۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 359287
28 دسمبر 2019 - 10:29
نجیب

حوزہ/ملک کے موجودہ بحرانی حالات میں ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا حقیقی دشمن کون ہے؟ اپنے پرائے کی پرکھ اور دشمن و دوست کے درمیان کی اگر حد بندی نہ ہو تو معاملات الجھتےجاتے ہیں اور اسکا سیدھا فائدہ دشمن کو پہنچتا ہے۔

حوزه نیوز ایجنسی| اگر کسی نے قوم کے ساتھ خیانت کی ہے اور وہ نہیں کیا جو کرنا چاہئیے تھا بلکہ دشمن کےخیمے کی مضبوطی کا سبب بنا تو اس سے بعد میں نبٹا جا سکتا ہے لیکن پہلے حقیقی دشمن سے مقابلہ کرنا ہوگا اور اگر ہم اپنوں ہی سے الجھے رہے تو دشمن کو اس سے فائدہ ہوگا  شک نہیں کہ اپنے نام و نمود کی خاطر قوم کو بیچ دینے والے اور قومی مفادات کا خیال نہ کرتے ہوئے ذاتی مفاد کے لئے قومی سرمایہ کو برباد کرنے والے قطعا اس لائق نہیں کہ ان پر بھروسہ کیا جائے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ہماری ترجیح دشمن سے مقابلہ ہونا چاہئیے اپنوں سے نہیں* ۔میدان کارزار میں جہاں دشمن ہر طرح کے اسلحوں سے لیس ہم پر یلغار کر رہا ہے اگر ہماری نظر اپنی ہی صف میں کسی اپنے ہی ایسے  فرد پر پڑی  جس نے کچھ غلطیاں کی ہوں اور ہم اپنے اسلٙحوں کا رخ اسکی طرف کر لیں تو ہمارا یہ قدم  دونوں ہی کی تباہی کا سبب ہوگا ۔
ہماری فکر کا مخالف ہمارا دشمن نہیں ہے۔
ہر فکر و نظریے  کی مخالفت میں عام طور دو طرح کے لوگ سامنے آتے ہیں :
۱۔ کچھ اس نظریئے کے واضح طور پر مخالف ہوتے ہیں اور سر عام اس کی مخالفت کا اعلان کرتے ہیں اور اسے تسلیم نہیں کرتے اگر یہ تسلیم نہ کرنا محض اس لئے ہو کہ انہیں نظریئے میں کچھ لوچ نظر آتی ہے اور ان کے لئے یہ نظریہ واضح دلیلوں کے بنیاد پر قابل قبول نہیں ہوتا اور ان کی مخالفت مبنایی اور اصولی ہوتی ہے تو اسے مخالف کہا جاتا ہے ۔
٢- جب یہی مخالفت بغیر کسی مبنیٰ کے عناد کی بنیا د پر ہو تو اسے دشمن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
موجودہ شرائط میں کچھ افراد شہریت کے ترمیمی بل کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ملک کا دشمن کہہ رہے ہیں جبکہ قطعا ایسا نہیں ہے یہ مخالفت تو ملک و آئین سے انکی محبت کی دلیل ہے وہ تو اس لئے کھل کر مخالفت کر رہے ہیں کہ اسے ملک کے آئین کی روح کے خلاف سمجھتے ہیں 
اسی چیز کو قومی دائرے میں بیان کیا جائے تو معاملہ کچھ یوں ہوگا کسی پارٹی سے جان بوجھ کر قوم کو نقصان پہنچانے کے لئے اگر کوئی جڑا ہوا ہے اور اسے اپنی ہی فکر ہے قوم کو لیکر بے تفاوت ہے تو یہ یقینا دشمن کے جرگے کا ہی ایک فرد ہے اس کے لئے قطعا کوئی نرم گوشہ نہیں رہنا چاہئیے۔ *لیکن اگر معاملہ کچھ یوں ہو کہ کوئی قومی معاملات کو سدھارنے کے لئیے کسی غلط راستے پر چل پڑا یا دشمن کی سازش کا شکار ہو گیا جبکہ پیشتر اس نے قوم کے لئے بہت کچھ قربانیاں دی تھیں تو ایسا شخص نہ صرف لائق نفرت نہیں ہے قابل رحم ہے اور کوشش کرنا چاہئیے کہ دشمن کی گرفت سے اسے نکالا جائے۔
واضح ہے جب بھی کسی چیز کی مخالفت ہوتی ہے کبھی آشکار ہوتی ہے کبھی پس پردہ  مخالفت کا بالکل واضح و آشکار ہونا واضح دشمنی کی دلیل ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان عناد بھی رکھتا ہے اور مخالف بھی ہوتا ہے مخالفت بھی کوئی مبنائی نہیں ہوتی بےمبنیٰ مخالفت اسے عناد کی آگ میں جلاتی ہے اور وہ اسے دل میں رکھتا ہے اپنے اہداف و مقاصد تک پہنچنے کے لئے *منافقت* کا سہارا لیتا ہے اس کا سارا ہم و غم یہ رہتا ہے کہ ابھی حالات سازگار نہیں ہیں جیسے ہی سازگار ہوں گے ہم اپنا کام کرلیں گے لہذا ایسے مخالفین کبھی کھل کر میدان میں نہیں آتے پس پردہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔
انہیں پوشیدہ دشمن کہا جاتا ہے یہ دشمن واضح اور آشکار دشمن سے بہت خطرناک ہوتا ہے اتنا خطرناک کہ آستین تک در آتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو آستین سے سرسرا کر کسی دوسری کی آستین میں پہنچ جاتا ہے جبکہ صاحب آستین کا کام تمام ہو چکا ہوتا ہے لہذا ضروری ہے ہم دشمن کو پہچانیں تاکہ نہ سامنے سے حملہ کرنے والے کو موقع دیں نہ چھپ کر حملہ کرنے والے کو حملہ کرنے کی فرصت نصیب ہو سکے۔
دشمن شناسی کی اہم بنیاد:
دشمن شناسی کے پہلے مرحلے میں ضروری ہے کہ انسان اپنے فکری خطوط کو معین کرے اپنے ہدف کی تعیین کرے اپنے اقدار واغراض کو پہچانے اور دوست و دشمن کا ایک جامع معیار بنائے تاکہ اس کے مطابق دوست و دشمن میں تمیز کر سکے اور اس سلسلے میں وہم و مغالطہ کا شکار نہ ہو لہذا ایسی تعریف ضروری ہے جو تمام افراد پر مشتمل ہو اور جو دشمن نہ ہو اس میں شامل نہ ہو، علماء کے بقول جامع و مانع ہو۔( ١)
جب دشمن کی بات آتی ہے اور ہم اس کی تعریف تلاش کرتے ہیں تو ہمیں مشکل کا سامنا یقینی ہے اس لئے کہ *اگر ملاک و معیار ہماری دنیا بن گئی یا دنیا کی کوئی بھی ایسی چیز جس کا حصول ہمارا مقصد ہے تو جو بھی اس کے لئے رکاوٹ ہوگا وہ ہمارا دشمن ٹہرے گا جبکہ واضح سی بات ہے دشمنی کا یہ معیار ثابت نہیں ہے اور دنیا کے مفادات کے ساتھ بدلتا رہے گا* ایسے میں ممکن ہے دنیا کے حصول میں ہم آنکھ کان بند کر کے لگ جائیں اور آخرت کو بھلا دیں اور *ہمارا کوئی دوست دنیا طلبی کی راہ میں ہمارا مانع ہو تو وہ ہماری نظر میں دشمن بن جائے، جبکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو وہ ہمارا دشمن ہرگز نہیں بلکہ ہمارا بہی خواہ ہے*۔ اب ایسے میں سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ حقیقت میں دشمن ہوتا کون ہے تاکہ اس کے معنی کے روشنی میں ہم اس کی بجا تطبیق کر سکیں ۔
دشمن کے لغوی و اصطلاحی معنی:
عدو، مادہ عدو، عداء  تجاوز کرنے کے معنی میں ہے (٢) اسی لئے دشمنی کو اعدی علیہ، یعنی اس پر تجاوز کیا کے طور پر پیش کیا گیا (٣) تجاوز کرنا اور حد سے گذر جانے کو ظلم کے معنی میں بھی بیان کیا گیا۔ (۴)
دشمن کے اصطلاحی معنی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: عدو یعنی دشمن، وہ دشمن جو دل میں بغض رکھتا ہے اور اسی بغض کے مطابق عمل انجام دیتا ہے (۵) اسی لئے بغض رکھتے ہوئے انسان کسی کو گرانے کے لئے زور لگائے اور دل میں پائی جانے والی نفرت کے مطابق کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے کچھ کرے تو اسے عداوت کہتے ہیں:
دشمن کی لغوی و اصطلاحی تعریف کے بعد اب ہمیں اس کی قسموں کو بھی دیکھنا ہوگا:
دشمنی دو طرح کی ہو سکتی ہے: ایک وہ جس کے اندر نفرت و دشمنی کی آگ جل رہی ہو جیسے کسی کو قتل کر دیا گیا ہو اور اس کے وارث انتقام کے در پہ ہوں جس کی طرف قرآن میں بھی اشارہ ہے۔ (٦)
دوسرا وہ جہاں انسان کسی چیز سے ناراض ہے اور کسی پر غضباک ہے جیسے جناب ابراہیم ع کی کیفیت بتوں کے سلسلے سے تھی کہ آپ انہیں دشمن تعبیر کرتے ہیں جبکہ وہ بے جان تھے اور آپ کو کوئی نقصان بھی پہچاننے والے نہیں تھے لیکن آپ انہیں اس لئے دشمن قرار دیتے ہیں (٧) کہ آپ کی اذیت کا سبب تھے اور کافر انہیں خدا مانتے تھے اور یہ بت کفر و شرک کی علامت تھے ۔
اب اگر کہیں قوم کا کوئی لیڈر و رہنما کسی مقام پر بت صفت بن جائے بہرا گونگا ہو جائے اسے کسی بات سے مطلب نہ ہو تو یہ فرد اس لائق ہے کہ لوگ اس سے اظہار بیزاری کریں لیکن اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم قطعی طور پر ہم جان لیں یہ کفرو شرک کی علامت بن چکا ہے اور کسی مصرف کا نہیں ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور محض اسکی مخالفت ذوقی ہو تو یہ سب کے لئیے نقصان دہ ہے بہر کیف دشمن چاہے انتقام کی آگ کی وجہ سے دشمنی پر اترا ہو یا خدا کی راہ میں حائل ہو یقینا دونوں ہی قسم کے دشمن کا معیار اگر اللہ کا دین اور اس کی کتاب ہو تو انسان دشمن کے پہچاننے میں غلطی کا مرتکب نہیں ہوگا کیونکہ جہاں قرآن نے مختلف مقامات پر دشمن کے سلسلے سے متوجہ کیا ہے (٨) وہیں ان لوگوں کو بھی واضح طور پر پہچنوا دیا ہے جو خدا، دین خدا اور کتاب خدا کے دشمن ہیں قرآن کریم و روایات کی روشنی میں کسے دشمن کہا گیا ہے اور اس کا کیونکر مقابلہ کیا جائے؟ یہ اپنی جگہ خود ایک مستقل موضوع ہے، فی الحال جس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ ہماری دشمن شناسی ہی کا ضعف ہے کہ دشمن ہمارے سر پر چڑھا آ رہا ہے اور ہم اس کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہے ہیں شاید اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ *دشمن بہت شاطر ہے جب بھی مطلع کارزار صاف یوتا ہے اور ہمیں اسکا چہرہ نظر آنے لگتا ہے وہ فتنوں کی ایسی گرد اڑا دیتا ہے کہ اکثر ہم اسے بھول کر اپنوں ہی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں* ہم اپنوں کی شخصیت کشی کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ ہم سبکو کنارے لگانے میں مشغول رہتا ہے۔ 
حواشی:
١۔ مزید تفصِل کے لئے ملاحظہ ہو دشمن شناسی، ص11، علی شیرازی، موسسہ فرہنگی خادم الرضا علیہ السلام
٢۔ العدو وھو التعدی فی الامر وتجاوز ما ینبغی لہ ان یقتصر علیہ العداوۃ، العین، کلیل بن احمد فراہیدی، ج2، ص313، لسان العرب، ج15، ص33، مجمع البحرین، ج1، ص283، معجم مقاییس اللغۃ ج4، ص249۔
٣۔ ایضا
۴۔ والعدوان ولاعتداء، لسان العرب، ج15، ص33۔
۵۔ قاموس قرآن، ج4، ص35۔
٦۔ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ، نساء 92.
٧۔ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ، شعراء 77.
٨۔ ایک سو چھ بار کلمہ عدو اور اس کے مشتقات قرآن میں بیان ہوئے ہیں، المعجم الاحصائی، ج1، ص 492۔

تحریر: حجت السلام سید نجیب الحسن زیدی

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .