تحریر: محمد شریف ولی
مقدمہ:
پیغمبر اِسلام ص ایک نور تھے جو انسانوں کے تاریک قلب و دماغ میں چمکے اور اس زمانے کے بدبخت اور خبیث معاشرے کو انسانی فرشتوں سے روشناس کرایا اور تہذیب و تمدن کا ایسا تحفہ پیش کیا جو آج تک تمام انسانی قوانین میں سب سے عمدہ اور قیمتی ہےاور ہر شخص اس بات کی تصدیق کرتاہے اور اگر صرف اور صرف تمام مسلمان اس راستے پر چلتے جسے پیغمبر ص نے اسلامی معاشرے کے لئے تعین کیا تھا اور اختلاف و تفرقہ،تعصب اور خود غرضی سے پرہیز کرتے تو یقین کامل ہے کہ چودہ سو سال گذرجانے کے باوجود آج بھی اس تہذیب و تمدن کے مبارک درخت سے بہترین بہترین پھل تناول کرتے، اور ایسی ظلم و ستم سے دنیا میں اپنی عظمت و بزرگی کے محافظ ہوتے ۔ لیکن افسوس اور صدافسوس کہ پیغمبر ص کی دردناک رحلت کے بعد جنگ و جدال، خودغرضی اور مقام طلبی نے بعض مسلمانوں پر قبضہ جمالیا تھا جس کی وجہسے اسلامی اور الہی راستے میں زبردست اور خطرناک انحراف پیدا ہوگیا اور اسلام کے سیدھے راستے یعنی ولایت اور امامت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور مسلمانوں نے ہمیشہ کے لئے ولایت کے راستے کو بھلادیا اور جس کے نتیجے میں آج تک مختلف قسم کے مشکلات سے دوچار ہونے پر مجبور ہیں ۔
ولایت کا لغوی معنی:
ولایت، ولی سے ہے اور الولی قریب اور نزدیک کے معنی میں ہے۔ اس میں دو لغت ہیں
1۔ ولیہ ،یلیہ کسرے کے ساتھ حسب یحسب کے وزن پر ۔
2۔ ولاہ ، یلیہ؛ وعد یعد سے ۔
لیکن دوسری لغت کا استعمال کم ہے ۔(عبکری بغدادی، مادہ ولی) ۔
ابن منظور کہتاہے اس لفظ کا صرف ایک ہی معنی ہے ۔
ولایت کا اصطلاحی معنی:
ولایت کی بحث کلامی اور فقہی بحث ہے اور مختلف علوم میں اس کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔
فقہی اور حقوقی اصطلاح میں اس کا معنا ؛ مال اور امور میں تصرف کے معنا میں استعمال ہوتا ہے ۔
ہر انسان اپنے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنے اموال اور افعال پر اختیار رکھتاہے ۔ لیکن بعض افراد سے یہ حق سلب ہوجاتاہے اور وہ اس حق استعمال نہیں کرسکتے ہیں ۔ اور جس کی وجہ سے وضع کردہ قوانین کے مطابق ؛ بعض مخصوص افراد کو یہ حق دیاجاتا ہے تاکہ یہ خاص افراد ان اموال اور امور میں تصرف کرتے ہیں ۔ اور یہ حکم ثانوی کے تحت اور خاص شرائط میں سونپا جاتاہے ۔لیکن مولی علیہ (بچوں ، یتیم، مجنون، محجور، مفلس، لاوارث مال،و۔۔۔) پر جو ولایت حاصل ہے وہ تکلیف شرعی یا عرفی ہے اور صرف خاص افراد کو یہ حق حاصل ہوتاہے ۔جیسے باپ، وصی، وکیل ، قاضی اور حاکم ، عادل مومنین و۔۔۔۔) اور یہ حکم ثانوی کے اعتبار سے ہے۔(امام خمینی، الاجتہاد والتقلید)۔
ولایت کے بارے میں امام رضا علیہ السلام کا فرمان:
شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ کتاب کمال الدین و تمام النعمہ میں فرماتے ہیں ((من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية)) ترجمہ جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اس روایت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امام کی پہچان اور معرفت کی اہمیت اسلام کی نقطہ نگاہ سے کتنی زیادہ ہے۔ اور اسی طرح دوسری روایات میں بھی ولایت کی اہمیت بہت واضح الفاظ میں بیان ہوئی ہیں۔ اصول کافی میں جناب زراہ نے امام باقرعلیہ علیہ السلام سے روایت کی ہے؛ کہ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا : کہ اسلام کا دارومدار پانچ چیزوں پر ہیں نماز زکات، روزہ ،حج اور ولایت ۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا ان میں سے سب سے افضل کون سا ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: کہ ولایت سب سے افضل ہے کیونکہ ولایت ان سب کی چابی ہے اور ولی ان سب کا رہنما ہے۔ بالفاظ دیگر ائمہ علیہم السلام نماز حج ، زکات اور روزے کی رہنمائی کرتے ہیں اور یہ اعمال ولایت و امامت کی رہنمائی کے بغیر صحیح نہیں ہے. (( اصول کافی جل 2 صفحہ 18 ))۔
چونکہ ہماری گفتگو ((ولایت کی اہمیت حضرت امام رضا علیہ السلام کی نظرمیں )) ہے ۔لہذا اس تحریرمیں ہماری یہی کوشش ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ ،امام رضا علیہ السلام کے فرامین کی روشنی میں ولایت اور امامت کی اہمیت کو بیان کریں ۔
ولایت اور امامت کے بارے میں، امام رضا علیہ السلام کی طرف سے بہت ساری روایتیں آئی ہیں اور امام رضا علیہ السلام نے مختلف مقامات پر واضح اور خوبصورت الفاظ میں ولایت کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے۔ اور آپ علیہ السلام کو جب بھی موقع ملتا تھا تو ولایت کی اہمیت کو واضح طور پر بیان فرماتے تھے ۔ تاریخ گواہ ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی کے مختلف مواقع پر ولایت اور امامت کی بحث کو بیان فرمایا ہے۔
اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ، عیون اخبار الرضا میں ایک باب اسی موضوع کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے ۔
سب سے سے معروف روایت جو حدیث سلسلہ ذھب کے نام سے معروف ہے جو سنی اور شیعہ دونوں کتابوں میں متعدد اسناد کے ساتھ وارد ہوئی ہیں اور دونوں فریقین کے درمیان بھی مورد اطمینان اور قابل قبول ہیں جس میں امام علیہ السلام نے ولایت کی اہمیت کو واضح اور روشن الفاظ میں بیان فرمایا ہے جب امام ع کو مامون الرشید کے حکم سے طوس بلایا گیا تو اس وقت جب آپ مرو کی طرف تشریف لے جارہے تھے تو راستے میں نیشاپور پہنچا تو وہاں پر شایان شان طریقے سے آپ ع کا استقبال ہوا تو اس موقع پر آپ نے فرمایا : کہ میں نے اپنےوالد گرامی سے اور انہوں نے اپنے والد گرامی سے اور انہوں نے اپنے والد گرامی سے اسی طرح یہ سلسلہ مولا امیرالمومنین علیہ السلام تک جا پہنچتا ہے اور آپ ع نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل فرمایا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ آلہ وسلم نے فرمایا :(( لا الہ الا اللہ حصنی فمن دخل حصنی امن من عذابی ، بشرطھا و انا من شروطھا ))
ترجمہ: فرمایا : کہ لا الہ الا اللہمیرا قلعہ ہے اور جو کوئی اس میں داخل ہوا میرے عذاب سے محفوظ ہوا۔ اس کے بعد امام علیہ السلام کا قافلہ روانہ ہوا تو اس وقت امام علیہ السلام نے دوبارہ فرمایا یا کہ لیکن شرائط کے ساتھ اور میں ان شرائط میں سے ایک ہوں ۔
اس روایت میں امام رضا علیہ السلام نے ولایت کی تفسیر بیان کی ہے کہ توحید اور اللہ پر ایمان اور دنیا و آخرت کی کامیابی کو امامت کے ساتھ مشروط کر دیا ہے ۔ یعنی اگر توحید بھی ولایت اہلبیت کے بغیر ہو تو وہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ تمام چیزیں امامت اور ولایت کے شاہراہ سے گزر کر ہی جاتی ہیں۔ لا الہ الا اللہ اللہ بھی تب قبول ہوگا؛ جب اس کے ساتھ ساتھ ولایت اور امامت کو بھی قبول کریں۔اس روایت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہیہ روایت در واقع کے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور حدیث جس میں آپ نے فرمایا تھا: ((من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية))۔ترجمہ: جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجاے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے؛ کی تفسیر ہے۔ یعنی جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر جاتا ہے تو گویا وہ مشرک کی موت مرتا ہے یعنی اس کے اسلام کا اسے کوئی تعلق نہیں ہے اور قیامت کے دن اس کو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ لہذا قیامت کی عذاب سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اسلام اور دیگر احکام کی پابندی کے ساتھ ساتھ امامت اور ولایت کو بھی قبول کریں۔ یعنی قیامت کے دن کسی شخص کے تمام اعمال قبول ہوں لیکن ولایت نہ ہوتو کچھ بھی قبول نہیں ہوگا ۔یعنی ولایت ان تمام اعمال کی قبولیت کی شرط ہیں۔ جب تک ولایت اور امامت کی شرط مکمل نہ ہو تب تک انسان کا کوئی عمل حتی توحید بھی قبول نہیں ہوگا ۔ ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال اور اعتقادات ؛ حتی توحید، نبوت اور معاد اور باقی تمام احکام میں اس شرط کو پورا کریں۔ کیونکہ یہ بنیادی شرط ہے۔ لہذٰا اس بنیادی شرط کا ہونا ضروری ہے
حدثنا أبو العباس محمد بن إبراهيم بن إسحاق الطالقاني رضي الله عنه قال حدثنا أبو أحمد القاسم بن محمد بن علي الهاروني قال حدثني أبو حامد عمرانبن موسى بن إبراهيم عن الحسن بن القاسم الرقام قال حدثني القاسم بن مسلم عن أخيهعبد العزيز بن مسلم قال كنا في أيام علي بن موسى الرضا ( ع ) بمرو فاجتمعنا في مسجدجامعها في يوم الجمعة في بدء مقدمنا فإذا رأى الناس أمر الإمامة و ذكروا كثرةاختلاف الناس فيها فدخلت على سيدي و مولائي الرضا ( ع ) فأعلمته ما خاض الناس فيه فتبسم ( ع ) ثم قال يا عبد العزيز جهل القوم و خدعوا عن أديانهم إن الله تبارك و تعالى لم يقبض نبيه ( ص ) حتى أكمل له الدين و أنزل عليه القرآن فيه تفصيل كل شيء بين فيهالحلال و الحرام و الحدود و الأحكام و جميع ما يحتاج إليه كملا فقال عز و جل ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ مِنْ شَيْءٍ و أنزل في حجة الوداع و هي آخر عمره ( ص ) الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً و أمالإمامةمن تمام الدين و لم يمض ( ص ) حتى بين لأمته معالم دينهم و أوضح لهم سبيلهم و تركهم على قصد الحق و أقام لهم عليا ( ع ) علما و إماما و ما ترك شيئا يحتاج إليه الأمة إلابينه فمن زعم أن الله عز و جل لم يكمل دينه فقد رد كتاب الله عز و جل و من رد كتابالله تعالى فهو كافر هل يعرفون قدر الإمامة و محلها من الأمة فيجوز فيها اختيارهمإن الإمامة أجل قدرا و أعظم شأنا و أعلى مكانا و أمنع جانبا و أبعد غورا من أنيبلغها الناس بعقولهم أو ينالوها بآرائهم أو يقيموا إماما باختيارهم إن الإمامة خصالله بها إبراهيم الخليل ( ع ) بعد النبوة و الخلة مرتبة ثالثة و فضيلة شرفه بها و أشادبها ذكره فقال عز و جل إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً فقال الخليل ( ع ) سرورا بها وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قالَ الله عز و جل لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ فأبطلت هذه الآية إمامة كل ظالم إلى يوم القيامة و صارت في الصفوة ثم أكرمه الله عز و جلبأن جعلها ذريته أهل الصفوة و الطهارة فقال عز و جل وَ وَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ وَيَعْقُوبَ نافِلَةً وَ كُلًّا جَعَلْنا صالِحِينَ وَ جَعَلْناهُمْ أَئِمَّةًيَهْدُونَ بِأَمْرِنا وَ أَوْحَيْنا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْراتِ وَ إِقامَالصَّلاةِ وَ إِيتاءَ الزَّكاةِ وَ كانُوا لَنا عابِدِينَ فلم يزل في ذريته يرثها بعض عن بعض قرنا فقرنا حتى ورثها النبي ( ص ) فقال الله عز و جل إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَ هذَا النَّبِيُّ وَ الَّذِينَ آمَنُواوَ اللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ فكانت له خاصة فقلدها ( ص ) عليا بأمر الله عز و جل على رسم ما فرضها الله عز و جل فصارت في ذريته الأصفياء الذين آتاهم الله العلم و الإيمان بقوله عز و جل وَ قالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَ الْإِيمانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتابِ اللَّهِ إِلىيَوْمِ الْبَعْثِ فهي في ولد علي ( ع ) خاصة إلى يوم القيامة إذ لا نبي بعد محمد ( ص ) فمنأين يختار هؤلاء الجهال أن الإمامة هي منزلة الأنبياء و إرث الأوصياء إن الإمامةخلافة الله عز و جل و خلافة الرسول و مقام أمير المؤمنين و ميراث الحسن و الحسين ( ع ) .
إن الإمامة زمام الدين و نظام المسلمين و صلاح الدنيا و عز المؤمنين.
إن الإمامة أسالإسلام النامي و فرعه السامي بالإمام تمام الصلاة و الزكاة و الصيام و الحج والجهاد و توفير الفيء و الصدقات و إمضاء الحدود و الأحكام و منع الثغور و الأطراف.
الإمام يحل حلال الله و يحرم حرام الله و يقيم حدود الله و يذب عن دين الله و يدعوإلى سبيل ربه بالحكمة و الموعظة الحسنة و الحجة البالغة .
الإمام كالشمس الطالعةللعالم و هي بالأفق بحيث لا تنالها الأيدي و الأبصار .
الإمام البدر المنير و السراجالزاهر و النور الساطع و النجم الهادي في غياهب الدجى و البيد القفار و لجج البحار .
الإمام الماء العذب على الظمأ و الدال على الهدى و المنجي من الردى و الإمام النارعلى اليفاع الحار لمن اصطلى به و الدليل في المهالك من فارقه فهالك الإمام السحاب الماطر و الغيث الهاطل و الشمسالمضيئة و الأرض البسيطة و العين الغزيرة و الغدير و الروضة الإمام الأمين الرفيق و الوالد الرقيق و الأخ الشفيق ۔۔۔۔
((عیون اخبارالرضا ج1 ص192،باب ما جاء عن الرضا ع فی وصف الامامة والامام....)).و ((اصول كافى ج1ص 198_200))۔
امام رضا علیہ السلام اس روایت میں ابن مسلم سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں : کہ کیا لوگ امامت کے مقام اور منزلت کو جانتے ہیں کیا لوگوں کو اس کے اختیار کا حق ہیں ؟کیا اللہ تعالی نے اس امامت کا اختیار ان کے ہاتھ میں دیا ہیں؟ فرماتے ہیں : کہ امامت اور ولایت اس عظیم مقام کا نام ہے جس کی بلندیوں اور گہرائیوں تک لوگوں کی عقلیں نہیں پہنچ سکتی ہیں کہ وہ اپنی ی ر ای اور اور فکر کے ذریعے اس منصب اور مقام کو انتخاب کریں یا اس مقام اور منصب کو پا لیں ۔ امامت وہ مقام ہے کہ اللہ تعالی نے نبوت اور خلت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس مقام سے نوازا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس مقام کے ذریعے فضیلت دی ہیں۔ اور ارشاد ہوتا ہے ((۔۔۔قال إني جاعلك للناس امام قال ومن ذريتى قال لا ينال عهدى الظالمين)).(بقره 124)۔ ترجمہ (۔۔۔میں تمہیں لوگوں کا امام بنا نے والا ہوں تو انہوں نے کہا اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا میرا عہدہ ظالموں تک نہیں پہنچے گا (تر جمہ نجفی)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ کون ہیں جو امام کو پہچان سکتے ہیں اور امام کا انتخاب ان کے لیے ممکن نہیں ہے ؟
یہ وہ مقام ہے کہ جہاں پہنچ کر بہت سارے افراد حق سے منحرف ہوئے ہیں، اور ان کی عقلوں پر پردے پڑ گئی ہیں، اور ان کی عقلیں پریشان ہو کر رہ گئی ہیں، ان کی آنکھیں نابینا ہوئی ہے بڑے بڑے افراد جھوٹے دکھائی دیتے ہیں،۔ حکیم اور سمجھدار افراد کم سوچنے والے بن گئے ہیں، شعراء بھی پریشان نظرآتے ہیں ۔گویا زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس مقام پر پہنچ کر بے بس نظر آتے ہیں۔ اور امامت اور ولایت کے مقام اور منزلت کو بیان کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک الہی منصب ہےاور اللہ تعالی نے اپنے حبیب کے ذریعے اس منصب کا اعلان فرمایا ہے۔
اہم نکات:
چونکہ یہ حدیث بہت طولانی ہے اور اس تحریر میں مفصل بحث کی گنجایش نہیں ہے لہذا اختصار کی خاطر چند اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
1۔ دین، امامت اور ولایت کے ساتھ مکمل ہوتا ہے جس کی طرف امام رضا ع نے اس روایت میں بھی اشارہ فرمایا ہے ۔
2۔ حضرت ابراھیم ع کو نبوت اور خلت کے بعد امامت سے نوازا ۔
3۔ ایسا عھدہ ہے جو ظالموں تک نہیں پہنچ سکتا ۔
4۔امامت پیغمبر اکرم ص کے ساتھ مخصوص تھا۔
5۔امامت انبیاءع کا مقام ہے اور اوصیاء کی وراثت ہے ۔
6۔ امامت اللہ تعالی اور رسول اللہ ص کی جانیشینی کا نام ہے اور امیرالمومنین اور حسنین ع کا مقام ہے ۔
7۔ امامت دین کا دارومدار ہے اور مسلمانوں کے زندگی گزارنے کا قانون ہے اور مومنین کی عزت ہے ۔
8۔امامت اسلام کی بنیاد ہے ۔
9۔ امام کے ذریعے ہی نماز، زکات،روزہ ،حج اور جھاد مکمل ہوتے ہیں ۔
10۔ امام چمکتا ستارا اور دمکتا نور ہے
11۔تاریکی میں راستہ دکھانے والے ستارے کا نام امام ہے ۔
12۔پیاسوں کو سیراب کرنے کے لئے میٹھے پانی کی طرح ہے ۔
13۔ہلاکت سے نجات دینے والا ہے ۔
14۔جس نے بھی امام سے ہاتھ اٹھایا وہ ہلاک ہوگیا۔
15۔امام باران رحمت ہے ۔
16۔امام زمین پر اللہ کا امین ہے ۔
17۔امام انسانوں پر خدا کی حجت ہے ۔
18۔امام لوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہے اور حرم الہی کا دفاع کرنے والا ہے ۔
19۔اپنے زمانےمیں امام کی طرح کوئی بھی نہیں ہوتا ۔
20۔ کوئی دانشمندبھی امام کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
21۔پس کوئی بھی امام کو پہچان نہیں سکتے اور نہ ہی امام کو انتخاب کرسکتا ہے۔
ایک اور روایت میں امامع فرماتے ہیں: کہ
«محمد بن الفضیل عـن أبـی الحسن ع قال: سألته عن قول الله تبارک وتـعالی - یریـدون لیطـفؤا نور الله بأفواههم قال یریدون لیطفئوا ولایة أمیر المـؤمنین ع بـأفواههم قلت قوله تعـالی و اللـه متم نوره قال یقول و الله متم الإمامة و الإمامة هی النور و ذلک قـوله عــز و جـل - فـآمنوا باللـه و رسوله و النـور الذی أنـزلنا قال النـور هـو الإمـام » (مجلسی، ج 2ص265)
ترجمہ:
محمد بن فیضل امام رضا ع سے رویت بیان کرتےہے کہ میں امام ع سے اللہ تعالی کے اس فرمان(یریدون لیطفوا نوراللہ۔۔۔) کے بارے میں پوچھا تو امامرضا ع نے فرمایا : کہ مراد یہ ہے کہ یریدون لیطفئوا ولایة أميرالؤمنين ع بافواههم پھر میں نے "" واللہ متم نورہ "" کے بارے میں ہوچھا تو فرمایا کہ والله متم الامامة والامامة هى النور و ذالك قوله عز وجل، فأمنوا بالله ورسوله والنور الذى انزلنا قال النور هو الامام ( مجلسى ج ج 2 ص 365)۔
«و المفارق لنـا و الجـاحد لولایتنـا کـافر- و متبعنا و تابع أولیائنا مـؤمن، لا یحبنا کافر و لا یبغضنا مـؤمن – و مـن مات و هو یحبنا کان حـقا عـلی الله أن یبعثه معنا، نحن نور لمن تبعنا، و هدی لمن اهتدی بنا- ومـن لم یکن منا فلیس من الإســلام فــی شـیء» (تفسیر قمی ج 2ص102)
ترجمہ: ولایت عین ہدایت ہے اور اس لحاظ سے نور اور دین حق مراد ہے اور امام ع ولایت کی اطاعت کرنے والے کو مومن اور ولایت کے منکرین کو کافر سے تعبیر فرمایا ہے ۔
ایک اور مقام پر امام رضا ع فرماتے ہیں کہ:
«یونـس بـن عبد الرحمن قال : سئل أبو الحسـن الرضـا علیـه السـلام وأنـا حـاضر فـقال: جعلت فداک تأذن لی فی السؤال فإن لی مسائل؟ قال: سل عما شئت قال لـه: جعلـت فداک رفیق کـان لنـا بـمکۀ فرحل عنها إلی منزله و رحلنا إلی منازلنا، فلما أن صرنا فی الطریق أصـبنا بعض مـتاعه مـعنا، ف أي شیء نصنع به؟ قال: فقال تحملونه حتی تحملوه إلی الکوفة قال: لسنا نعرفـه و لا نعرف بـلده و لا نـعرف کـیف نصنع؟ قال: إذا کان کذا فبعه و تصدق بثمنه قال لـه: علی مـن جعلـت فداک: قال عـلی أهـل الولایة» (عطاردی مسندالرضا ج 2ص311).
امام ع فرماتے ہیں کہ ولایت کا موضوع عام ہے اور یہ تمام امتوں سے مربوط ہے اور ہر پیغمبر کے لئے مقام پیغمبر اور نبوت تک پہنچنے کے لئے ولایت امیرالمومنین ع کااقرار شرط تھا۔ اور امام ع ولایت کا عقیدہ رکھنے والے افراد کو مختلف درجات میں تقسیم کرتے ہے اور ولایت اہل بیت ع کو قبول کرنے والے افراد کو اھل ولایہ سے تعبیر فرماتے ہیں ۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: کہ زبان سے ولایت کا قرار کرنا ؛ یہ پہلا مرحلہ ہے ۔لیکن وہ افراد جو ولایت کو صحیح طریقے سے پہچانا ہے انکی خصوصیات بہت زیادہ ہیں «لیس کل من قال بولایتنا مؤمنا و لکن جعلوا أنسـاللمـؤمنین»
(کافی ج 2ص44 )
ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں کہ :
«هم أهـل الـدین و الـورع والسـمت الحسن و التواضع لله عز و جل خاشعة أبصارهم وجلة قـلوبهم لذکـر الله عز و جـل و ألسـنتهم ناطقـۀ بفضلک و أعینهم ساکبۀ تحننا علیک و علی الأئمـۀ مـن ولدک یدینون لله بمـا أمـرهم بـه فـی کتابـه و جاءهم به البرهان من سنۀ نبیه عاملون بما یأمـرهم بـه أولو الأمـر منهم متواصـلون غیـر متقـاطعین متحابون غیر متباغضین» (صدوق، عیون اخبار الرضا ج 1ص261)؛
ولایت کو قبول کرنے والوں کی صفات بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ انکے نام ساتویں آسمان اور ساتویں زمین میں لکھ چکاہے ۔یہ حقیقی مومن ہیں اور فرشتے انکو سلام کرتے ہیں اور انکے لئے استغفار کرتے ہیں ۔
«إن الملائکة لتصلي علیهم و تؤمن علی دعائهم وتستغفر للمذنب منهم وتشهد حضرته و تـستوحش لفـقـده إلی یوم القیامۀ » (صدوق عیون اخبارالرضا ، ج 1ص 261 )
«و إن المـلائکة لخدامنا و خدام محبینا یا علی الذین یحملون العرش و من حوله یسبحون بحمد ربهم...و یستغفرون للذین آمـنـوا بولایتنـا یـا علی لو لا نحن ما خـلق الله آدم ع و لا الحـواء و لا الجنة و لا النـار و لا السـماء و لا الـأرض فـکیـف لـا» (صدوق، ج 1ص254).
اس روایت کے مطابق فرشتے انکی خدمت کرتے ہیںایک اور مقام پر فرماتے ہیں: کہ «و من مـات و هـو یحـبنا کــان حـقـا علـی اللـه أن یبعثه مـعنا، نـحن نور لمن تبعنا، و هدی لمن اهتدی بنا- و من لم یکن منـا فلـیس مـن الإسـلام فـي شیء».
یعنی جو شخص ہماری محبت دل میں رکھ کر اس دنیا سے چلا جاے تو اللہ تعالی پر ان کا حق یہ ہے کہ ان کو ہمارے ساتھ محشور کرے۔
اسی طرح فرمایاہے : کہ
«من أتاه أخوه المؤمن فی حاجة فإنما هـی رحمـة من الله عز و جل ساقها إلیه فإن قبل ذلک فقد وصله بولایتنا و هـو مـوصول بولایة الله تبارک و تعالی وإن رده عن حاجته و هو یقدر علی قضائها سلط الله علیه شجاعا من نار ینهشه فی قبره إلـی یـوم القیامة مغفور له أو معذب فإن عذره الطالب کان أسوء حالا»۔
یعنی مومن واقعی ، ولایت کے اثرات کو معاشرے میں بھی ظاہر کرتاہے اور معاشرے کو بھی اس کا فائدہ پہنچا دیتا ہے اور امام ع نے مومنین کا ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کو ولایت اہل بیت ع سے عملا متصل ہونے کی علامت قرار دیتے ہیں ۔ (دیلمـی، ارشاد القلوب ج 1ص142).
وہ افراد جو ولایت کے منکر ہیں ان کے بارے میں امام ع فرماتے ہیں کہ وہ لوگ گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والے ہیں ۔ اور حق اور ہدایت کو ترک کرنے والے ہیں جس کے بارے میں قرآن اور اہلیبیت پیامبر ص کے فرمان کے مطابق ؛ جو من مات ولم۔۔۔۔۔۔جو کوئی ولایت اور امامت کی معرفت کے بغیر مرے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ سے تعبیر کی ہے۔ «کل من خالفهم ضال مضل تارک للحق و الهدی وهم المعبرون عن القـرآن و النــاطقون عـن الرسول من مات و لا یعـرفهم مـات میتة جاهلیة» (مجلسی،بحار الانوار، ج 10، ص 361)
نتیجہ:
ان تمام روایتوں سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ انسان کی نجات کا واحد ذریعہ امامت اور ولایت کی پیروی ہے ۔اور اسی طرح انسان کے اعمال کی قبولیت کی شرط امامت و ولایت ہے،لہذا تمام انسانوں کو بالعموم اور تمام مسلمانوں کو بالخصوص ، امام کے مقام اور منزلت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور یہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر وہ شخص جو دنیا اور آخرت میں سعادت چاہتاہے اس کا واحد راستہ امامت اور ولایت کی پیروی ہے ۔ اور ساتھ ساتھ مذہب حقہ کے پیروکاروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ امامت اور ولایت کے اس عظیم مقام کو سمجھیں اور خود بھی اس شاہراہ پر گامزن ہوجائیں اور دوسروں کو بھی دعوت دیں ۔ اور بالخصوص زمان غیبت میں، ظہور امام زمان عج کے لئے زمینہ فراہم کرنے کا واحد راستہ امامت اور ولایت کی پیروی میں ہے ۔
حوالہ جات:
1۔ قرآن ترجمہ شیخ محسن نجفی ۔
2۔ اصول کافی
3۔بحارالانوار
4۔ تفسیر قمی
5۔ عیون اخبار الرضا۔
6۔ کمال الدين و تمام النعمة .
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔