۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 390160
30 اپریل 2023 - 21:31
مزدوث

اسلام میں فضیلت و برتری کا معیار صرف تقویٰ الہی ہے ۔ مالک ہونا یا مزدور ہونا نہ فضیلت کا سبب ہے نہ برتری کی وجہ ہے۔ لہذا اسلام نے ہمیں یہی تعلیم دی کی مالک اور مزدور میں جو رابطہ ہو وہ حاکم و محکوم والا نہیں بلکہ اس میں اخوت و برادری ہو، ظلم نہ ہو اور دونوں کے اجتماعی حقوق مساوی ہوں ، جو اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے زیر نظر افراد کے لئے بھی پسند کرے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | ملک و ملت اور قوم کی ترقی میں مزدوروں اور ملازموں کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے لیکن یہ بھی تاریخ کی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ان مزدوروں کا ہمیشہ استحصال اور استحمار ہی ہوا ہے۔ ہر دنیا طلب اور اقتدار پسند ظالم و سفاک نے اسی کمزور مگر خدمت گذار اور مخلص طبقہ کی قابل قدر خدمات کے باوجود اس کی توہین اور استحصال میں ہی اپنی کامیابی سمجھی ہے۔

یکم مئی کو یوم مزدور کے عنوان سے منانے کی وجہ یہ ہے کہ جب دو سو سال پہلے مزدوروں اور ملازموں کو انسان نہیں سمجھا جاتا تھا، ہفتہ میں سات دن کام لیا جاتا، چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا ، مزدور زخمی ہو جائے یا مر جائے ، اسکے گھر والوں کا کیا ہو گا ، اس کے گھر میں چولہا جلا یا نہیں اس سے فرعونی صفت مغرور مالک کو کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ مزدور یا ملازم چاہے زندہ رہے یا مر جائے اسے 16 گھنٹے کام کرنا ہی تھا اور اس 16 گھنٹے کام کے بعد بھی باس (boss) کی مرضی کہ خوش ہو یا ناراض ، مزدوری دے یا نہ دے ۔ ظاہر ہے مزدور اور ملازم کی تعریف کرنے میں مالک اپنی توہین ہی سمجھتا اور اچھے سے اچھا کام کرنے کے بعد بھی نقص و عیب نکالنا ایسے ظالموں کا خاصہ رہا ہے تا کہ مزدور خود کو مزدور ہی سمجھے اور ہر حال میں خود کو خطاکار ہی تصور کرے اور مالک کا احسانمند رہے کہ اگر مالک ناراض ہو گئے تو میں بھوکوں مر جاؤں گا۔

ان تمام مسائل کے پیش نظر امریکہ اور یورپ میں مزدوروں نے مختلف تحریکیں چلائیں 1884 عیسوی میں فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈرز اینڈ لیبر یونینز نے اپنا ایک اجلاس منعقد کیا جس میں ایک قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں کچھ مطالبے رکھے گئے جن میں سب سے اہم مطالبہ مزدوروں کے کام کرنے کے 16 گھنٹوں کو کم کر کے 8 گھنٹے کیا جائے۔ مزدوروں کا کہنا تھا 8 گھنٹے کام کے لئے، 8 گھنٹے آرام کے لئے اور 8 گھنٹے ہماری مرضی سے گزارنے کے لئے۔ اس مطالبے پر یکم مئی سے عمل کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی، لیکن اس مطالبہ کو تمام قانونی راستوں سے منوانے کی کوشش ناکام ہونے کی صورت میں یکم مئی ہی کو ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ جب تک مطالبات مانے نہیں جاتے یہ تحریک جاری رہے گی۔

16؍ 16؍گھنٹے کام کرنے والے مزدوروں میں 8؍ گھنٹے کام کا نعرہ بہت مقبول ہوا۔ اسی وجہ سے اپریل 1886؍ تک تقریباً ڈھائی لاکھ سے زیادہ مزدور اس ہڑتال میں شامل ہو گئے۔ اس تحریک کا آغاز امریکہ کہ شہر ’’شکاگو‘‘ سے ہوا۔ ہڑتال سے نپٹنے کے لئے جدید اسلحہ سے لیس پولیس کی تعداد شہر میں بڑھا دی گئی۔ یہ اسلحہ اور دیگر سامان پولیس کو مقامی سرمایہ داروں نے مہیا کیا تھا۔ ظاہر ہے سماج کے اسی فرعونی مزاج طبقے کو اس ہڑتال سے اپنا نقصان محسوس ہو رہا تھا جو بعض اوقات مزدوروں سے 18 گھنٹے بھی کام لینے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا تھا۔ ہڑتال کا آغاز یکم مئی سے ہوگیا۔ پہلے روز ہڑتال بہت کامیاب رہی دوسرے دن یعنی 2؍ مئی کو بھی ہڑتال بہت کامیاب اور پُر امن رہی۔ لیکن تیسرے دن ایک فیکٹری کے اندر پولیس نے پر امن اور نہتے مزدوروں پر فائرنگ کر دی جس کی وجہ سے چار مزدور جاں بحق اور بہت سے زخمی ہو گے۔

مزدوروں اور ملازموں کی تحریک کو کچلنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود تحریک جاری رہی اور غالباً 1890 عیسوی سے یکم مئی کو یوم مزدور منانے کا اعلان ہو گیا۔ اس وقت سے اب تک ہر سال یکم مئی کو عالمی یوم مزدور کے نام سے منایا جاتا ہے۔

ایک دینی طالب علم کی حیثیت سے ناچیز یہ کہہ سکتا ہے کہ جو بات دو سو سال پہلے دنیا کی سمجھ میں آئی اور دنیا بیدار ہوئی، رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپؐ کے برحق جانشینوں اور پاکیزہ اہل بیتؑ نے چودہ سو سال پہلے ہی دنیا کو متوجہ کیا تھا کہ نبی کریم ؐ نے ایک مزدور کے ہاتھ چوم لئے۔ جب ایک مزدور کو مزدوری کرتے دیکھ کر اصحاب نے کہا کہ اگر یہ دین کے لئے اتنی محنت کرتا تو ثواب کا مستحق قرار پاتا تو حضورؐ نے فرمایا کہ اگر یہ اپنے اہل و عیال کی وسعت کے لئے بھی محنت کر رہا ہے تب بھی یہ ثواب کا مستحق ہے۔

اسی طرح روایت میں ہے امام علی رضا علیہ السلام نے دیکھا کہ آپؑ کے گھر میں ایک مزدور کام کر رہا ہے تو پوچھا کہ یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ ایک غریب آدمی ہے ہم اپنے ساتھ کام پر لگا لیتے ہیں اور یہ ہمارے ساتھ کام کرتا ہے۔ امام عالی مقام نے پوچھا کیا کام پر لگانے سے پہلے اس کی مزدوری طے کی تھی ؟ جواب ملا نہیں بلکہ جو ہم دے دیتے ہیں یہ خوشی خوشی لے لیتا ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ امام رؤوف ؑ کے چہرے پر آثار غیض و غضب نمودار ہوئے اور فرمایا : بغیر مزدوری طے کئے کام نہیں لینا چاہئیے تھا۔ ظاہر ہے وہ بیت امامت میں کام کر رہا تھا، بیت امامت میں کام کرنے سے بڑا دنیا میں کیا شرف ہو سکتا ہے ؟ لیکن امام ؑ نے یہی حکم دیا کہ کام چاہے جتنا بھی مقدس کیوں نہ ہو مزدور کا استحصال جائز نہیں ہے۔

اسلام میں فضیلت و برتری کا معیار صرف تقویٰ الہی ہے ۔ مالک ہونا یا مزدور ہونا نہ فضیلت کا سبب ہے نہ برتری کی وجہ ہے۔ لہذا اسلام نے ہمیں یہی تعلیم دی کی مالک اور مزدور میں جو رابطہ ہو وہ حاکم و محکوم والا نہیں بلکہ اس میں اخوت و برادری ہو، ظلم نہ ہو اور دونوں کے اجتماعی حقوق مساوی ہوں ، جو اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے زیر نظر افراد کے لئے بھی پسند کرے۔ مزدور اور ملازم کو احساس کمتری نہ ہو۔ اللہ کا درود و سلام ہو امام زین العابدین علیہ السلام پر کہ جب آپؑ نے حسب دستور روز عید اپنے غلام کو آزاد کرنا چاہا تو امام ؑ سے دوری کا غم آزادی کی خوشی پر غالب آگیا اور غلام نے عرض کیا کہ مولا ! آپؑ نے ہمیں کب غلام سمجھا ہی تھا۔ آپؑ نے تو ہمیشہ ہمیں اپنے بھائیوں اور بیٹوں پر فوقیت دی۔ آپ کی غلامی کو اس ملنے والی آزادی پر ترجیح دیتا ہوں۔

اسلام نے مزدوروں اور ملازموں کے حقوق کے سلسلہ میں حکم دیا کہ؛

1۔ مزدوری میں عدالت سے کام لیا جائے اور مزدوری اتنی دی جائے کہ مزدور اپنے بنیاد حقوق جیسے روٹی ، کپڑا اور مکان وغیرہ کا محتاج نہ رہے۔

2۔ کام سے پہلے مزدوری طے کی جائے۔

3۔ مزدوری دینے میں تاخیر نہ کی جائے۔ بلکہ روایت میں ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دے دی جائے۔ یہ نہ کہا جائے کہ ہمارا قانون ہے کہ ہم فلاں دن ہی مزدوری دیں گے۔

4۔ مزدور یا ملازم کو ایسے کاموں پر مجبور نہ کیا جائے جو ان کے بس میں نہ ہو۔ جس کے انجام دہی کی ان میں صلاحیت نہ ہو ۔

5۔ مالک کو حق نہیں ہے کہ غیر عمدی نقصانات کا ضامن مزدور یا ملازم کو قرار دے اور مزدوری کو غصب کرے۔

6۔ قصّابوں والے مزاج سے بھی دوری رہے کہ جب جانور دودھ دینے یا بار اٹھانے لائق نہیں بچتا تو قصاب اسے ذبح کر دیتا ہے ۔ اسی طرح جس شخص نے تا صحت خدمت کی ہے ، اسکے مشکل حالات میں اس سے لاپرواہ نہ ہوا جائے۔

7۔ کام کرنے کے دوران اگر ملازم یا مزدور کو کوئی نقصان ہو جائے چاہے بدنی ہو یا غیر بدنی مالک اسکی بھرپائی کرے۔

8۔ مالک اور مزدور میں حاکم و محکوم جیسا رابطہ نہ رہے بلکہ اتنا سعہ صدر موجود ہو کہ سامنے والا اپنی بات کہہ سکے اور وہ سن سکے اور اس کے عذر کو قبول کر سکے۔

بارگاہ خدا میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی اطاعت کی توفیق عطا فرمائے اور گناہوں اور نافرمانیوں سے دور رکھے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .