۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
News ID: 375523
22 دسمبر 2021 - 11:49
مولانا نجیب الحسن

حوزہ/ جب کسی کے مقدسات کی توہین ہوتی ہے تو دل زخمی ہوتا ہے اور جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے لیکن ہمارے پیش نظر امیر المومنین علیہ السلام کا کردار  ہونا  چاہیے جس میں آپ نے اپنے دشمن سے مقابلہ تو ضرور کیا ہے اسکا جواب تو ضرور دیا ہے لیکن اسکی اہانت ہرگز نہیں کی ہے۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی حق کا رنگ اتنا ثابت و پائدار ہے کہ ساری دنیا مل کر بھی چاہے تو اسے ہلکا نہیں کر سکتی ، حق کے وجود میں اتنی طاقت ہے کہ کسی ایک حق پرست کے سامنے پورا جہان باطل کھڑا ہو جائے تو بھی اسکا کچھ بگاڑ نہیں سکتا ، حق ہمیشہ پایدار ہے حق ہمیشہ لازوال ہے حق ہمیشہ اپنی جگہ اٹل ہے باطل ہی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے حق تو اپنی جگہ ہمیشہ مطمئن و پائدار رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب باطل حق کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہو جاتا ہے تو اہانتوں پر اتر آتا ہے ، تاریخ گوا ہ ہے کہ جب سے اسلام کے آفاقی تعلیمات کا نزول ہوا ہے، تبھی سے اہریمنی طاقتوں کی جانب سے ان کی مخالفت شروع ہو گئی اور اسلامی مقدسات کے مذاق اور انکی توہین کا بازار گرم ہو گیاجس کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور مقدسات کی اہانت کے واقعات سے تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔

گزشتہ صدیوں میں عمومی سطح پر اس اہانت یا کسی معتبر و مقدس شخصیت کے مذاق کی علت کو ممکن ہے اسلامی شخصیات اور مقدسات کے تقدس اور احترام سے اقوام و ملل کی نا آگاہی کے طور پر بیان کیا جائے لیکن ایک نقطہ میں سمٹتی ہوئی دنیا میں شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جو نہ جانتا ہو کہ کس مذہب کے ماننے والوں کے لئے کیا چیز مقدس اور کیا ان کی نظروں میں محترم ہے ؟ جس دور میں ایک منٹ کے ہزارویں حصے میں اربوں،کھربوں اطلاعات کے ذخائر برقی لہروں کے ذریعے دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں منتقل ہوجاتے ہیں، اس دور میں کیونکر کسی مذہب کے مقدسات کی بے حرمتی کرنے کے بعد یہ عذر تراشا جا سکتا ہے کہ ہمیں اپنے اس اقدام سے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ہماری وجہ سے کسی کے دل آزاری بھی ہو سکتی ہے ؟ کیا موجودہ شگفت انگیز ارسال و ترسیل اور ذرائع ابلاغ کے ترقی یافتہ نظام کے باوجود یہ ممکن ہے کہ انجانے میں کوئی ایسا اقدام کیا جائے جس سے کسی مذہب یا خاص فرقے کے ماننے والوں کے جذبات مجروح ہوں؟!۔ جب الکٹرانک میڈیا اور جدید ارسال و ترسیل کے وسائل نے دنیا کو ایک چھوٹا سادیہات بنا دیا ہے ، ایسی صورت میں یہ احتمال نقطۂ صفر پر پہنچ جاتا ہے کہ انجانے میں اسلام کی عظیم ترین کتاب یا شخصیت کی اہانت کی جائے اور اہانت کرنے والے افراد کو پتہ ہی نہ ہو کہ جو کام وہ کر رہے ہیں وہ اہانت کے زمرے میں آسکتا ہے۔

یقینا آج کے ترقی یافتہ دور میں انسان کسی بھی معروف شخصیت کے بارے میں کچھ کہہ رہا ہے یا کچھ لکھ رہا ہے تو خوب اچھی طرح یہ جانتا ہے کہ وہ شخصیت کن صفات کی حامل ہے اور الٰہی مکاتب فکر کی نظر میں اس کا مقام کیا ہے۔

امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی توہین اور ہمارا رد عمل :
حال ہی میں حیدرآباد کے نام نہاد بظاہر خود کو مسلمان کہنے والے بوالہوس کی جانب سے جو گستاخی امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی شان اطہر میں ہوئی اسکے بعد سے لیکر اب تک دوست داران اہلبیت اطہار علیھم السلام کے درمیان جو ناراضگی کی لہر پائی جا رہی ہے عاشقان اہلبیت (ع) کی اپنے عقائد کے سلسلہ سے حساسیت کی دلیل ہے یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ علماء و دانشور طبقے کے ساتھ عوام کے ہر ایک دھڑے نے اس گستاخی پر نوٹس لیا اور ایف آئی آر سے لیکر احتجاج و مذمت تک جو ہو سکا سب نے کیا ، لائق صد تحسین و آفرین ہیں وہ لوگ جو اس وقت تک احتجاج کرتے رہے جب تک مجرم نے اعتراف جرم کرتے ہوئے اپنی خطا کو تسلیم نہ کر لیا لیکن یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ کیا یہ اہانت حادثاتی ہے یا ملک کے حالات کے پیش نظر بہتی گنگا میں اسلام دشمن عناصر نے ہاتھ دھونے کی کوشش کی ہے اور سب کچھ منصوبہ بند طریقے سے ہو رہا ہے ۔

کیا حالیہ اہانت ایک حادثاتی واقعہ ہے ؟
جیسے حالات ملک میں چل رہے ہیں اور جو فضا فرزندان توحید کے لئے بنائی جا رہی ہے اسکو دیکھتے ہوئے اس اہانت کو قطعا حادثاتی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اچانک ایک خبط الحواس شخص نے کچھ کہہ دیا ہو بلکہ جو کچھ ملک میں حالات چل رہے ہیں ان حالات کے مد نظر یہ قرین قیاس ہے کہ دانستہ طور پر اس اہانت کے سلسلہ کو رکھا گیا ہے تاکہ وقتا فوقتا اسلامی مقدسات کی اہانت کر کے ایک خاص مذہب کے لوگوں کو مشتعل کیا جائے اور پھر انکے احتجاج کو ملک کی سالمیت کے لئے خطرے کے طور پر پیش کیا جائے الحمد للہ ہمارے جوان بیدار ہیں اور انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ سازشی ذہنوں کے مقاصد پورے ہو سکیں چاہے اپنے ارتداد کا اعلان کرنے والا کوئی انسان نما جانور ہو ہو یا اپنے واضح انحراف کا اعلان کرنے والا مسلمان نما قاطر اس طرح کے افراد دشمنوں کے ہاتھوں کا مہرہ ہیں جنہیں دشمن اپنے مفاد کے لئے استعما ل کرتا ہے اور جب تک کام چلتا ہے ان سے کام چلاتا ہے جب کام نکل جائے گا دودھ کی مکھی کی طرح انہیں نکال کر باہر پھینک دیا جائے گا ۔

اس طرح کی حرکتوں پر ہم کیا کریں ؟
یہاں پر جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم مختلف حوادث کا تجزیہ کر سکیں سمجھ سکیں کہ کیا ہو رہا ہے اس کے محرکات کیا ہیں ان کے پیچھے کون سے لوگ ہیں ؟ چاہےحالیہ اپنے ارتداد کا اعلان کرنے والے کا معاملہ ہو یا انحراف کے گٹر میں چھلانگ لگانے والے بہروپیے کا، اس بات کو کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں دونوں ہی دنیا پرست اور سستی شہرت کے بھوکے ہیں دونوں ہی اہانت مقدسات کے لئے دشمنان اسلام کا بہترین مہرہ ہیں ایک نے قرآن کی توہین کی رسول رحمت کی شان میں گستاخی کر کے اپنے ارتداد کا اعلان کیا تو دوسرے نے قرآن ناطق کی توہین کر کے اپنی جہالت و اپنے انحراف کا اعلان کیا دونوں کے پیچھے ایک جیسے ہی عوامل کار فرما ہیں جن میں سب سے بڑا عامل جہالت و حماقت ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے ، چنانچہ جس طرح امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلہ سے حدیث سے غلط مفہوم اخذ کرتے ہوئے غلط ترجمہ کر کے لوگوں کے ذہنوں میں تشویش پیدا کرنے کی کوشش کی گئی سب پر واضح ہے اور خاص کر بار بار ایک مرتد شخص کو ایک خاص مذہب سے جوڑنے کی کوشش یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یہاں بات نہ سمجھ پانے کا مسئلہ نہیں ہے کہ عدم درک کی وجہ سے مشکل پیش آئی ہو بلکہ بات یہ ہے کہ خاص طور پر ایک فرقے کو دوسرے کے خلاف اکسانا مقصود تھا اسی لئے بار بار قرآن کریم و رسول رحمت کی اہانت کرنے والے شخص کو شیعہ کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا جبکہ واضح ہے کہ تیاگی ملعون کا نہ اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ ہی شیعت سے کوئی واسطہ ہے ۔

جو بات قابل غور ہے وہ یہ کہ دونوں ہی اہانت کرنے والوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے اور علماء و دانشور طبقے کے ساتھ عوام نے دونوں ہی کو مسترد کرتے ہوئے دین حق سے اپنی قلبی وابستگی کا واضح طور پر اعلان کیا ہے یہ اور بات ہے کہ حدیث کو غلط انداز میں پیش کرنے کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو وقتی تشویش ضرور ہوئی کہ ہماری کتابوں میں کس قسم کی روایات ہیں جسے علماء نے علمی جواب دیکر کافی حد تک حل کر دیا ممکن ہے کچھ لوگوں کے ذہن میں اب بھی کچھ شبہات ہوں تو علماء حق کی جانب سے دئیے گئے جوابات کو بہت ہی مختصر انداز میں ہم ایک بار پھر پیش کر رہے ہیں۔

پیش کی گئی حدیث کا جواب :
حیدرآباد کے رہنے والے نام نہاد اصلاح پسند سنت پیغمبر کے ٹھیکدار مسلمان نے امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلہ سے جو حدیث پیش کی وہ مکمل کچھ یوں تھی :
امام رضاعلیہ السلام فرماتے ہیں : یقینا صماء صیلم کا فتنہ اٹھے گا جس میں چالاک اور محتاط رہنے والے بھی گرفتار ہوں گے اور یہ تب ہوگا جب ہمارے فرزند وں میں سے شیعہ تیسرے کو کھو دیں گے ، اس وقت اہل آسمان و زمین اس پر گریہ کریں گے کتنے ایسے مومن ہوں گے { صاف اور زلال پانی }جو ماء معین سے تشنہ رہیں گے اور حیران و پریشان افسوس کی حالت میں ہوں گے گویا میں انہیں اس خاص کیفیت میں دیکھ رہا ہوں یقینا وہ آواز دیں گے ندا دیں گے اور یہ آواز دور تک کے لوگ بھی سنیں گے جس طرح نزدیک کے لوگ سنیں گے یہ آواز اہل ایمان کے لئے رحمت کا سبب ہوگی اور کافروں کے لئے باعث عذاب ہوگی حسن بن محبوب نے سوال کیا یہ آواز کیسی ہوگی ؟ آپ نے فرمایا: ماہ رجب میں آسمان سے تین آوازیں بلند ہوں گے پہلی آواز یہ ہوگی اللہ کی لعنت ہے ظالموں کے اوپر دوسری آواز میں کہا جائے گا ائے اہل ایمان محشر کا دن نزدیک ہے ، تیسری آواز میں سورج کی سمت سے واضح طور پر ایک ایک شخص کو لوگ دیکھیں گے جو کہہ رہا ہے " یہ امیر المومنین ہے جو ظالموں پر حملہ کے لئے تیار ہے حمیری کی روایت میں ہے کہ تیسری آواز میں سورج کے نزدیک واضح شکل و شمائل کو لوگ دیکھیں گے جو کہے گا ، خدا نے فلاں کو بھیجا ہے اسکی باتوں کو سنو اور اسکی پیروی کرو دونوں راوی کہتے ہیں یہی وہ موقع ہوگا جب لوگوں کی آزادی حاصل ہوگی اور جو لوگ اس دنیا سے گزر گئے ہیں انکی آرزو بھی یہی ہوگی کہ کاش اس وقت با حیات ہوتے خد اہل ایمان کے دلوں کو { ا س طرح } شفا عطا کرے گا ۔

اسی قسم کی ایک اور روایت بھی ہے جس میں اسی مفہوم کو دوسرے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے لیکن بدن کے ساتھ بارزا کی قید یہاں نہیں ہے ۔

جو کچھ بھی معترض نے پیش کیا ہے وہ عربی متون سے نا آشنائی کی دلیل بالکل واضح ہے کہ روایت اس بات کو بیان کر رہی ہے کہ جب امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف تشریف لائیں گے تو ڈھکے چھپے انداز میں نہیں آئیں گے بالکل واضح طور پر اس طرح آئیں گے کہ سب انہیں دیکھ سکیں اسی طرح جو ندا بلند ہوگی وہ بھی اس طرح ہوگی کہ دور و نزدیک کے لوگ سن سکیں۔

اگر ہم حدیث پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ جن عربی کلمات کا مطلب معترض نے یہ نکالا ہے کہ شیعوں کے امام برہنہ ظہور کریں گے وہ بالکل واضح ہیں ترجمہ غلط کیا گیا ہے عربی کا لفظ جو استعمال ہوا ہے وہ لفظ بارز ہے جس کے معنی واضح اور روشن کے ہیں چنانچہ روایت میں کہا گیا ہے " يَرَوْنَ بَدَناً بَارِزاً" اسکا مطلب ہرگز برہنہ نہیں ہوتا ہے اسی لئے لغت میں بارز کو برز سے بیان گیا گیا ہے جسکا مطلب آشکار و واضح ہونا ہے یہاں پر ظہور کی کیفیت کو بیان کیا جا رہا ہے کہ ظہور اتنا واضح ہوگا جس سے پہلے کسی نے ایسے نہیں دیکھا ہوگا یہاں بارز ہونا باطن کے مقابل پر ظاہر ہونا نہیں ہے بلکہ ایک ایسے ظہور کو بیان کیا جا رہا ہے جو اس سے پہلے نہیں ہوا ہے چونکہ بدنا بارزا ایک طاقت ور شخص کے واضح وجود کی طرف بھی اشارہ کی صورت استعمال ہوتا ہے ہماری اس بات کی دلیل قرآن کریم کی وہ آیات ہیں جن میں یہی لفظ استعمال ہوا ہے لیکن برہنہ ہونے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ واضح اور آشکار ہونے کے بارے میں ہے مثلا سورہ غافر کی سولویں نمبر کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

جس دن سب نکل کر سامنے آجائیں گے اور خدا پر کوئی بات مخفی نہیں رہ جائے گی - آج کس کا ملک ہے بس خدائے واحد و قہار کا ملک ہے اس آیت میں جیسا کہ واضح ہے بارز جمع کی صورت میں آیا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے سب کھل کر رب کے سامنے ہوں گے اگر کوئی کچھ چھپانا بھی چاہے گا تو نہیں چھپا سکے گا ؟

اسی طرح دوسری آیت میں یہی لفظ بارز اس طرح آیا ہے :
جب ہم پہاڑوں کو حرکت میں لائیں گے اور تم زمین کو بالکل کھلا ہوا دیکھو گے اور ہم سب کو اس طرح جمع کریں گے کہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے یہاں پر بھی لفظ بارز واضح اور کھلے کے معنی میں ہے یہ آیت واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ زمین کی پستی و اونچائی ختم ہو جائے گی اور اس پر کسی کا بس نہ ہوگا کوئی زمین پر اپنا حکم نافذ نہیں کر سکے گا اس لئے کہ پہاڑوں کو بھی حرکت ہوگی جسکی وجہ سے سب کچھ بالکل عیاں و واضح ہوگا۔

اب اگر کوئی اسکا مفہوم یہ نکالے کہ زمین اللہ کے حضور برہنہ ہوگی سب اللہ کے حضور برہنہ ہوں گے تو کیا یہ حماقت نہیں ہے ؟ ، بہر کیف ہم نے بہت مختصر طور پر اس بات کی تا حد امکان وضاحت کر دی انشاء اللہ اگر کسی کے ذہن میں کوئی شبہہ ہو تو اب دور ہو گیا ہوگا ۔

قابل غور بات :

جیسا کہ واضح ہے غلط ترجمے کی بنیاد پر اتنا بڑا انتشار پیدا ہوا جوانوں کے درمیان غصے و برہمی کی لہر دوڑ گئی ،ہر ایک نے اپنے اپنے اعتبار سے جو بن پڑا اس اقدام کی مخالفت میں کیا لیکن ہم سب کو اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کسی ایک فرد کی ایک مجرمانہ فکر کو ہرگز پورے فرقے کے سر نہ منڈھا جائے کسی ایک فرد کی غلطی کو اسکے مکتب سے جوڑ کر دیکھنا غلط ہے کیونکہ بہت سے علماء اہلسنت ایسے ہیں جنکی نظر میں امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی شخصیت اسی طرح معتبر و مقدس ہے جس طرح ہمارے یہاں ہے ۔ یقینا جب کسی کے مقدسات کی توہین ہوتی ہے تو دل زخمی ہوتا ہے اور جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے لیکن ہمارے پیش نظر امیر المومنین علیہ السلام کا کردار ہونا چاہیے جس میں آپ نے اپنے دشمن سے مقابلہ تو ضرور کیا ہے اسکا جواب تو ضرور دیا ہے لیکن اسکی اہانت ہرگز نہیں کی ہے ، جنگ خندق کا واقعہ گواہ ہے کہ علی (ع) کس عظیم شخصیت کا نام ہے جو دشمن کی اہانت کا جواب دینا چاہتا ہے تو اپنے دشمن کے دانت توڑ کر آنکھیں پھوڑ کر زبان کاٹ کر اس منھ میں خاک بھر کر دے سکتا ہے جس نے ملعون نے مولا پر لعاب دہن ڈالا لیکن علی ع کی ذات اس سے کہیں بلند ہے کہ اپنی اہانت کا بدلہ اس دشمن سے لے جسے اپنے قوت بازو سے زیر کر سکتاہو ، علی (ع) کے عمل نے واضح کیا میرا سجدہ بھی رب کے لئے ہے میری جنگ میں مالک کی اطاعت و بندگی کی خاطر ہے ، میں مصلے پپر ہوں یا جنگ میں میرے پیش نظر میری ذات نہیں رہتی بلکہ خدا رہتا ہے اور یہی چیز ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم اپنی فکر کو اپنے کردار کو ویسا بنائیں کہ علی (ع) دیکھیں تو مسکرا دیں ، یعنی اپنے دشمن کا جواب دیں تو بھر پور اس انداز میں جیسے ذوالفقار فرق دشمن پر برق بنکے چلتی ہے ، لیکن اپنے دامن شرافت پر کوئی داغ نہ آنے دیں ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .