۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
شاه ابادی

حوزہ/حجۃ الاسلام شاه‌آبادی نے کہا کہ جناب حضرت ابوطالب (ع) نے مختلف سیاسی و سماجی دباؤ اور اقتصادی مشکلات کے باوجود ہمیشہ پیغمبرِ اِسلام (ص) کو اپنی اولادوں پر ترجیح دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تہران کی جامع مسجد غدیر میں گزشتہ رات خطاب کے دوران، استاد حوزہ علمیہ تہران حجۃ الاسلام محمد حسن شاه‌آبادی نے حضرت ابو طالب علیہ کے مقام و منزلت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضرت ابوطالب (ع) و حضرت خدیجه (س) ایک ہی سال میں دنیا سے رخصت ہو گئے، دو ایسے برجستہ اور نامور انسان کہ جو پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے لئے دو مضبوط ستون، پناہ گاہ اور تکیہ گاہ کی مانند تھے۔ اُس سال آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا غم اس قدر شدید ہو گیا کہ اسے عام الحزن، یعنی غم و اندوہ کا سال قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ مسلمانوں نے جناب ابوطالب علیہ السلام کی عظیم شخصیت کو نہ پہچانا اور آپ پر شرک کا الزام لگایا، جبکہ جناب ابوطالب علیہ السلام مشکل ترین وقت میں پیغمبرِ اِسلام (ص) کے ساتھ تھے اور قریش کے دباؤ کے باوجود ایک لمحے کے لئے بھی رسول خدا (ص) کی حمایت سے دستبردار نہ ہوئے۔

حجۃ الاسلام شاه‌آبادی نے شعبِ ابی طالب علیہ السلام کے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تین سالہ شعبِ ابی طالب کے دوران، جناب ابوطالب علیہ السلام نے رات کو کئی بار پیغمبر (ص) کی جگہ کو ایک خیمے سے دوسرے خیمے میں تبدیل کیا اور آنحضرت کی جگہ علی (ع) کو بٹھایا، تاکہ رسول خدا کی جان محفوظ رہے۔ جناب حضرت ابوطالب (ع) نے مختلف سیاسی و سماجی دباؤ اور اقتصادی مشکلات کے باوجود ہمیشہ پیغمبرِ اِسلام (ص) کو اپنی اولادوں پر ترجیح دیا۔

استاد حوزہ علمیہ تہران نے کہا کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے دشمنوں اور مخالفوں نے حضرت ابو طالب علیہ السلام سے بہت سے وعدے کئے اور ان وعدوں میں سے ایک یہ تھا کہ اگر آپ محمد کی حمایت سے دستبردار ہو جاؤ تو ہم آپ کو قریش کے سردار بنائیں گے، یہ ایک عظیم وعدہ تھا کیونکہ قبیلۂ قریش ایک بہت بڑا قبیلہ تھا، لیکن ابو طالب (ع) نے حق کی راہ میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کیا اور پیغمبرِ اِسلام (ص) کی حمایت سے دستبردار نہ ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ابن ابی الحدید معتزلی ابو طالب (ع) کے مقام و منزلت کو یوں بیان کرتے ہیں: جب پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے اسلام کا تعارف اور دینِ اسلام کی دعوت دی تو ابو طالب علیہ السلام نے اپنے بچوں اور فاطمہ بنت الاسد کو اسلام کی دعوت دی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جناب ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بہت قریب اور آپ کے اسرار سے واقف تھے۔

حجۃ الاسلام شاه‌آبادی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ابوطالب (ع) کا ایمانِ کامل اور پختہ یقین ایک قطعی اور ناقابلِ تردید امر ہے، کہا کہ آزادی پسند اور حقیقت کی جستجو کرنے والے لوگ جناب ابوطالب علیہ السلام کے ایمان سے انکار نہیں کر سکتے۔ سنی عالم دین ابن ابی الحدید ابو طالب علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں: اگر ابوطالب نہ ہوتے تو اسلام بھی نہ ہوتا، اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو طالب علیہ السلام نے اپنے ایمان کو عام لوگوں سے اس لئے چھپا کر رکھا تھا تاکہ قریش میں اپنا وقار اور طاقت برقرار رکھ سکیں اور ایک مضبوط قلعے کی مانند پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی حمایت جاری رکھ سکیں اور اگر ابو طالب علیہ السلام اپنا ایمان ظاہر کر دیتے تو آپ کی حرمت کو پامال کرتے اور عرب کے اس قبائلی نظام میں آپ کے مقام و منزلت اور شخصیت کو توہین اور تحقیر سے کمزور کرتے اور آپ پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا مزید دفاع اور حمایت نہیں کر سکتے تھے۔

استاد حوزہ علمیہ تہران نے آخر میں کہا کہ حضرت ابو طالب (ع) کے فضائل کے لئے یہی کافی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: شبِ معراج خداوند متعال نے مجھے چار نور دکھائے جن میں سے ایک نور ابو طالب علیہ السلام کا تھا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .