حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا حکیم سید محمد اسمٰعیل رضوی سن 1299 ہجری میں سرزمین میران چک حسین آباد ضلع بلیا صوبہ اترپردیش پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد "سید ولایت علی" کا شمار اپنے علاقہ کے متدین افراد میں ہوتا تھا۔
حکیم اسمٰعیل نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں حاصل کی، والد محترم نے موصوف کی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی۔ ان کے خلوص اور توجہ کی برکت سے آج بھی ان کے تین پوتے "مولانا سید خورشید عباس رضوی مولانا شاہد عباس رضوی مولانا محمد سہیل" عالم دین ہیں جن میں سےمولانا خورشید عباس رضوی (امام جمعہ ککرولی) تقویٰ، پرہیزگاری اور عمل میں ہوبہو اپنے دادا کی تصویر ہیں۔
مولانا محمد اسمٰعیل علم دین کے حصول کی خاطر عازم کھجوہ ہوئے اور بزرگ و مہربان اساتذہ کرام کی خدمت میں رہ کر کسب فیض کیا۔ کھجوہ سے فراغت کے بعد شہرلکھنؤ کا رخ کیا اور مدرسہ سلطان المدارس میں رہ کر باقرالعلوم آیت اللہ سیدمحمد باقر رضوی اور مولانا سید عالم حسین وغیرہ کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کئے۔ آپ نے دینی علوم کے ساتھ ساتھ طبیہ کالج لکھنؤ میں بھی داخلہ لیا اور وہاں کے جید اساتذہ کی خدمت میں رہ کرعلم طب میں مہارت حاصل کی جن میں سے حکیم عابد علی، حکیم زاہد علی اورحکیم امیر حسین وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔
مولانا موصوف مدرسہ سلطان المدارس اور طبیہ کالج لکھنؤ سے فراغت کے بعد اپنے وطن واپس آئے ۔وہاں آکر درس و تدریس اور معالجہ میں مصروف ہوگئے۔ آپ کے شاگردوں میں سے حکیم نور محمد انصاری اور محمد سبحان حسین آبادی وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔
مولانا اسماعیل کا شمار اپنے زمانہ کے ماہر حکیموں میں ہوتا تھا۔ جب" راجہ ہلدی رام " کو ڈاکٹروں نے لا علاج کردیا تو وہ آپ کی خدمت میں آئے اور اپنے علاج کی درخواست کرنے لگے۔ حکیم محمد اسمٰعیل نے معالجہ شروع کیا جس کے نتیجہ میں راجہ صحت یاب ہوگئے جس کے بعد آپ کو راجہ نے کچھ پیسے اور ایک گھوڑا انعام میں دیا۔
آپ بہت زیادہ مصروفیات کے با وجود تصنیف و تالیف سے وابستہ رہے۔ موصوف کی تالیفات میں سے: نسخہ در طب (قلمی نسخہ)، مجموعہ مجالس، ادعیہ، اعمال و زیارات اور شجرہ سادات حسین آباد وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔
مولانا اسمٰعیل اختلافی مقامات سے بہت دور رہتے تھے آپ کا اخلاق بہت اچھا تھا۔موصوف کے بزرگ"مولانا ممتاز حسین" نے آپ کی پاکیزگی کو دیکھتے ہوئے وصیت فرمائی کہ میرے بعدنماز عیدین آپ پڑھائیں گے لیکن موصوف نے معذرت خواہی کرلی چونکہ اس زمانہ میں وطن کے بزرگ علماء موجود تھے لہٰذا ان کے احترام میں اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
اللہ نے موصوف کو پانچ بیٹیاں اور سات بیٹے عطا کئے، آپ کے بیٹوں کو سید مظہرحسنین، سید مجاور حسین، سید غلام سبطین، سید محمد الیاس عرف نواب الحسن، سید انظار حسین، سید انصار حسین اور سید ذوالفقار حسین کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔
آخر کار علم و حکمت کے اس درخشاں گوہرکی چمک بتاریخ 9 جمادی الاوّل سن 1376 ہجری میں میران چک حسین آباد ضلع بلیا میں ماند پڑگئی۔ چاہنے والوں کا مجمع آپ کے شریعت کدہ پر تسلیت و تعزیت کے لئے جمع ہوگیا اور آنسوؤں سے چھلکتی ہوئی ہزاروں آنکھوں کے ہمراہ قبرستان اولیاء پیر حسین آباد میں سپرد خاک کردیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند – سایز دائرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج6، ص961، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2022ء۔
ویڈیو دیکھیں: