۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
News ID: 360114
30 مارچ 2020 - 14:04
کیونکہ یہ مزدور ہیں

حوزہ/مشینوں میں احساس نہیں ہوتا انکے اندر تھکن نہیں ہوتی شام ڈھلتے ڈھلتے تھکن کی شکن انکی جبنیوں پر نظر نہیں آتی۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

مشینوں میں احساس نہیں ہوتا
انکے اندر تھکن نہیں ہوتی
شام ڈھلتے ڈھلتے تھکن کی شکن انکی جبنیوں پر نظر نہیں آتی۔
دیر رات انکی کمر میں شدید درد نہیں ہوتا
صبح ہوتے ہی انہیں کام پہ جانے کی فکر نہیں ہوتی۔۔۔
کسی بھی وجہ سے کام پر تاخیر سے پہنچنے پر دہاڑی کٹنے کا خوف انہیں نہیں ہوتا۔۔۔
انہیں اگلے ماہ کے کرایہ کی فکر نہیں ہوتی۔۔۔
انہیں کرایہ نہ جوڑ پانے کی وجہ سے مالک مکان سے نظریں چرا کر گزرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔
ان کے ماں باپ نہیں ہوتے۔۔۔
انکی ذمہ داریاں بھی نہیں ہوتیں۔۔۔
بال بچے نہیں ہوتے سو انکی پرورش کی فکر بھی نہیں ہوتی۔۔۔
نہ ہی مشینوں کو کھانسی آتی ہے۔۔۔
نہ انہیں سردی لگتی ہے اور نہ ہی زکام ہوتا ہے۔۔۔
نہ کسی مشین کے پیروں میں سوجن ہوتی ہے ۔
وہ تو کھڑی ہی مزدوروں کے پیروں پر ہوتی ہیں۔
 نہ انکی کمر میں ڈسک کی مشکل ہوتی ہے۔۔۔
نہ ہی ہتھیلیوں میں زخم ہوتا ہے۔۔۔
ہاں مشین کا دھیان رکھنے والا بے چارہ مزدور۔۔۔
اسکے ہاتھوں میں کبھی چوٹ لگتی ہے تو کبھی زخم۔۔۔
کہیں اسکے پیروں میں سوجن ہوتی ہے تو کبھی وجود میں تھکن۔۔۔
کبھی اسے کھانسی ہوتی ہے تو کبھی زکام۔۔۔
کبھی وہ سردی سے کانپتا ہے تو کبھی بخار میں تپتا ہے۔۔۔

اسکے باوجود اسے اس بات کی فکر بھی رہتی ہے کچھ بھی ہو جائے  نہ مالک کی گاڑی خراب ہو نہ  کار خانہ کی مشین نہ موٹر----
 کتنا بے بس ہےمشینوں کے سامنے یہ مزدور---- کہ کبھی کسی مشین کے نوکیلے دانتوں تلے پھنس یہ ہاتھ گنوا بیٹھتا ہے تو کسی مشین کے فولادی منھ  میں پیر،کوئی مشین اس سے آنکھ چھین لیتی ہے تو کوئی اسکی انگلیاں نگل لیتی ہے، ہر مشین کو مزدور کی بھینٹ چاہیے اپنے کام کے لئے۔۔۔
لیکن کوئی مزدور کبھی کسی مشین کی بھینٹ نہیں چڑھاتا اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئیے۔
مشنیوں کے مالک تو بڑی بڑی مشینوں کو لا کر ڈال دیتے ہیں پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے لیکن یہ مزدور ہے جو اسکا پورا خیال رکھتا ہے
 وہ تو اپنے ماں کے ہاتھوں سے سلےعید کے کرتے سے تک  سےصاحب کی بے جان گاڑی کو ایسے صاف کرتا ہے جیسے اپنے بچے کے چہرے سےگرد صاف کر رہا ہو ۔
اس سب کے باوجود یہ مشینی دور کی سوغات ہے کہ بر سراقتدارلوگوں کو ان مزدوروں کی فکرنہیں جو زندہ احساس رکھتے ہیں ان مشینوں کی فکر زیادہ ہے جنہیں یہ مزدوراپنے خون پسینے سے چلتے رہنے اور کام کرنے کے قابل بناتے ہیں
چانچہ مشینوں کی نگرانی پر بھی مزدور طبقہ ہی تعینات رہتا ہے اور انکی صفائی ستھرائی دیکھ بھال کے لئے بھی یہی طبقہ حاضر رہتا ہے ۔
کیا افسوس کا مقام نہیں کہ گھر کی سلائی مشین سے لیکر بڑے بڑے کارخانوں کی دیو پیکر مشینوں تک کو کور میں رکھا جائے انہیں ایک شہر سے دوسرے شہرمنتقل کرنے کے لئے اتنا خیال رکھا جائَے کہ کوئی پرزہ ادھر سے ادھر نہ ہوکوئی کھرونچ تک نہ آئے لیکن بے چارے مزدوروں کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے
سڑکوں پر لاچار و بے سہارا وہ بھی بخار میں تپتے کھانستے ہانپتے دو
روٹیوں کے محتاج بھوکے پیاسے
ان مزدوروں کو جو بڑی بڑی جگماتی بلڈگوں کو اپنے خون پسینے سے روشنی کی چادر اڑھا کرخودتاریک راہوں پر چل پڑے ہیں۔
کیا فرق پڑتا ہے مشینی ذہن رکھنے والوں پر کہ یہ مزدور ہیں جس طرح سخت ترین حالات میں زندگی گزار لیتے ہیں اسی طرح جیسے تیسے اپنی منزل پر بھی پہنچ ہی جائیں گے ،یہ چل پڑے ہیں تو انہیں چلنے دو یہ مزدور ہیں اسی لئےچل رہے ہیں ، 
یہ چلتے چلتے مر بھی سکتے ہیں یہ مر مر کر چل بھی سکتے ہیں کیوں کہ یہ مزدور ہیں کیونکہ ان کے سینے میں دل ہے یہ صرف اپنے لئے سوچتےتو ہرگز کرونا جیسی بیماری کے سامنے سینہ سپر ہو کر اپنے بیوی بچوں اپنےماں باپ اپنے گھر والوں کے لئے نہ نکلتے اپنی جان بچانے کی فکر کرتے، پتہ نہیں سرکار کویہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ یہ اپنے لئے نہیں ان لوگوں کے لئے نکلے ہیں جنکےبارے میں سوچنا سرکار کی ذمہ داری ہے لیکن جب سرکار ذمہ داری نہیں نبھائےگی تو مجبورا انہیں ہی اٹھانی پڑے گی کہ یہ مزدور ہیں ، مزدور تو ہوتا ہی اسی لئے ہے کہ سب کا بوجھ اٹھائے ۔سو انہیں چلنے دو یہ مزدور ہیں کہیں نہ
کہیں نہ کہیں  تو پہنچ ہی جائیں گے چاہیں کرونا کی نظر ہو کر یا بھوک سے مر کر۔۔۔
انہیں مت روکو یہ مزدور ہیں کوئی مشین نہیں جسکے پاس کوئی احساس نہیں ہوتا یہ اسی لئے چل رہے ہیں کہ انکے پاس زندہ احساس ہے
 یہ ان مُردوں سے لاکھ گنا بہتر ہیں جو اپنے گھروں میں بےکار مشین بنے بے حس و حرکت ٹی وی کے سامنے ریموٹ ہاتھ میں لِئے بیٹھے ہیں کہ اسکرین پر کوئی زندہ مزدور چلتا نہ دکھ جائے یہ ایسے مشین نما لوگ ہیں جو سب کچھ دیکھ سکتے ہیں لیکن زندگی کی علامتوں سے انہیں سخت نفرت ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی مزدور کو دیکھتے ہیں چینل بدل کر پھر انسان نما اپنی جیسی مشینوں کے مناظر دیکھنے میں محو ہو جاتے ہیں بھری ہوئی چابی پر ناچتی مشینیں، تھرکتی مشینیں، جام اٹھائے ہوئے مشینیں، گاتی مشینیں نغمہ سرا مشینیں پولیس کی وردی پہنے لاٹھیاں بجاتی مشینیں، غریبوں  کا لہو پیتی انسان نما مشینیں۔۔۔

تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .