۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
علامہ شیخ فدا علی حلیمی 

حوزہ/ کتب تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات عیان ہوجاتی ہے خلفا کے زمانے میں مولی اور ولایت کا کلمہ حاکم اور حاکمیت کے معنی استعمال ہوا کرتا تھا۔

تحریر: حجۃ الاسلام مولانا شیخ فداعلی

حوزہ نیوز ایجنسی |

غدیر خم میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام علی علیہ السلام کے ہاتھ پکڑ کر بلند کرکے فرمایا: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ

اس حدیث کے متعلق بہت سے ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں کہ جو اس مطلب کو ثابت کرتے ہیں کہ یہاں پر مولا سے مراد اولویت اور سرپرستی ہی ہے ۔

اس دعوے کے دلائل :

فرض کروکہ لفظ مولیٰ کے لغت میں بہت سے معنی ہیں ،لیکن تاریخ کے اس عظیم واقعہ وحدیث غدیر کے بارے میں بہت سے ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جو ہر طرح کے شک و شبہات کو دور کرکے حجت کو تمام کرتے ہیں ۔

پہلی دلیل :

غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاعر حسان بن ثابت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لے کر ان کے مضمون کو اشعار کی شکل میں ڈھالا ۔اس فصیح و بلیغ وارعربی زبان کے رموز سے آشنا شخص نے لفظ مولا کی جگہ لفظ امام وہادی کو استعمال کیا اور کہا :

1ـ یُنادیهمُ یومَ الغدیرِ نبیُّهمْ * بخمٍّ و اسْمَعْ بالرسولِ مُنادیا

2- فقال فمن مولاکمُ ونبیُّکمْ * فقالوا ولم یُبدوا هناک التعامیا

3- إلهُکَ مولانا وأنتَ نبیُّنا * و لم تَلْقَ منّا فی الولایةِ عاصیا

4- قال له قم یا علیُّ فإنّنی * رضیتُکَ من بعدی إماماً و هادیا

5- فمن کنتُ مولاهُ فهذا ولیُّهُ * فکونوا له أتباع صدق موالیا

6- هناک دعا اللّهمَّ والِ ولیَّهُ * و کن لِلّذی عادى علیّاً معادیا

یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا : اے علی ! اٹھو کہ میں نے تم کو اپنے بعد امام وہادی کی شکل میں منتخب کرلیا ہے ۔

اس شعر سے ظاہر ہے کہ شاعر نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال کردہ لفظ مولا کوامامت، پیشوای ،ہدایت اور امت کی رہبر کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں استعمال نہیں کیا ہے ۔ اور یہ شاعر عرب کے فصیح و اہل لغت افرادمیں شمار ہوتا ہے ۔اورصرف عرب کے اس عظیم شاعر حسان نے ہی اس لفظ مولا کو امامت کے معنی میں استعمال نہیں کیاہے، بلکہ اس کے بعد آنے والے تمام اسلامی شعراء نے جو عرب کے مشہور شعراء وادباء تھے اور عربی زبان کے استاد شمار ہوتے تھے، انھوں نے بھی اس لفظ مولا سے وہی معنی مراد لئے ہیں جو حسان نے مراد لئے تھے یعنی امامت ۔( حافظ جلال الدین سیوطى، متوفّاى (911 هـ ق)؛ این شعر را در رساله اش «الأزدهار فیما عقده الشعراء من الأشعار» از تذکره شیخ تاج الدین ابن مکتوم حنفى، متوفّاى (749 هـ ق، أمالى شیخ صدوق، ص 343 (ص 460)؛ خصائص الأئمّة، سیّد رضى، ص 42؛ خصائص أمیر المؤمنین، سیّد رضى، ص 6؛ ارشاد شیخ مفید، ص 31 و 64 )

دوسری دلیل :

حضرت امیر علیہ السلام نے جو اشعار معاویہ کو لکھے ان میں حدیث غدیر کے بارے میں یہ فرمایاکہ

واوجب لی ولایتہ علیکم رسول اللہ یوم غدیر خم۔( علاّمه امینى، در جلد دوم الغدیر، صفحات 25-30 )

یعنی اللہ کے پیغمبر نے غدیرکے دن میری ولایت کو تمھارے اوپر واجب قراردیا ۔

امام سے بہتر کون شخص ہے، جو ہمارے لئے اس حدیث کی تفسیر کرسکے ؟اوربتائے کہ غدیر کے دن اللہ کے پیغمبر نے ولایت کو کس معنی میں استعمال کیاہے ؟کیا یہ تفسیر یہ نہیں بتا رہی ہے کہ واقعہ غدیر میں موجود تمام افراد نے لفظ مولا سے امامت کے علاوہ کوئی دوسرامعنی نہیں سمجھا ؟

تیسری دلیل :

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ” من کنت مولاہ ․․․ “ کہنے سے پہلے یہ سوال کیا کہ ”الست اولیٰ بکم من انفسکم؟“ کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا ہوں ؟پیغمبر کے اس سوال میں لفظ اولیٰ بنفس کا استعمال ہوا ہے۔ پہلے سب لوگوںسے اپنی اولویت کا اقرار لیا اور اس کے بعد بلافصل ارشاد فرمایا:” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ “ یعنی جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں۔ ان دو جملوں کوملانے کا ہدف کیا ہے؟کیا اس کے علاوہ بھی کوئی ہدف ہو سکتا ہے کہ بنص قرآن جو مقام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے، وہی علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت کریں؟صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہ پیغمبر ہیں اور علی علیہ السلام امام؛نتیجہ میں حدیث غدیر کے یہ معنی ہو جائیں گے کہ جس جس سے میری اولویت کی نسبت ہے اس اس سے علی علیہ السلام کو بھی اولویت کی نسبت ہے ۔

اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے علاوہ اور کوئی ہدف ہوتا، تو لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرارلینے کی ضرورت نہیں تھی ۔یہ انصاف سے کتنی دور ہوئ بات ہے کہ انسان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پیغام کو نظرانداکردے اور تمام قرائن کی روشنی میں آنکھیں بند کرکے گذرجائے۔

چوتھی دلیل :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلام کے آغاز میں لوگوں سے اسلام کے تین اہم اصول کا اقرارکرایا اور فرمایا ”الستم تشہدون ان لا الٰہ الا اللہ وان محمد ا عبدہ ورسو لہ وان الجنة حق والنار حق ؟ یعنی کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے علاوہ اورکوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے عبد ورسول ہیں اور جنت و دوزخ حق ہیں؟یہ سب اقرارکرانے سے کیا ہدف تھا ؟کیااس کے علاوہ کوئی دوسرا ہدف تھا کہ وہ علی علیہ السلام کے لئے جس مقام و منزلت کو ثابت کرنا چاہتے تھے، اس کے لئے لوگوں کے ذہن کو آمادہ کر رہے تھے ، تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ولایت و خلافت کا اقرار دین کے ان تین اصول کی مانندہے، جن کے سب معتقد ہیں ؟اگرمولاسے دوست یامددگار مراد لیں تو ان جملوں کا آپسی ربط ختم ہو جائے گا اور کلام کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟

پانچویں دلیل :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبے کے شروع میں، اپنی رحلت کے بارے میں فرمایا کہ :” انی اوشک ان ادعیٰ فاجیب“یعنی قریب ہے کہ میں دعوت حق پر لبیک کہوں یہ جملہ اس بات کا عکاس ہے کہ پیغمبر اپنے بعد کے لئے کوئی انتظام کرنا چاہتے ہیں، تاکہ رحلت کے بعد پیدا ہونے والا خلا پر ہو سکے، اور جس سے یہ خلا پر ہو سکتا ہے وہ ایسے لائق وعالم جانشین کا تعین ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعدتمام امور کی باگڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھال لے ۔اس کے علاوہ کوئی دوسر ی صورت نظر نہیں آتی ۔ (معاني الأخبار , جلد۱ , صفحه۹۰، المراجعات، ص 81،)

جب بھی ہم ولایت کی تفسیر خلافت کے علاوہ کسی دوسری چیز سے کریں گے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملوں میں پایا جانے والا منطقی ربط ختم جائے گا، جبکہ وہ سب سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام کرنے والے ہیں۔ مسئلہ ولایت کے لئے اس سے زیادہ روشن اور کیا ہو قرینہ ہو سکتا ہے۔

چھٹی دلیل :

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ” من کنت مولاہ ․․․ “ جملے کے بعد فرمایا کہ

:” اللہ اکبر علیٰ اکمال الدین واتمام النعمت ورضی ربی برسالتی والولایت لعلی من بعدی“ اگر مولا سے دوستی یا مسلمانوں کی مدد مراد ہے تو علی علیہ السلام کی دوستی ،مودت ومدد سے دین کس طرح کامل ہوگیا اور اس کی نعمتیں کس طرح پوری ہوگئیں ؟سب سے روشن یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت سے راضی ہو گیا کیا یہ سب خلافت کے معنی پر دلیل نہیں ہے؟

ساتویں دلیل :

اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ شیخین(ابوبکر و عمر) و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے حضرت کے منبر سے اترنے کے بعد علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کایہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا ۔شخین وہ پہلے افراد تھے جنھوںنے امام کو ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دی ”ہنیئاً لک یاعلی بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولای ومولیٰ کل مومن ومؤمنةیعنی اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ہو کہ صبح وشام میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہوگئے ۔ ( مسند احمد بن حنبل، ج۴، ص۲۸۱، المستدرک علی الصحیحین، حاکم نیشابوری، تصحیح: مرعشلی، بیروت، دارالمعرفه، بی تا، ج۳، ص۱۰۹و۱۱۰، ترمذی، محمد بن عیسی، بیروت، دارالفکر، ج۱۲، ص۱۷۵/۔)

علی علیہ السلام نے اس دن ایسا کونسا مقام حاصل کیا تھا کہ اس مبارکبادی کے مستحق قرارپائے ؟کیامقام خلافت ،زعامت اور امت کی رہبری ،کہ جس کا اس دن تک رسمی طور پر اعلان نہیں ہوا تھا، اس مبارکبادی کی وجہ نہیں تھی؟محبت و دوستی تو کوئی نئی بات نہیں تھی ۔

آٹھویں دلیل :

اگر اس سے حضرت علی علیہ السلام کی دوستی مراد تھی تو اس کے لئے تویہ ضروری نہیں تھا کہ جھلسا دینے والی گرمی میں اس مسئلہ کو بیان کیا جاتا۔ ایک لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل قافلہ کو روکا جاتا اور تیز دھوپ میں چٹیل میدان کے تپتے ہوئے پتھروں پرلوگوں کو بیٹھا کرمفصل خطبہ بیان کیاجاتا ۔

کیا قرآن نے تمام مومنین کو ایک دوسرے کا بھائی نہیں کہا ہے؟جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے <انما المومنون اخوة> مومنین آپس میںایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔کیا قرآن نے دوسری آیتوں میں مومنین کو ایک دوسرے کے دوست کی شکل میں نہیں پہچنوایا ہے؟ اور علی علیہ السلام بھی اسی مومن سماج کی ایک فرد تھے، لہٰذا کیا ان کی دوستی کے اعلان کی الگ سے کیا ضرورت تھی؟اور اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اس اعلان میں دوستی ہی مد نظر تھی تو پھر اس کے لئے ناسازگار ماحول میں ان سب انتظامات کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو مدینہ میں بھی کیا جا سکتا تھا۔ یقینا کوئ بہت اہم مسئلہ درکار تھا جس کے لئے ان استثنائی مقدمات کی ضرورت پیش آئی ،کیونکہ اس طرح کے انتظامات پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں نہ کبھی پہلے دیکھے گئے اور نہ ہی اس واقعہ کے بعد نظر آئے۔

نوین دلیل:

خلفا کے زمانے میں مولی اور ولایت کا کلمہ کس معنی میں استعمال کرتے تھے ؟کتب تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات عیان ہوجاتی ہے یہ کلمات حاکم اور حاکمیت کے معنی استعمال کرتے تھے چند ایک نمونے اپ کی خدمت میں پیش کریں گے

جناب ابوبکر اپنی خلافت کے لیے ولی کا کلمہ استعمال کرتاہے َمَّا وُلِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، خَطَبَ النَّاسُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، أَيُّهَا النَّاسُ فَقَدْ وُلِّيتُكُمْ وَلَسْتُ بِخَيْرِكُمْ. أنساب الأشراف، البلاذري، ج 1 ، ص 590، تاريخ الطبري، ج2 ص237 ـ 238

اسی طرح جناب ابوبکر جناب عمر کےلیے جب خلافت کی وصیت کرتاہے تو لکھاہے: الرأي فوليت عليهم خيرهم۔۔ الثقات، ابن حبان، ج 2 ، ص 192 ـ 193، منهاج السنه النبويه ، ج7 ، ص 461

اسی جناب عمراپنی خلافت کا ذکرتاہے توکہتاہے: إني قد وليت عليكم، أنساب الأشراف، البلاذري، ج3، ص412

ولو أدركت خالد بن الوليد لوليته. تاريخ المدينه المنوره، ابن شبه نميري، ج2، ص61

اسی طرح حضرت عائشہ اپنے والد کی خلافت اور حکومت سے گفتگوکرتی ہے تو: لما ولي أبو بكر قال۔۔۔۔ الطبقات الكبرى، ابن سعد، ج3، ص185 إرواء الغليل، ج8 ، ص 232،ان اسعمالات سے معلوم ہوتاہے کہ صدر اسلام میں کسی کی خلافت اور حکومت کےلیے ولی اور ولایت کا کلمہ کا استعمال ایک رائج استعمال تھا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .