تحریر: حجت الاسلام یوشع ظفر حیاتی، قم المقدسہ، اسلامی جمہوریہ ایران
حوزہ نیوز ایجنسی। محترم قارئین کرام یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ اگر کوئی قوم اپنی بقا چاہتی ہے تو اسے اپنے ہر محاذ کی حفاظت خود کرنی ہوتی ہے۔ اور جو قومیں اپنی سرحدوں، اپنی ثقافت، اپنی رسومات اور اپنے عقائد کی حفاظت اغیار کے سپرد کردیتی ہیں وہ مٹ جایا کرتی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ان کا بظاہر صحیح سالم وجود معاشرے میں موجود تو ہو لیکن وہ اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہوتا ہے بالکل اس شخص کی مانند جو کسی لا علاج بیماری میں مبتلا ہو اور اب اس کے پاس بس ایک دعا کا سہارا باقی رہ گیا ہو وہ بھی بہت مایوسی اور نا امیدی کی کیفیت میں چونکہ اسے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس کی ہر آںے والی سانس اس پرخدا کا لطف ہے ورنہ طبی لحاظ سے تو وہ بہت پہلے ہی مر چکا ہے۔
پاکستان کے شہر پشاور کے علاقے کوچہ رسالدار میں واقع جامع مسجد میں دہشتگردوں نے دسیوں گھروں میں صف ماتم بچھا دی۔ میڈیا زرائع کے مطابق دو خود کش حملہ آواروں نے پہلے سیکیورٹی پر مامور افراد کو نشانہ بنایا اور پھر مسجد کے اندر گھس کر اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق چھپن سے زیادہ مومنین شہید اور دسیوں زخمی ہیں۔
کچھ عرصے سے ملک کے مختلف علاقوں میں شیعہ مومنین کی ٹارگٹ کلنگ کے اکا دکا واقعات تو جاری تھے ہی، لیکن سوچے سمجھے منصوبے اور اتنے منظم انداز سے ایک اندوہناک سانحے کا جنم لینا مملکت خداداد کے باشعور عوام کے ذہنوں میں بہت سارے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
دہشتگرد کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟ کس کی ایما پر آئے تھے؟ ان کے سہولت کار کون ہیں؟ آیا یہ کوئی سیاسی اقدام تھا یا مذہبی انتہا پسندی کا نتیجہ تھا؟ ان دہشتگردوں کی سرپرستی کوئی دوسرا ملک کررہا تھا یا ۔۔۔؟ یہ اور اس طرح کے سینکڑوں سوالات ہیں جن کے جوابات دینے کی کوششیں آںے والے دنوں میں میڈیا اور سیاسی عمائدین کے مبہم بیانات کے ذریعے کی جائیں گی۔ جس کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بے گناہ شیعہ مومنین کی قیمتی جانوں کے زیاں کا ذمہ دار پاکستان میں کرکٹ میچز کا انعقاد نہ ہونے کے لئے دشمنوں کی سازشوں کو ٹہرایا جارہا ہے۔ تاکہ ملک میں موجود بدبودار تکفیری قوتوں کو کلین چِٹ دی جاسکے۔
لیکن قارئین محترم یہ حالیہ دنوں میں ملت تشیع پر ہونے والا پہلا اندوہناک حملہ نہیں ہے بلکہ چند دنوں سے شیعہ قوم پر فکری ، عقیدتی، اعتقادی اور ثقافتی خودکش حملے بھی کئے جارہے ہیں۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعہ قوم کو نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ روحانی طور پر بھی شہید کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔
ابھی شیعہ عقائد پر تابڑ توڑ حملے اور منبروں اور محفلوں سے شیعہ عقائد سے چھیڑ چھاڑ ہی کیا کم وبال تھے کہ چند دنوں سے ادب کے میدان میں اہل بیت اطہار علیہم السلام اور عقیدہ تشیع کے دیگر اہم اور حساس موضوعات کو بھی سر عام نشانہ بنانا شروع کردیا گیا۔ یقین رکھئیے ان ثقافتی اور عقیدتی خودکش حملوں میں اتنی ہی ظرافت اور چالاکی سے کام لیا گیا جتنا سانحہ پشاور کے خودکش حملے میں، دونوں ہی محاذوں پر اتنے پھرتیلے اور مکار حملہ آور سامنے آئے کہ دونوں ہی جانب محافظین ہکا بکا رہ گئے اور ہوش تب آیا جب پانی سر سے گذر چکا تھا۔
لیکن پھر بھی ہم پاکستان میں موجود غیور اور مخلص شیعہ قوم کے ساتھ ہونے والی ان پے در پے زیادتیوں اور خود کش حملوں کو کنویں کے مینڈک کی آنکھ سے دیکھ کر سارا ملبہ دینی اور دنیاوی "قانون نافذ کرنے والے اداروں" پر گرا کر اپنے سینے میں موجود بوجھ ہلکا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ من حیث القوم ہم نے اپنی ذمہ داری ادا کردی ہے۔ حالانکہ کہ ہمیں ان تمام تر سازشوں اور واقعات کو عالمی تناظر میں دیکھنا چاہئیے۔ اور اسکے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی شیعہ گلی محلے کی سیاست میں اپنا وقت کھپانے کے بجائے دن کے کچھ اوقات عالمی حالات سے آشنائی میں صرف کریں تاکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہوسکے کہ اگر دنیا کا کوئی ملک بھی سرکاری سطح پر عالمی استکبار کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس ملک کے حالات کو چٹکی بجاتے کیسے تبدیل کردیا ہے۔ استعماری طاقتوں کی حمایت نہ کرنے کی سزا کس طرح دی جاتی ہے، کیسے کسی ملک کے اعلی عہدیداروں کو مراعات دے کر خریدا جاتا ہے اور پھر اس ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلایا جاتا ہے یا جمہوریت کے نام پر بغاوتیں کیسی برپا کی جاتی ہیں۔
دشمن اتنی عیاری سے اپنا کرتا ہے کہ وہ کسی بھی ملک کی رسمی سرحدوں پر براہ راست حملہ کرنے کے بجائے وہاں کی فرھنگ و ثقافت، نظریات، عقائد حتی لباس اور رہن سہن کے طور طریقوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور پھر شجاعت مصلحت میں، بہادری سستی میں اور غیرت بے غیرتی میں تبدیل ہو کر رہ جاتی ہے اور وہ سرحدی حدیں جن کو فتح کرنے میں اگر دشمن کو بھاری رقوم خرچ کرنا پڑتیں وہ اسے راتوں رات مفت میں فتح کرلیتا ہے اور وہ بھی ایسی فتح جس کے اثرات سرحدوں پر ہونے والی جنگوں کے مقابلے میں دیر تک باقی رہتے ہیں۔
ایسے میں ہم کیا سمجھتے ہیں کہ وہ شیعہ قوم جس کی سرحدیں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلی ہوں، جس کا عقیدہ دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط مانا جاتا ہو اور جس قوم کا اپنی بہادری اور مردانگی کی وجہ سے دنیا میں کوئی ثانی نہیں وہ اسلام دشمن عناصر کا ہدف نہیں ہوں گے؟
میرا یہ ماننا ہے کہ شیعہ قوم جتنی زیادہ خدا، رسول خدا ص اور ائمہ اطہار ع کے نزدیک ہے اس کے اتنے ہی زیادہ دشمن بھی ہیں جنہوں نے بیک وقت کئی زاویوں سے کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔ اور جب دشمن چار جانب سے حملہ آور ہوتو ہمیں بھی بہت چوکنا رہ کر اور اپنی آنکھیں پوری طرح کھول کر دن رات اپنے محازوں کی حفاظت کرنا چاہئیے چاہے وہ مذہبی محاذ ہو یا ثقافتی اور عقیدتی۔
پاکستان میں بسنے والے شیعوں کو ان سازشوں سے نمٹنے کے لئے زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر دنیا کے دیگر ممالک میں موجود شیعہ تحریکوں سے سبق حاصل کرنا ہوگا۔ اب صرف "لبیک یا حسین ع" کے نعرے لگا کر اپنے شہیدوں کو دفنا کر ایک روایت کو ادا نہیں کرنا بلکہ حسین سید الشہداء ع کو حقیقی معنی میں عملی میدان میں لبیک کہنے کا وقت آگیا ہے۔ وہ لبیک کہی جائے جس میں ہر طرح کے محاذ میں دشمن کا مقابلہ کرنے کی حقیقی رمق موجود ہو اور ہم صدقِ دل سے مولا کو لبیک کہتے ہوئے یہ مصمم ارادہ کریں کہ بس مولا اب ہم اپنے عقیدے، اپنے مذہب، اپنی رسومات اور اپنی ظاہری محاذوں کی ڈٹ کر حفاظت کریں گے اور اپنے مذہب کے کسی محاذ پر آنچ بھی نہ آنے دیں گے۔
قارئین محترم اگر ہم نے صدق دل سے یہ عہد کرلیا تو پھر ہر جمعہ کو ہماری دعائے ندبہ حقیقی ندبہ کے ساتھ اور ہماری زیارت عاشورہ بھی حقیقی عزم و جزم کے ساتھ ہوگی ورنہ آپ کو تو یاد ہی گا کہ ائمہ ع کے قاتلوں نے بھی امام پر بہت زیادہ گریہ کیا تھا، جب جناب فاطمہ صغرا س کے پیروں سے ایک لعین خلخال اتارنے لگا تو تاریخ لکھتی ہے کہ اس نے بھی بہت گریہ کیا تھا اور شاید جب بجدل بن سلیم کلبی امام حسین ع کی انگشت مبارک کاٹ کر انگوٹھی اتار رہا ہوگا تو وہ بھی گریہ کناں ہوگا۔
ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وقتی نام و نمود، شہرت، دولت، رفاقت، اور سیاست کی وجہ سے ہم بھی اسی طرح کے رونے والوں میں شامل تو نہیں ہوتے جارہے؟ ہمیں سب سے پہلے اپنا صحیح عقیدہ اپنے بچوں کو سکھانا اور پڑھانا ہوگا تاکہ انہیں انی زندگی میں کہیں بھی عقیدے مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور جب بھی کوئی مشکل آئے وہ اپنے عقیدے کے محاذ پر ڈٹ کر کھڑے رہیں، پھر ہمیں اپنی مذہبی روایات کو صحیح چہرہ ان بچوں کو دکھانا ہوگا اور انہیں یہ بتانا ہوگا کہ جس رسم سے اغیار کی فرہنگ و ثقافت کی بو آتی ہو اسے بالکل اسی طرح دیوار پر مار دینا چاہئیے جس طرح رسول ختمی مرتبت ص نے اپنی ان حدیثوں کو دیوار پر مارنے کا حکم دیا ہے جو کلام اللہ سے تعارض رکھتی ہوں، پھر ہمیں اپنے بچوں کو مذہبی غیرت اور حمیت کا صحیح درس دینا ہوگا کیونکہ جس کا عقیدہ سالم ہو گا وہ ہی شجاع ہوگا اور جو شجاع ہوگا وہ ہی اپنی سرحدوں کی ٹھیک طرح سے حفاظت کرپائے گا۔
یہ بہت ہی اچھا ہوگا کہ کہ ہم خود ہی جلد از جلد کسی نتیجے تک پہنچ جائیں لیکن اگر ہم نے یہ ذمہ داری بھی تایخ پر ڈال تو وہ وقت دور نہیں جب ہم پہلے مرحلے میں لاعلاج مرض کی وجود سے ایک ناکارہ وجود بن جائیں گے جو دعائے ندبہ کی تلاوت کے وقت آنسو بہا بہا کر امام وقت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو پکارے گی تو ضرور مگر اس میں ان کے استقبال کی رمق بالکل بھی باقی نہیں ہوگی اور پھر۔۔۔ دوسرے مرحلے میں ہمارا قصہ پارینہ اگلی قوموں کو ڈرانے اور عبرت دلانے کے لئے سنایا جانے لگے گا۔