۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
مولانا محمد رضا ( ایلیاؔ )

حوزہ/ تمام اعیاد میں جو مقام عید غدیر کو نصیب ہوا ہے وہ کسی دوسری عید کو نصیب نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ عید غدیر کو عید اکبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

تحریر: مولانا محمد رضا ( ایلیاؔ )

حوزہ نیوز ایجنسی دین اسلام میں بعض ایسے دن ہیں جنھیں ایام اللہ کہا جاتا ہے اور ان دنوں کی عظمت ،شان و شوکت مسلمانوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ اور نمایاں رہتی ہیں۔ ان دنوں میں عید فطر ، عید قربان اور عید غدیر کا خاص مقام ہے لیکن تمام اعیاد میں جو مقام عید غدیر کو نصیب ہوا ہے وہ کسی دوسری عید کو نصیب نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ عید غدیر کو عید اکبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ غدیر ،اللہ تعالی کی سب سے بڑی عید ہے۔ غدیر کے دن حضرت محمد مصطفی صلعم نے اللہ تعالی کے حکم سے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ اور جانشین مقرر کیا۔ لہٰذا یہ دن اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا اور اہم دن ہے۔کتاب عوالم کے صفحہ ۲۲۴پر یہ روایت منقول ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت قبول کر نے کی مثال حضرت آدم کے سامنے فرشتوں کے سجدہ کرنے کے مانند ہے اور جنہوں نے روز غدیر آپ کی ولایت سے انکا ر کیا ان کی مثال شیطان کی ہے جس نے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکا ر کیا۔
کتاب اقبال الاعمال کے صفحہ ۴۶۶پر یہ روایت منقول ہے کہ امام جعفر صا دق علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا یوم غدیر خم میری امت کی تمام عیدوں میں سب سے بہتر ہے ۔ یہ وہ دین ہے جب کہ اللہ نے مجھے اپنے بھائی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو رہنمائے امت مقرر کر نے کا حکم دیا تاکہ لو گ میرے بعد ان سے ہدایت حا صل کر سکیں اور اسی روز پر وردگار عالم نے دین کی تکمیل کی، امت کو اتمام نعمت سے سر فراز کیا اور دین اسلام کو خو شنو دی کی سند عطا فر مائی۔ اگر مادی نعمت کانزول عید کاسبب ہے تو یقینا ولایت جیسی عظیم ترین نعمت کا نزول اور اعلان،اس دن کو عید اکبربنایا سکتا ہے۔اسی وجہ سے بعض روایات میں اسے عید شیعہ یا عید اہلبیت علیہم السلام بھی کہا گیا ہے۔امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :’’غدیر عید کا دن ہے،خدا نے اسے ہمارے لئے اور ہمارے شیعہ کیلئے عید کا دن قرار دیا ہے۔
غدیر خم مکہ و مدینہ کے درمیان واقع ایک مقام ہے جہاں سے حجاج کرام کا گزر ہوتا ہے۔ اس مقام پر چونکہ ایک چھوٹا سا تالاب تھا جس میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا تھا اس لئے اسے غدیر خم کہا جانے لگا۔ خم کے معنی تالاب کے ہیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر تمام حاجیوں کو اسی مقام پر جمع کیا اور حضرت علی علیہ السلام کو اللہ کے حکم کے مطابق اپناوصی و جانشین کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ اس موقع پر پیغمبر اسلام نے جو خطبہ دیا اس کا ایک جملہ ’’میں جس کا مولاہوںعلیؑ بھی اس کے مولا ہیں ‘‘ شیعہ سنی دونوں کی نظر میں معتبر ہے۔اپنی زندگی کے آخری سال ۱۰ویں ہجری ، ذیقعدہ مہینے کا آغاز ہوتے ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام مسلمان خطوں اور عرب کے تمام مسلمان قبائل کو یہ اطلاع دی کہ اس مہینے میں وہ مکہ مکرمہ تشریف لے جائیں گے اور فریضہ حج ادا کریں گے۔ نتیجے میں مسلمانوں کا ایک عظیم اجتماع عمل میں آیا۔ اس حج کو حجۃ الوداع کے نام سے مو سوم کیا گیا۔
غدیر اتحاد کا مر کز بھی ہے او ر عوام النا س کے لیے مشعل راہ بھی، جس پر چل ہی مسلمانوں کے لیے فلاح و بہود ممکن ہے ۔غدیر کا واقعہ اتحاد کا باعث بھی ہے۔ شاید یہ بات کچھ افراد کو عجیب لگے لیکن حقیقت یہی ہے۔ خود غدیر کے معاملے میں، شیعوں کے عقیدتی پہلو سے ہٹ کر کہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کے اعلان سے عبارت ہے اور جو غدیر کی حدیث سے بھی ثابت ہے، ولایت و سرپرستی کا موضوع بھی پیش کیا گیا ہے اور اس میں شیعہ و سنی کی کوئی بات نہیں ہے۔اگر آج پوری دنیا کے مسلمان اور اسلامی ملکوں کی قومیں، اسلامی ولایت کا نعرہ لگانے لگیں تو امت اسلام کے بہت سے مسائل اور اسلامی ملکوں کی بہت سی مشکلات ختم ہو جائیں گی۔
تاریخ اسلام میں دلچسپی رکھنے والوں کو غدیر کے واقعے کے بارے میں یہ جان لینا چاہئے کہ غدیر کا واقعہ، ایک مسلم الثبوت واقعہ ہے اور اس میں کسی بھی طرح کا شک و شبہ نہیں ہے۔ اس واقعے کو صرف شیعوں نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ سنی محدثین نے بھی، چاہے وہ ماضی بعید سے تعلق رکھتے ہوں یا وسطی دور سے یا پھر اس کے بعد کے ادوار سے، ان سب نے اس واقعے کو نقل کیا ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آخری حج کے موقع پر غدیر خم میں رونما ہوا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج کے فرائض انجام دینے والے مسلمانوں کے اس عظیم کارواں کے کچھ لوگ آگے بڑھ چکے تھے، آنحضرت نے کچھ لوگوں کو انہیں بلانے کے لئے بھیجا اور پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیا۔ وہاں ایک عظیم اجتماع عمل میں آ گیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نوے ہزار کچھ دیگر کا قول ہے کہ ایک لاکھ اور بعض مورخین نے وہاں جمع ہوئے حاجیوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بتائی لکھی ہے۔ اس تپتے صحراء میں عرب کے باشندے بھی جن میں بہت سے صحراء کی گرمی کے عادی تھی، تمازت آفتاب کے باعث ریت پر کھڑے نہیں ہو پا رہے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے پیروں کے نیچے اپنی عبائیں بچھا لیں تاکہ زمین پر پیر رکھنا ممکن ہو سکے۔ اس بات کا ذکر اہل سنت کی کتابوں میں بھی کیا گیا ہے۔ ایسے عالم میں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی جگہ سے اٹھے، حضرت علی علیہ السلام کو اٹھایا اور لوگوں کے سامنے ہاتھوں پر اٹھاکر کہا:میں جس کا مولاہوں علیؑ بھی اس کے مولاہیں ۔ البتہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی آنحضرت نے کچھ باتیں ارشاد فرمائیں تاہم سب سے اہم حصہ یہی ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس حصے میں، ولایت کے مسئلے کو، یعنی اسلامی حکومت کے مسئلے کو باضابطہ اور واضح طور پر پیش کر رہے ہیں اورحضرت علی علیہ السلام کو اس کی اہلیت رکھنے والے شخص کی شکل میں متعارف کرا رہے ہیں۔ اسے برادران اہل سنت نے بھی اپنی معتبر کتابوں میں، ایک دو کتابوں میں نہیں بلکہ دسیوں کتابوں میں، نقل کیا ہے۔ مرحوم علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر میں ان سب کا ذکر کیا ہے اور ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں نے اس سلسلے میں بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کو پیش کرنے اور حکومت کے لئے ان کے تعین سے حکومت کے معیار اور اقدار واضح ہو گئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے، غدیر کے واقعے میں، ایسی شخصیت کو مسلمانوں اور تاریخ کے سامنے پیش کیا جس میں اسلامی اقدار اپنی مکمل صورت میں جلوہ افروز تھیں۔ یعنی ایمان کامل کی حامل ایک ایسی ہستی جس میں تقوی و پرہیزگاری، دین کی راہ میں جذبہ قربانی، دنیوی چمک دمک سے بے رغبتی اپنی کامل ترین شکل میں موجود تھی اور جسے تمام اسلامی میدانوں، خطروں کے وقت، علم و دانش، قضاوت اور اس جیسے دیگر شعبوں میں آزمایا جا چکا تھا۔ یعنی حضرت علی علیہ السلام کو ، اسلامی حاکم ، امام اور ولی کی حیثیت سے پیش کئے جانے سے پوری تاریخ کے تمام مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ اسلامی حاکم کو، اس سمت میں قدم بڑھانے والا اور اس مکتب سے تعلق رکھنے والا اور اس نمونہ عمل سے شباہت رکھنے والا ہونا چاہئے۔ اس طرح اسلامی تاریخ میں جو لوگ ان اقدار سے محروم رہے، جن میں اسلامی تدبیر، اسلامی عمل، اسلامی جہاد، سخاوت، وسیع القلبی، خدا کے بندوں کے سامنے تواضع اور وہ خصوصیات جن کے حضرت علی علیہ السلام حامل تھے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کے سامنے یہ معیار رکھا ہے اور یہ ایسا سبق ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
غدیر کے واقعے سے ایک اور بات جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے، خلافت کے شروعاتی چند برسوں میں ہی یہ واضح کر دیا کہ ان کی نظر میں ترجیح، الٰہی و اسلامی عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یعنی انصاف، یعنی اس مقصد کی تکمیل جسے قرآن مجید نے، انبیاء کی بعثت، آسمانی کتابوں اور شریعتوں کے نزول کی وجہ قرار دی ہے: الٰہی عدل و انصاف کو قائم کرنا، وہ عدل و انصاف جس کو اسلامی احکام میں بیان کیا گیا ہے، انصاف کو یقینی بنانے کا سب سے بہتر راستہ ہے۔ یہ حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں اولین ترجیح تھی۔
بلا شبہ غدیر کے دن کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اسلامی روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ اس دن کی عظمت، عید فطر اور عید الاضحی سے بھی زیادہ ہے لیکن اس کا مطلب ہر گزہرگز یہ نہیں ہے کہ اس سے اسلام کی ان دو عظیم عیدوں کی اہمیت کم ہوتی ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ عید غدیر میں ایک اعلی مفہوم مضمر ہے۔ اسلامی روایتوں کے مطابق سب سے زیادہ با عظمت اس عید کی اہمیت اسی میں ہے کہ اس سے ولایت کا مفہوم جڑا ہوا ہے۔ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، انبیائے الٰہی اور تمام عظیم رہنماؤں نے جو جد و جہد کی ہے اس کا مقصد الٰہی ولایت کا قیام تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اللہ کی راہ میں جہاد کے دوران دین کے لئے کی جانے والی کوشوں کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا ہے:’’ مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو بندوں یا غلاموں کی سرپرستی سے نکال کر اللہ کی سرپرستی میں داخل کیا جائے۔ تاہم عید غدیر کے معاملے میں یہ بات بھی ہے کہ ولایت و سرپرستی کے مسئلے میں دو اہم و بنیادی دائرے ہیں: ایک تو خود انسان اور اس کا نفس ہے۔ یعنی انسان میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ الٰہی ارادے کو اپنے وجود اور اپنے نفس کا فرمانروا بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو اور خود کو اللہ تعالی کی سرپرستی کے دائرے میں داخل کرنے کی اہلیت اس میں موجود ہو۔ یہ در اصل وہ اولین اور بنیادی قدم ہے کہ جس کو نظر انداز کر دیا گیا تو دوسرا قدم بھی اٹھانا ممکن نہیں ہوگا۔ دوسرا قدم یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اللہ کی سرپرستی کے سائے تلے لے آئے۔ یعنی سماج اللہ کی ولایت و سرپرستی میں آگے بڑھے اور کسی بھی طرح کی دوسری ولایت اور لگاؤ، مال و دولت، قوم و قبیلے، طاقت، آداب و رسومات اور غلط رسومات سے لگاؤ، اللہ کی ولایت کے راستے کی رکاوٹ نہ بنے اور نہ ہی اللہ کی ولایت و سرپرستی کے سامنے ان چیزوں کو کسی طرح کی اہمیت دی جائے۔
آج کے دن جس (اعلیٰ شخصیت) کا تعارف کرایا گیا، یعنی مولائے متقیان حضرت امیر المومنین علیہ السلام، وہ ولایت کے دونوں دائروں اور شعبوں میں ایک مثالیہ اور منفرد شخصیت ہیں۔ اپنے نفس پر قابو اور اس پر لگام کسنے کے معاملے میں بھی کہ جو ایک بینادی عنصر ہے اور الٰہی ولایت کے لئے مثالیہ اور نمونہ عمل پیش کرنے کے معاملے میں بھی انہوں نے تاریخ میں ایسی مثال پیش کی ہے کہ الٰہی ولایت کی معرفت حاصل کرنے والے ہر شخص کے لئے ان کی کارکردگی، ایک کامل نمونہ عمل بن گئی۔غدیر کے واقعے میں، بہت سے حقائق مضمر ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ اس دور میں نئے نئے تشکیل پانے والے اسلامی سماج میں جس کی تشکیل کو تقریبا دس برس کا عرصہ گزرا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکومت اور امامت کے معاملے کو، اس کے وسیع مفہوم و معانی کے ساتھ، طے کرنا چاہا اور حج سے واپسی کے وقت غدیر خم میں، امیر المومنین کو اپنا جانشین معین کرنا تھا۔ اس پورے عمل کی یہی ظاہری صورت حال بھی کافی اہمیت کی حامل ہے اور کسی بھی انقلابی سماج کے اہل تحقیق اور اہل فکر و نظر حضرات کے لئے ایک الٰہی تدبیر ہے لیکن اس ظاہری صورت کے پیچھے بہت بڑے حقائق بھی پوشیدہ ہیں کہ اگر اسلامی امت اور اسلامی سماج ان نکات پر توجہ دے تو زندگی کی راہ و روش واضح ہو جائے گی۔ بنیادی طور پر اگر غدیر کے معاملے میں تمام مسلمان، چاہے وہ شیعہ ہوں کہ جو اس مسئلے کو امامت و ولایت کا معاملہ سمجھتے ہیں اور چاہے غیر شیعہ ہوں کہ جو اصل واقعہ کو قبول کرتے ہیں لیکن اس سے امامت و ولایت کا مفہوم اخذ نہیں کرتے، ان نکات پر زیادہ توجہ دیں جو غدیر کے واقعے میں مضمر ہیں تو مسلمانوں کے مفادات اور مصلحتوں پر اس کے بہت سے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .