۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
آیۃ اللہ محسن نواب رضوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مجتہد مسلّم آیۃ اللہ محسن نواب 14 ربیع الثانی 1329 ہجری مطابق 14 اپریل 1911 عیسوی کو محلہ چاہ کنکر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید احمد نواب رضوی تھے۔ محسن الملت ماہ اپریل 1915 عیسوی میں چار سال کی عمر میں ہی سایہ پدری سے محروم ہوگئے۔

آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ ناظمیہ میں حاصل کی سنہ 1923 عیسوی میں مدرسہ سلطان المدارس میں داخل ہوئے اور مدرسہ کے جیّد اساتذہ سے کسب فیض کیا۔

سنہ 1933 عیسوی میں صدرالافاضل کی سند امتیازی نمبروں سے حاصل کی اسی سال عازم نجف اشرف ہوئے اور حوزہ علمیہ نجف اشرف میں جید اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیے ۔

آیت اللہ محسن نواب کو نجف اشرف کےبہت سے علمائے کرام نے اجازات اجتہاد سے نوازا جن میں سے آیت اللہ ابراہیم رشتی، آیت اللہ عبدالکریم غروی، آیت اللہ ضیاءالدین عراقی، آیت اللہ محمد کاظم یزدی، آیت اللہ محمد حسین آل کاشف الغطاء، آیت اللہ شیخ محمد حسن، آیت اللہ عبدالحسین رشتی اور آیت اللہ ابوالحسن موسوی وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔

آپ اکتوبر 1939 عیسوی میں نجف اشرف سے واپس ہوئے اور مدرسہ ناصریہ جونپور کے استاد قرار پا ئےمدرسہ عالیہ رامپور کی مدیریت کو سنبھالا اور اس دوران ریاست رام پور میں اپنی پرجوش اور عالمانہ خطابت سے ملت کو فیض پہنچایا اس کے بعد لکھنؤ کا رخ کیا اور مدرسہ سلطان المدارس میں طلاب کی معقول تربیت کا بیڑہ اٹھایا ۔ اسی کے ساتھ مدرسہ ناظمیہ میں کئی برس تک عشرہ مجالس میں رونق افروز منبر رہے ۔

محسن الملت کی تعلیمی صلاحیتوں سے ہندوستان کے بہت سے لوگوں نے استفادہ کیا آپ کے خاص خاص تلامذہ میں (1) مولانا سید مظاہر حسین (2) امیر جامعہ ناظمیہ مولانا سید حمید الحسن رضوی (3) مولانا افتخار حسین انصاری سری نگر کشمیر (4) خطیب اکبر مولانا مرزا محمد اطہر (5) حکیم امت ڈاکٹر مولانا کلب صادق نقوی (6) مولانا وارث حسن نقوی (7) مولانا سید شبیہ الحسن نونہروی (8) علامہ سید ذیشان حیدر جوادی (9) عالیجناب سید احمد مظلوم گورنر جھارکھنڈ وغیرہ خاص شہرت کے مالک ہونے کے سبب قابل ذکر ہیں۔

آپ کو تصنیف و تالیف سے بھی خاص دلچسپی تھی چنانچہ اپنی بے انتہا مصروفیات کے باوجود العلم نامی علمی و مذہبی رسالہ کے سرپرست قرار پائے جو بنجاری ٹولہ لکھنؤ سے شائع ہوتا تھا اس رسالہ میں آپ کے مضامین اور دیگر مصنفین کی کتابوں پر آپ کے تبصرے اور تنقیدیں مسلسل شائع ہوئیں ۔ ۔ ایک عربی رسالہ "الادیب " جو ناصر الملت مولانا ناصر حسین کی زیر سرپرستی نکلتا تھا، اس کی ادارت فرمائی جسے انجمن نادی الادبا شائع کرتی تھی اس میں بھی آپ کے کافی مضامین شائع ہوئے ہیں آپ کی بہت سی کتابیں ہیں جن میں بینات شیعہ من مصادر اہلسنہ ( غیر مطبوعہ عربی زبان میں)، النجعۃ فی الرجعۃ(عربی مطبوعہ) غدیر سے کربلا تک (مطبوعہ) حدیث مدینۃ العلم (مطبوعہ) زائرین قائم آل محمدؑ(مطبوعہ) فلسفۂ سحر و اعجاز وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔

آپ اردو زبان میں معیاری شاعری بھی فرماتے تھے ساتھ ہی عربی زبان میں بھی اعلی پیمانے کی شاعری کرتے تھے چنانچہ جون پور شیعہ کالج جو ایک وقت تک فقط مڈل اسکول تھا اسکے لئے اپنے ذاتی اثر و رسوخ کے ذریعہ آپنے اس زمانہ میں دس ہزار کی خطیر رقم جمع کرائی تھی جس سے اس کالج میں طلبہ کے کلاس روم پختہ تعمیر کیے گئے تھے اور حاجی داؤد ناصرممبئی کو جونپور شیعہ کالج میں مدعو کیا تھا اور آپ نے برجستہ عربی زبان میں منظوم سپاس نامہ حاجی داؤد ناصر کی خدمت میں کالج کی انتظامیہ کی جانب سے پیش فرمایا تھا جس سے خوش ہوکر شیعہ کالج جونپور کی خوب مالی مدد ہوئی تھی اور مڈل اسکول شیعہ کالج ہو گیا تھا ۔

رحلت سے چند مہینے پہلے کافی اصرار کے بعد اپنی شدید علالت کے باوجود مجلہ الواعظ کی نگرانی منظور کرکے ادارہ الواعظ کو ممنون احسان کیا۔

اللہ نے آپ کو تین نعمتوں سے نوازا جو مولانا سید ناصر مہدی رضوی، سید عارف مہدی رضوی اور سید منتظر مہدی رضوی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں ۔

وہ محسن الملت جس کے علم و عمل کا ڈنکا ہندوستان، پاکستان اور عراق میں بجتا تھا ، وہ بحر ذخار جس کے علوم کا سمندر موجیں مارتا تھا، وہ یگانہ روزگار عالم جس کی زلزلہ افکن تقریریں سامعین کو اپنا فریفتہ کرلیتی تھیں، وہ فخر زمانہ جس کے درس و تدریس کے وقت علوم و فنون کے دریا روشن ہوجاتے تھے، وہ نامور صاحب قلم جس کی گردش قلم سے مشکل مسائل کی گھتیاں سلجھ جاتی تھیں،وہ عدیم المثال شاعر جس کے تخیلات بلند پایہ تک نامور صاحبان سخن کا وہم بھی نہیں پہنچ سکتا تھا ، وہ عابد و زاہد جس کے پند و نصیحت کے وقت لوگ لرزجاتے تھے ۔

آخرکار مذکورہ اوصاف کی حامل شخصیت 12 جمادی الثانی 1389ہجری مطابق 26/اگست 1969 عیسوی بروز منگل ڈھائی بجے دن لکھنؤ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملی انتقال کی خبر پھیلتے ہی عقیدت مندوں کا ہجوم شریعت کدہ پر امنڈ پڑا، قرب و جوار کے علاقہ میں دکانیں بند ہوگئیں اور پوری فضا میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی۔ مغرب کے قریب بہت بڑے مجمع کے ہمراہ جنازہ امامباڑہ آغا باقر میں غسل و کفن کے لئے لایا گیا اور اگلے روز 27/ اگست صبح ساڑھے سات بجے آپ کی نماز جنازہ اس وقت کے عظیم خطیب اور پرہیزگار عالم دین مولانا ابن حسن نونہروی کی اقتدا میں ہوئی اور مجمع کی ہزار آہ وبکا کے ہمراہ حسینیہ غفرانماب لکھنؤ میں سپرد خاک کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج5، ص199 دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2019ء

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/t-BDbgODuIA?si=PrazNLex7HOBKHdH

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .