تحریر: محمد صغیر نصر
حوزہ نیوز ایجنسی। یوکرائن اپنی جغرافیائی حدود کے اعتبار سے یورپ کے مشرق جبکہ روس کے مغرب میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں روس نواز ریاست بلاروس اور جنوب میں بحیرہ مردار پر روسی تسلط کی صورت میں روسی کمان قائم ہے اگر ہم جغرافیائی اعتبار سے تجزیہ کریں تو یوکرائن کے 3 اطراف میں روس کا مضبوط حصار قائم ہے اور تاریخی اعتبار سے 1991 تک یوکرائن، سویت یونین میں شامل تھا جو بعد میں الگ ہو کر ایک مستقل ملک بن گیا۔ اب ہم مختصراً موجودہ جنگ کے اسباب کی روشنی میں مسلم اُمّہ کے مؤقف کو قلمبند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1- ولادیمیر زیلنسکی موجودہ یوکرائنی صدر ایک سیاست دان نہیں بلکہ بنیادی طور پر ایک اداکار اور کامیڈین تھے جو 2015 میں یوکرائن کے مقبول ترین ڈرامہ سیریل " خادم ملت" میں صدر کا کردار ادا کر چکے تھے اور اس ڈرامے میں کرپشن کے خلاف جنگ کے نماد کے طور پر سامنے آئے تھے جنہوں نے 2018 میں باقاعدہ سیاست دانی کا لباس پہنا اور پھر 2019 میں یوکرائن کے صدر منتخب ہو گئے۔ یورپ و امریکہ نے اس اناڑی کو اپنے لیے ترنوالہ بنا کر روس کے خلاف استعمال کرنا چاہا جو جنگ کا ایک بنیادی سبب بنا۔
2- امریکہ اور نیٹو فورسز یوکرائن سمیت وسطی ایشیا کی ریاستوں کو نیٹو اتحاد میں شمولیت کا جھانسا دے کر انھیں چین اور روس کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے جو درحقیقت روس کی ریڈلائنز ہیں کیونکہ یہ ساری ریاستیں 1991 میں روس ہی سے علیحدہ ہوئیں تھی لہذا آج اگر روس یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کو برداشت کر لیتا ہے تو آگے لائن میں کھڑے دیگر ممالک بھی روس کی ریڈ لائنز کو پاؤں تلے روند ڈالیں گے جو تمام ایشیائی ممالک کے لیے مستقل خطر ہے لہذا روس نے سانپ کو بِل سے نکلنے سے پہلے ہی اس کا سر کچلنے میں عافیت سمجھی ہے۔
3- روس یوکرائن کو اپنا ٹوٹا ہوا بازو سمجھتا ہے کیونکہ 1991 تک یوکرائن روس کا حصہ تھا اور مشرقی یوکرائنی علاقوں کے لوگوں کا طرز زندگی اور زبان بھی روسی ہی ہے لہذا اس سے پہلے کہ اس کا اپنا بازو ہی امریکی ایما پر اسکے خلاف استعمال ہو روس نے پہل کر کے اسے اپنے ساتھ ملانے کے لئے دفاعی جنگ شروع کی ہے۔
4- مشرقی یوکرائن کے لوگ عرصہ دراز سے روس میں شامل ہونے کی تحریک چلا رہے تھے اور یوکرائن اسے مسلسل کچلتا آ رہا تھا اور اب انھوں نے روس سے مدد کی درخواست کی تھی تو روس نے بھی نیٹو اتحاد کے مقابلے میں انکے دفاع کے لئے جنگ کا آغاز کیا ہے۔
مندرجہ بالا اسباب کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض اسلامی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نیٹو اتحاد کے نفوذ اور امریکی شرارتوں کے مقابلے میں ہم روس کے لیے مشروط نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ روس، یوکرائن میں فقط نیٹو نفوذ کے خاتمے نیز عام عوام کا خون بہائے بغیر فوجی آپریشن کا حق رکھتا ہے۔ اس مؤقف کی حمایت انصاراللہ یمن اور شام سمیت بعض انٹرنیشنل ممالک نے علی الاعلان کی ہے جبکہ اس کے برعکس متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور ترکی نے اپنے اھداف کے پیش نظر امریکی اتحاد کے مفاد میں روسی حملے کی یکطرفہ مذمت بھی کی ہے۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے نیٹو اتحاد کی توسیع اور امریکی عزائم کے خلاف اپنے تحفظات کا تکراراً اظہار کیا ہے لیکن یوکرائن پر روسی حملے کے حوالے سے باہمی مذاکرات پر تاکید اور معنی خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے جسے بعض تبصرہ کاروں نے رضایت سے بھی تعبیر کیا ہے لیکن ایران نے تاحال کسی فریق کے حق میں کوئی واضح اظہار نظر نہیں کیا۔