوطالب علیہ السلام مقامِ شفاعت کے بھی مالک ہیں، وہ تاریخ کی عظیم شخصیت ہیں، انہوں نے سالہاسال پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کفالت اور حمایت کی۔ مسلمانوں کی گردنوں پر ان کا بہت بڑا حق ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا باپ ہونے کی وجہ سے جس طرح ان کے فضائل بیان ہونے چاہیے تھے وہ نہیں ہوئے بلکہ ان پر تہمتوں کے وار کئے گئے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .