۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
حکیم مولانا سید مرتضی بلیاوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | حکیم مولانا سید مرتضیٰ رضوی سن 1332 ہجری بمطابق 1912ء میں سرزمین حسین آباد ضلع بلیا پر پیدا ہوئے (ضلع بلیا، اترپردیش اور بہار کے درمیان واقع ہے جس کا شمار اترپردیش میں ہوتا ہے)۔ موصوف کے والد "حکیم مولاناسید ممتاز حسین رضوی بلیاوی " کا شمار اپنے وقت کے جیّد علماء میں ہوتا تھا۔

حکیم مولانا مرتضیٰ حسین کا تعلّق علمی خانوادہ سے ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی اس کے بعد عازم لکھنؤ ہوئے اور جامعہ¬سلطانیہ میں رہکر جید اساتذہ سے کسب فیض کرکے صدرالافاضل کی سند حاصل کی۔ سلطانیہ سے فراغت کے بعد مدرسۃ الواعظین پہنچے اور مشہور و معروف اساتذہ سے کسب فیض کر کے واعظ کی سند دریافت کی ۔

مولانا مرتضی حسین نے علم طب کے ماہرین سے طب کی کتابیں پڑھیں اور اس فن میں مہارت حاصل کرلی ۔ سن 1944 عیسوی میں عازم احمدآباد(گجرات) ہوئے اور انجمن فیض پنجتنی جمال پور (احمدآباد)کی مسجد میں امام جماعت کی حیثیت سے پہچانے گئے۔

سن 1965 عیسوی میں گجرات سے افریقہ کا رخ کیا اور وہاں کے مختلف ممالک میں تبلیغی امور انجام دیئے جن میں سےتنزانیا، کینیا، ٹانیکا اور دارالسلام وغیرہ سرفہرست ہیں۔ سن 1970 عیسوی تک تبلیغی و تدریسی فرائض انجام دیے اور اسی سال احمدآباد گجرات واپس آگئے اور پھرانجمن فیض پنجتنی جمال پور(احمدآباد-گجرات) کی مسجد میں امام جماعت کے فریضہ کو 36 سال تک بنحو احسن انجام دیتے رہے۔

موصوف عالم با عمل ،متقی اور پرہیزگار انسان تھے؛ آپ کے نواسےمولانا خورشید عباس رضوی بلیاوی بیان فرماتے ہیں کہ موصوف کے بہت سے واقعات ہیں جو ان کی پرہیزگاری پر دلالت کرتے ہیں ۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے: مولانا مرتضی حسین زیارت کی غرض سے عراق تشریف لے گئے اور شب جمعہ مسجد سہلہ میں اعمال اور عبادات کو دیر رات تک انجام دیتے رہے۔ رات کافی گذرچکی تھی، مسجد سے باہر نکلے اور ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے، کافی دیر چلنے کے بعد جب ہوٹل تک نہ پہنچ سکے تو محسوس کیا کہ راہ بھٹک گئےہیں لہٰذا وہیں کھڑے ہوگئے، اچانک ایک مردعرب آپ کے سامنے آکر کھڑا ہوا اور بولا: مرتضی حسین میں تمہیں تمہاری منزل تک پہنچا دوں! اس کے بعد ہاتھ پکڑا، اپنے ساتھ سواری پر سوار کیا اور کہا آج رات کا کھانا میرے ساتھ میرےگھر پر کھاؤ ، آپ نے جواب دیا: میرا کھانا ہوٹل میں رکھا ہے اگر آپ کے یہاں کھانا کھاؤں گا تو وہ اسراف ہوجائے گا۔ ابھی بات مکمل نہیں ہونے پائی تھی کہ مولانا مرتضی حسین نے دیکھا اپنے ہوٹل کے صحن میں موجود ہیں اور پلک جھپکتے ہی وہ عرب نظروں سے غائب ہوگیا آپ سوچنے لگے کہ میں امام وقت سے ملاقات کی غرض سے عمل انجام دے رہا تھا۔ یہ امام ہی تھے اور میری آنکھوں پر پردے پڑے تھے، آخرمیں نام کے ساتھ پکارنے اور بات کے تمام ہونے سے پہلے ہی صحن منزل میں پہنچنے کے باوجود متوجہ کیوں نہ ہوا!۔

مولانا مرتضی حسین کو اللہ نے چھ نعمتوں اور پانچ رحمتوں سے نوازا فرزندان نرینہ کے نام کچھ اسطرح ہیں : سید محمد ارتضی، سید محمد اجتبیٰ، سید محمد مجتبیٰ سید محمد ضیاء اور دو بیٹے سید علم الھدی اورسید نورا لھدیٰ آپ کی حیات ہی میں عالم شبا ب میں انتقال فرما گۓ تھے۔ آپ نے سارے بچوں کو علم و ادب سے آراستہ کیا اور ساری اولاد احمدآباد گجرات میں قیام پزیر ہوگئی۔

آخر کار یہ مبلغ و متکلم دوراں 16 ذی الحجہ سن 1400 ہجری بمطابق 1980 میں محلہ جمالپور (احمدآباد- گجرات) میں ہمیشہ کےلیے سوگیا، مؤمنین کی کثیر تعداد آپ کے دولت کدہ پر تعزیت و تسلیت کے لئے جمع ہونے لگی، غسل و کفن کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی اور احمد آباد کے محلہ سارنگپور میں موجود باقر شاہ نامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص 121دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2023

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/3L9qU7WHYO0?si=XPvP0emli5JnAcj_

تبصرہ ارسال

You are replying to: .