۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
مولانا نجیب الحسن

حوزہ/ جمعہ الوداع میں بیت المقدس کی آزادی کے لئے پرزور مطالبے کے ساتھ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم خود اپنے ملک پر بھی توجہ دیں کہ یہ  دوسرا فلسطین نہ بن جائے۔ 

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسیآج ہمارے ملک میں ہر طرف ہماری شناخت پر انگلی اٹھائی جا رہی ، کہیں حجاب کو نشانہ بنایاجا رہا ہے کہیں ہماری تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے تو کہیں ذبح شرعی کے اوپر سوال کھڑے کئے جا رہے ہیں کہیں مسجدوں سے ہونے والی اذانوں پر علامت سوال ہے تو کہیں بنیادی طور پر ملک سے ہماری محبت ہی پر سوال اٹھ رہے ہیں ایسے میں ماہ مبارک رمضان ہمارے لئے ایک بہترین فرصت تھی کہ ہم اپنا جائزہ ل لیتے اور دعاوں اور عبادتوں کے سایے میں اپنے اندر صبر وحلم پیدا کرتے اور معنویت و روحانیت کی طاقت کے حصول کے بعد آگے کی منصوبہ بندی کرتے یقینا ہم میں سے بعض سے اس ماہ مبارک رمضان سے بہترین توشہ معنویت حاصل کیا ہوگا ۔ ہمارے پاس اس معنوی ذخیرے کے بعد ایک بہترین موقع جمعہ الوداع کا ہے اس موقع پر ہر ایک جگہ ہی فرزندان توحید کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر مساجد میں نظر آتا ہے کیا ہی بہتر ہو کہ ہم اس جمعہ الوداع کو مسلمانوں کے ایسے عظیم اجتماع میں تبدیل کر دیں جہاں سے ملکی سطح پر واحد ایسی پالیسی کو بیان کیا جائے جس پر مسلمان پورے سال عمل کریں ، خاص کر کم از کم جمعہ الوداع کے موقع پر فلسطین کے مسئلے کو اس طرح اٹھایا جائے کہ غاصبوں کو محسوس ہو فلسطینی مزاحمت اب محض فلسطین میں نہیں بلکہ یہ مزاحمت جغرافیا و خطہ سے ماوراء ہے اور صہیونی رجیم کے ظلم و ستم کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا جمعہ الوداع میں بیت المقدس کی آزادی کے لئے پرزور مطالبے کے ساتھ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم خود اپنے ملک پر بھی توجہ دیں کہ یہ دوسرا فلسطین نہ بن جائے

تیزی سے بدلتے حالات میں ہم کیا کریں :
حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے ہر مشکل دور تدبیر کے ذریعہ سے تحمل کے ذریعہ گزر جاتا ہے یہ دور بھی گزر جائے گا لیکن جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ ہم اپنے دین کے بتائے اصولوں پر چلتے ہوئے ایک اچھے معاشرے کی تعمیر کی طرف قدم بڑھائیں بالکل بالکل اسی طرح جس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سخت ترین حالات میں بھی معاشرے کی تعمیر کی طرف ایسے بے نظیر قدم اٹھائے جن سے دنیا آج بھی ضیا حاصل کر رہی ہے ، آپ شعب ابی طالب میں رہے بھوکے پیاسے رہے پیٹ پر پتھر باندھے آپکو اپنے ہی دیار سے دربدر کیا گیا آپ نے ہجرت کی لیکن اپنے اصولوں سے سودا نہیں کیا ہمارے ساتھ وہ سب تو نہیں ہو رہا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہوا آپکے ساتھیوں کے ساتھ ہوا ابتدائی دور کے مسلمانوں کے ساتھ ہوا لہذا ہم سب کو فردی مفادات سے اوپر ہو کر اجتماعی مسائل کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے شک نہیں کہ جہاں ہم ماہ مبارک رمضان کے باقی ماندہ انگلیوں پر گنے جانے والے چند ایک دنوں میں اب بھی ہم اپنے فردی رشد و کمال کی راہوں کو طے کر سکتے ہیں وہیں پورے معاشرے کو بھی کمال کی اعلی منزلوں تک پہنچا سکتے ہیں اس لئے کہ فرد فرد سے ہی مل کر ایک معاشرہ بنتا ہے ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے معاشرے کو اگر باکمال بنانا ہے تو اجتماعی طور پر ان مسائل پر بھی توجہ کریں جنکا تعلق ہم سب سے ہے ۔
معاشرہ چھوٹے چھوٹے گھروں کی ندیوں کی صورت ایک امت وحدہ کے سمندر تک پہنچتا ہے گو کہ چھوٹی چھوٹی ندیاں ہیں چھوٹے چھوٹے چشمے ہیں جو ایک عظیم امت کی سمندر کی طرف رواں ہیں ایسے میں اگر ان ندیوں کا پانی آلودہ ہوگا ان ندیوں کا پانی زہریلا ہوگا تو یہ توقع رکھنا بے جا ہے کہ سمندر کا پانی صاف ستھرا ہوگا سمندر کے پانی کا ایک حصہ انہیں انہیں ندیوں سے انہیں نہروں سے انہیں جھیلوں سےجڑا ہوا ہے جو مختلف گھرانوں کی صورت ،مدرسوں کی صورت اسکولوں کی صورت ثقافتی مراکز کی صورت یونیورسٹیوں کی صورت دیہاتوں ،قصبوں اور شہروں کی صورت ایک دوسرے سے جڑےہوئے ہیں اور معاشرے کا حصہ ہیں جس طرح ایک گھر کے اندر مشکلات ہیں آپسی لڑائی جھگڑے ہیں تو وہ کبھی معاشرے کی ترقی میں حصہ نہیں لے سکتا یا اس کی حصہ داری ہوگی بھی تو اتنی نہیں جوقابل ملاحظہ ہو اسی طرح اسکولوں اور دیگر مراکز کی بات بھی ہے ، وہی مسجد معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے جس کی میناروں سے بالکل اذان کی طرح ایک ہی صدا ہو جو کمال و رشد کی طرف بلا رہی ہو لیکن مسجد میں اگر ٹرسٹ کے جھگڑے ہوں من و تو کی لڑائی ہو شہرت طلبی کا اڈہ ہو، اپنے وجود کے اظہار کا ذریعہ بن جائے ہر ایک اپنے اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے اسے استعمال کرے تو ظاہر ہے کیا ہوگا ایسے میں ایک ساتھ ظاہری جماعت کا منظر تو ہوگا لیکن روحانی طور پر سب ایک دوسرے سے الگ ہوں گے معنوی طور پر ایک مسجد میں رہتے ہوئے بھی جب ہم سب ایک نہ ہوں گے تو ایک مسجد تو ہوگی لیکن اس کے اندر سب کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں الگ الگ ہوں گی ایسے میں ہم امت کو کیا دیں گے ملک کو کیا دیں گے سماج کو کیا دیں گے ؟
اسلام نے اسی لئے اجتماع پر زور دیا ہے کہ اگر ہم سب بالکل معاشرے کے بارے میں سوچیں تو صرف اپنے ذاتی فائدے کی خاطر معاشرے کا خون نہیں کریں گے بلکہ اگر کہیں ذاتی فائدہ ہو بھی رہا ہے تو ہم دیکھیں گے ہمارا یہ فائدہ سماج و معاشرے کی بھلائی کا سبب ہے یا پھر معاشرے کی تباہی کا اگر معاشرے میں مشکلات کا سبب ہوگا تو ہم اس فائدے سے دستبردار ہو جائیں گے جس کا تعلق ہماری ذات سے ہے ۔
یہ خود اپنے آپ میں بڑی بات ہے کہ ہم اجتماعی مسائل کی خاطر اپنے مفادات کو چھوڑ کر آگے بڑھیں آپ خود ملاحظہ کریں کہ جو لوگ بعض سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہیں اور اس وابستگی میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہیں دینی اصولوں کا بھی پاس و لحاظ نہیں رہا کیا وہ سماج کے بارےمیں سوچ رہے ہیں یا وہ معاشرے کو لیکر پریشان ہیں کیا وہ معاشرے کے سلسلہ سے فکر مند ہیں ہرگز نہیں اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ اس طرح سے سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہوتے امت مسلمہ کے دامن پر داغ نہ بنتے لیکن انہوں نے سوچا کہ فی الحال تو ہمارا فائدہ ہو رہا ہے ہمیں کرسی مل رہی ہے ہمیں پوچھا جا رہا ہے اپنا کام تو چل ہی رہا ہے معاشرے سے ہمیں کیا لینا دینا جسکا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں ، یہی وہ چیز ہے جو ذاتی و فردی غلطیوں کی بنا پر معاشرے کے کھوکھلے ہو جانے کا سبب بنتی ہے ۔
آپ اسی حجاب کے مسئلے کو لے لیں کس طرح حجاب کو لیکر جو تنازعہ سامنے آیا وہ سب کے پیش نظر ہے ایسے میں جہاں ہماری کچھ دلیر و نڈر خواتین نے اسلامی اصولوں کا کسی بھی حالت میں رتی برابر سودا نہیں کیا اور وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں کہ جس حق کو آئین تسلیم کرتا ہے جس حق کو مختلف تہذیبوں کے حامل ملک میں قانونی جانا گیا ہے ہم کچھ بہروپیوں کی جانب سے نفرتوں کا تانڈو کرنے والوں کی بنیاد پراس حق سے کیسے دستبردار ہو جائیں ،ہمارا سلام ہو ان خواتین پر جنہوں نے تعلیمی میدان میں نمایاں کارکردگی دکھائی سنہرے تمغے جیتے لیکن اپنی شناخت سے اپنی پہچان سے دستبردار نہ ہوئیں ،سولہ سنہرے تمغے جیتےنے والی وہ ہماری بچی ہم سب کے لئے نمونے ہے جس نے حجاب میں رہتے ہوئے اتنی بڑی کامیابی حاصل کی اور یہ بات لوگوں پر واضح کر دی کہ حجاب ہماری ترقی میں رکاوٹ نہیں بلکہ معاون ہے ۔ لیکن افسوس جہاں ایسی عزم مصمم رکھنے والی خواتین ہیں وہیں کچھ ایسی بھی ہیں جنہیں آپ نے اور ہم نے مختلف ٹی وی ڈبیٹس پر دیکھا ہوگا جنہیں مختلف چینل والے اسی لئے سجا کر لاتے ہیں اوراسی لئے انکے ٹی وی اسکرین پر بازار لگتے ہیں کہ دیکھو ہم کس طرح ضمیر فروشی کر رہے ہیں نہ ہمیں اپنے دین کا پتہ ہے نہ اپنی تہذیب سے ہم واقف ہیں بس اور نہ اس بات سے ہمیں کیسے دشمن استعمال کر رہا ہے ۔
اب یہاں پر ہمارے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو ترک کیا جائے ایسے لوگوں کے ساتھ تعلقات کو ختم کیا جائے جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر صرف اس خاطر کہ تھوڑی سی سستی شہرت مل جائے گی ٹی پر نظر آ جائیں گے ایسکا کام کرتے ہیں کہ اللہ کی نظروں سے گر جائیں ، یقینا جو اللہ کی نظروں سے گر گیا اگر اسے معاشرہ اپنی نظروں سے نہیں گراے گا تو عذاب الہی میں گرفتار ہوگا ۔
یہ تمام باتیں قابل غور ہیں اسی کے ساتھ جمعہ الوداع میں مسئلہ قدس کو عالمگیریت کے ساتھ پیش کرنا بھی ہماری ایک دینی و ایمانی ذمہ داری ہے امید ہے کہ اس بار کی نماز جمعہ کے بعد ہم الگ ہی انداز میں بیت المقدس کی آزادی کے سلسلہ سے احتجاج کریں گے اور اپنے مظلوم فلسیطینی بھائیوں کے ساتھ اس طرح اظہار یکجہتی کریں گے کہ انہیں بھی یقین ہو جائے حق کی راہ میں وہ تنہا نہیں ہیں انکے ساتھ ایک پوری امت ہے جسے امت وحدہ کہا جاتا ہے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .