تحریر: ابو جواد
حوزہ نیوز ایجنسی। ۱۰ رجب المرجب امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی تاریخ ہے آپ سلسلہ ہدایت کی اس کڑی سے تعلق رکھتے ہیں جس نے سخت ترین دور میں زندگی گزاری آپ اس دور کمسنی میں منصب امامت پر فائز ہوئے کہ آپکی امامت کو لیکر بعض نادان چاہنے والوں کے درمیان شکوک و شبہات تھے ان تمام چیزوں کے باوجود آپکی مدت امامت میں مجموعی طور پر شیعت کو مضبوطی حاصل ہوئی، اور اس خطرے کے باوجود کہ شیعہ ایک محور سے ہٹ کر تتر بتر ہو جائیں گے آپ نے امامت کے سلسلہ سے پائے جانے والے شبہات کا جواب دیکر شیعوں کی بہترین انداز میں راہنمائی کی اور امت کو شبہات کے خطرناک گرداب سے نکال کر ساحل نجات تک پہنچایا۔ جہاں آپکی امامت کے آغاز میں شیعوں کے درمیان ایک بڑے شگاف کا خطرہ تھا وہیں آپنے ان خطروں سے اس طرح مقابلہ کیا کہ وہی لوگ جو امامت کو لیکر بکھرنے کی کگار پر تھے، ایک ایسے مستحکم قلعہ کی شکل میں ڈھل گئے جو آج تک ناقابل تسخیر ہے۔ چنانچہ آپکی امامت کے بعد شیعوں کے درمیان کوئی فرقہ وجود میں نہیں آیا اور آپ کی امامت کے برکت سے حکومت کے تمام تر دباؤ کے باوجود شیعوں کا انسجام و انصرام بہتر طور پر سامنے آیا اور آپ کی مساعی جمیلہ، اس بات کا سبب بنی کہ لوگوں کے جہاں عقائد مضبوط ہوں وہیں فقہی، سیاسی اور فکری طور پر انکے اندر بالیدگی پیدا ہو سکے۔ سچ ہے آپ اپنے بابا کے اس قول کے مکمل مصداق تھے جس میں امام رضا علیہ السلام نے فرمایا تھا: کہ ہمارے شیعوں کے لئے اس مولود سے زیادہ با برکت پیدا نہیں ہوا۔
پیش نظر تحریر میں ہم بہت ہی مختصر طور پر ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر امام علیہ السلام کی ایک حدیث کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیں گے ہمیں اس وقت کیا کرنا چاہیے اور ایک شیعہ ہونے کے اعتبار سے ہمارے ملک میں ہماری ذمہ داری کیا ہے
امام جواد علیہ السلام کی حدیث اور ہماری ذمہ داری :
امام جواد علیہ السلام اپنی ایک مختصر سی حدیث میں فرماتے ہیں : جو شخص موقع شناس نہ ہو حالات اسے اپنے چنگل میں لے لیں گے اور وہ ہلاک ہو جائے گا اس حدیث کے پیش نظر ہمیں اپنے گردو نواح پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ ہم جس دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں کیا کچھ ہو رہا ہے ، آیا ہم ایک سنگ راہ کی طرح پڑے ہیں جس پر دنیا کے تغیر و تبدل کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ جہاں ہے برسوں بعد بھی وہیں پڑا رہتا ہے جہاں تھا مگر یہ کہ کوئی راہی اسے اٹھا کر پھینک دے، گردو خاک اسکا مقدر ہے لوگوں کے جوتے اس پر پڑتے ہیں لیکن اس پر کوئی فرق نہیں وہ جوں کا توں ہے ،یا پھر ہم زندہ احساس رکھنے والے ایک ایسے انسان کی صورت اس قافلہ انسانی کا حصہ ہیں جو اپنے اطراف و اکناف سے متاثر ہوتا ہے ، جو کچھ بھی دنیا میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اس پر اثرانداز ہوتی ہیں چاہے وہ چھوٹی ہو ں یا بڑی ملکی سطح کی ہوں یا بین الاقوامی یہ تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ، اگر ہم ایک زندہ احساس رکھنے والے انسان کی طرح ہیں تو یقینا اپنے محلے اپنی گلی اپنے شہر اپنے ملک اپنی قوم کے حالات کو دیکھ کر متاثر ضرور ہوتے ہوں گے تو اب سوال یہ ہے کہ جو اثر ہم پر پڑ ہا ہے وہ کیسا ہے ہم کسی چیز کے محرک بھی بن رہے ہیں یا صرف دوسری چیزوں کے اثر کو قبول کر رہے ہیں ، کہیں پر اثر انداز بھی ہو رہے ہیں یا نہیں محض ہمارے وجود میں اثر پذیری ہے ؟۔
ملک کے بدلتے ہوئے ان حالات میں ہمیں اپنا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حالات میں ہم کس قدر ملک کے حالات کے تئیں حساس ہیں اپنی قوم کی تعمیر کو لیکر ہمارے وجود کے اندر ایک امنگ پائی جاتی ہے ۔ اگر ہم ملک و قوم کے تئیں ہمدردی رکھتے ہیں تو یقینا ملک کے سیاسی منظر نامے پر جو کچھ چل رہا ہے اس سے غافل نہیں ہونگے ۔
خاص کر جو کچھ ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں یقینا انہیں لیکر ہم نے سوچ بچار کیا ہوگا ، آپس میں بڑے بوڑھوں کے ساتھ ریش سفیدوں اور جہاں دیدہ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر حالات کا تجزیہ کیا ہوگا اگر نہیں کیا ہے تو کرنے کی ضرورت ہے۔
اس لئے کہ انتخابات بار بار نہیں آتے ، ایک بار آپ نے اپنا ووٹ ڈال دیا تو اب آپ کی طاقت بیلٹ باکس کے اندر چلی گئی وہ چاہے تو کسی کو مسند اقتدار پر پہنچا دے اگر آپ نے صحیح طور پر اسکا استعما ل کیا تو یہ بھی ممکن ہے کسی کی مسند کو اس کے پیروں سے کھینچ لے ۔
پروردگار نے یوں تو ہر انسان کے لئے کچھ مواقع رکھیں ہیں جن میں وہ اپنی زندگی کو بہتری کی طرف گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، مثلا کسی کو تجارت کے میدان می ں ایک بہترین موقع حاصل ہوتا ہے اور وہ اسی موقع کو اپنی چھلانگ کا ذریعہ بنا لیتا ہے تو کسی کو سیاسی میدان میں موقع نصیب ہوتا ہے اور وہ اسے اپنی زندگی کی بہترین اڑان میں تبدیل کر دیتا ہے جس طرح انسانوں کی انفرادی زندگی میں مواقع آتے ہیں اسی طرح انسان کی اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں بھی مواقع آتے ہیں ، انتخابات کا آنا اور الیکشن میں اپنے ووٹ کی طاقت کا استعمال یہ وہ موقع ہے جو اجتماعی تبدیلیوں کے لئے بہت اہم ہے سب نے مل جل کر اگر بصیرت کے ساتھ متحدہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال کیا اور ان لوگوں کو کرسیِ اقتدار تک پہنچایا جو ملک و آئین کے تئیں وفاداری کا جذبہ رکھتے ہیں تو یقینا اسکا اثر ملک میں دیکھنے کو ملے گا لیکن ہم نے اگر اپنی اس طاقت کا صحیح و بجا استعمال نہ کیا تو ملک کے آئین کو بھی بدلا جا سکتا ہے اور اقدار کو بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے ، جب ایک بار اقتدار کا مست ہاتھی اپنی راہ چل پڑا تو اسکا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے اس لئے جو کچھ کرنا ہے پہلے ہی کرنا ہے ، ہمارے آئین نے ہمیں کچھ حقوق دئے ہیں اب ہمارے لئے ضروری ہے کہ آئین کی بالا دستی کی خاطر کس طرح اپنے حقوق کا مطالبہ کریں کہ ہمیں اپنا حق بھی مل جائے اور ملک میں کوئی غیر آئینی قدم بھی نہ اٹھا سکے ، اما م جواد علیہ السلام جنکی ولادت کی خوشی آج کی شب ہم منائیں گے اپنی بہت ہی مختصر لیکن ایک جامع حدیث میں واضح طور پر بیان فرما رہے ہیں :" جو شخص موقع شناس نہ ہو حالات اسے اپنے چنگل میں لے لیں گے اور وہ ہلاک ہو جائے گا" ہمیں موجودہ حالات میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کہاں جارہا ہے ہم کہاں جا رہے ہیں اور فاشستی نظریات کی حامل طاقتیں ملک کو کس سمت میں لے جانا چاہتی ہیں ایسے میں ہم اس انتخابات کے موقع سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ،کچھ لوگ جب بھی انتخاب آتا ہے تو اس نظریہ پر عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمارے ووٹ دینے سے کیا فائدہ جس کو آنا ہے وہ آئے گا، لیکن اگر وہ اس بات پر غور کریں کہ ووٹ دینا ایک موقع ہے اور اگر ہم نہ دیں گے تو یہ موقع ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا ، ہر ایک اگر ہماری طرح یہی سوچ کر ووٹ نہ دے تو پھر ملک تو انہیں لوگوں کے حساب سے چلے گا جو اپنے ووٹ کو استعما ل کریں گے ، ایک ہماری ذمہ داری ہے اور ایک نتیجہ ہے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ فرمایا کرتے تھے ہم اپنی ذمہ داری کے ادار کرنے پر مامور ہیں نتیجہ کے حصول پر نہیں ، ایسے میں ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو ادا کر رہے ہیں یا نہیں لہذا اپنے حق کو استعمال کریں اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے نتیجہ کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں ۔
اب جب ہمیں اپنے حق کو استعمال کرنا ہے تو دیکھنا ہے کہ حالات کس رخ جا رہے ہیں ، موقع شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے آگے بڑھنا ہے اسکی اور اسکی باتوں میں جذباتی ہو کر کوئی قدم نہیں اٹھانا ہے وہ فیصلہ کرنا ہے جو قوم کے لئے ملک کے لئے معاشرے کے لئے بہتر ہو ، سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے دشمن ہماری طاقت کو بانٹنا چاہتا ہے لہذا ہمیں متحد ہو کر ہی فیصلہ لینا ہے اور فیصلہ ایسا لینا ہے جس میں ہمیں پچھتانا نہ پڑے ،آپ دیکھ لیں ان چند سالوں میں ملک میں غریبوں کے ساتھ کیا ہوا ہے ،اقلیتوں کے ساتھ کیا ہوا ہے ؟ ہم خود فیصلہ کریں اگر ہمیں لگتا ہے کہ سب کچھ اچھا ہے اور بہتر ہے اور ملک مسلسل بہتری کی طرف جا رہا ہے تو پھر بات ہی الگ ہے لیکن اگر ہمیں ایسا نہیں لگتا تو ہماری قومی و دینی ذمہ داری ہے کہ ملک میں تبدیلی لانے کے بارے میں سوچیں اور اجتماعی فیصلہ لیں ،اس اجتماعی فیصلے میں اس بات کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ آج تک ان جماعتوں نے ہمیں کیا دیا ہے جن کی ہم نے حمایت کی ہے ؟ پھر اسی کے مطابق آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کسی بھی ایک پارٹی کے پیچھے آنکھ بند کر کے چل دینا یہ عقل مندی نہیں ہے سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ،موقع شناس ہونے کی ضرورت ہے اس لئے کہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو پچھتاوے کے سوا ہمارے پاس اور کچھ نہیں ہوگا امام معصوم ع کا کلام ہے کہ اگر کسی نے موقع ہاتھ سے گنوا دیا اور موقع کی نزاکت کو بھانپنے میں ناکام رہا تو حالات اسے اپنے ساتھ لے اڑیں گے اور اسکا اختتام ہلاکت پر ہوگا ، لہذا موقع شناس ہونے کی ضرورت ہے ، ہمارے ملک کا آئین ہمارے لئے ریڈ لائن ہے کوئی اسے کراس کرنے کی کوشش کرے تو ہم سب کا متفقہ فیصلہ یہی ہونا چاہیے کہ ہرگز ان عناصر کو اقتدار نہ سونپا جائے جو ملک کے آئین ہی کو قبول نہیں رکھتے ، بعد کی چیزیں تو بعد کی ہیں ۔ہم اگر موقع شناس ہیں تو ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ انتخابات میں کون انسان با ضمیر ہے کون درد مند ہے کون بہادری کے ساتھ اپنی باتیں رکھ سکتا ہے کون ملک و قوم کے تئیں وفادار ہے کس کے دامن پر کریپشن کا دھبہ نہیں ہے ، جو بے داغ انسان ہو جو درد مند انسان ہو جو شجاع و بہادر اور حالات کا صحیح تجزیہ کرنے والا ہو ہم سب پر اسکی حمایت لازم ہے اب وہ کون ہوگا اس کی تشخیص کے لئے ضروری ہے آپس میں مل بیٹھ کر مختلف جوانب پر گفتگو ہو تاکہ ایک اجتماعی فیصلہ لیا جا سکے ، امید کہ ہم موقع شناسی میں اس بارغلطی نہیں کریں گے اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ لیں گے ۔