۱۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۸ شوال ۱۴۴۵ | May 7, 2024
خطیب اعظم علامہ سبط حسن جائسی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | خطیب اعظم ،شمس العلماء ، فخرالمتکلمین ، کلیم اہلبیت "علامہ سبط حسن نقوی "سنہ 1296ھ میں سرزمین جائس "ضلع راۓ بریلی صوبہ اتر پردیش" پر پیدا ہوۓ ۔ آپ کے والد وارث حسین تھے، ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کرنے کے بعد

" مدرسہ ناظمیہ " لکھنؤ میں داخل ہوۓ اور وہاں رہ کر " آیت اللہ نجم الحسن" کی نگرانی میں ممتاز الافاضل کی سند حاصل کی۔ سلطان المدارس میں "آیت اللہ باقر العلوم" سے کسب فیض کرکے صدرالافاضل کی سنددریافت کی، پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی سند لی،

خدا داد دماغ ، اعلیٰ درجے کے ساتھی ، توفیق الٰہی، محنت شاقہ اور شفیق اساتذہ نے سونے کو کندن بنا دیا جو دن بہ دن چمکتا رہا ۔عربی فارسی میں ادیبانہ مہارت اور اسالیب بیان میں اہل زبان کا تیور تھا ۔ اردو کی نثر و نظم ،تقریر و تحریر غرض ہر میدان میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ، اپنی استعداد کے سبب مدرسہ ناظمیہ میں مدرس ہو گۓ۔

تفسیر وحدیث کی بات ہو یا کلام و فلسفہ کا موضوع، عام مسئلہ ہو یا خاص نکتہ ، جب چاہتے اور جس طرح چاہتے لکھتے اور بولتے تھے، خطابت میں ایسا ڈھنگ اختیار کیا کہ اہل دانش گرویدہ ہو گۓ ، علم وادب اور نکتہ آفرینی میں وہ رنگ ایجاد کیا کہ علماء دنگ رہ گۓ، آپ کی خطابت پورے ہندوستان میں مشہور تھی ، آپ کی نثر کے سامنے سامعین نظم بھی بھول جاتے تھے مضامین عالیہ کو نہایت فصاحت کے ساتھ بیان فرما کر دلنشین فرما دیتے ، کلکتہ و پنجاب وغیرہ بڑی مشکل سے تشریف لے جاتے ، اسلۓ کہ رؤساۓ لکھنؤ نہیں چاہتے تھے کہ آپ باہر تشریف لے جائیں چنانچہ "صاحب تذکرہ بے بہا " فرماتے ہیں : 1336ھ میں ریاست رامپور میں عشرہ کی چند مجالس اس شان سے پڑھیں کہ روزانہ لکھنؤ سے آتے اور جاتے تھے اور لکھنؤ کی مجالس پڑھتے تھے، 1337ھ کا عشرہ بھی اسی طرح سے پڑھا ، جانسٹھ میں بھی آپ نے اکثر مجالس پڑھیں جسمیں اطراف کے مومنین بھی خبر سن کر جوق در جوق آپ کی مجلس سننے چلے آتے بلکہ اکثر ہندو حضرات کو بھی سننے آتے اور محظوظ ہو کر جاتے تھے۔

روداد انجمن جعفریہ مظفر نگر منعقدہ دسمبر 1907ء میں ہے کہ علامہ سبط حسن نقوی ممتاز الافاضل لکھنؤ کا وعظ تقویٰ اور پرہیزگاری سے متعلق ہو رہا تھا ، جسمیں آپ نے " انما یتقبل اللہ من المتقین"کی تفسیر ایسی خوش اسلوبی سے بیان فرمائی کہ ہر شخص ہندو مسلمان عالم وجد میں تھا ، جناب کے وعظ سے ہر فرقہ کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ، تقریر کے بعد ایک عالم حیرت طاری تھا اور ہر طرف سے داد وتحسین کی آواز بلند تھی، کوئی کہتا تھا کہ ایمان دلوں میں اتار دیا "سید شوکت حسین

رئیس ککرولی " نے جوش میں آکر فوراً ایک گنِی ّ جناب پر تصدق کرکے داخل سرمایہ انجمن کی اور حاضرین جلسہ نے علامہ سے مکّرر درخواست کی تو ایک روز انجمن کے واسطے اور بڑھایا گیا اور آپ نے اگلے دن بقیہ وعظ دو گھنٹہ تک ارشاد فرمایا، "پرچہ اصلاح کھجوہ " کے مطابق آپ نے کالج کے طلاب کی گذارش پر اس مجلس میں وہی مطالب بیان کۓ جو کئی سال سے متواتر وعظ بیان فرماۓ تھے ،آپ کو خطابت میں اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ خطیب اعظم کے لقب سے مشہور ہو گۓ اور سنہ 1925ء کی سالگرہ کی تقریب میں آپ کو حکومت کی جانب سے "شمس العلماء" کا خطاب دیا گیا اسکے علاوہ آپ کو

" بلبل بوستان خطابت" اور " عالم شیوا بیان "کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔

موصوف کو کتابوں سے بے حد عشق تھا لہذا تمام مصروفیات کے با وجود تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا آپ کے آثار میں سے : معراج الکلام (مطبوعہ)، ترجمہ کتاب محیط الدائرۃ ، واقعہ غدیر، الکاظم ( امام موسیٰ کاظم ؑ کی سانح حیات) خطاب فاضل ترجمہ میزان عادل ، جواہر الکلام( دس مجلسوں کا مجموعہ) اورھدم الاساس فی حدیث قرطاس (اردو) وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں اسکے علاوہ آپ کے اردو، فارسی اورعربی میں دیوان بھی ہیں جنکی اشاعت نہ ہو سکی ۔

علمی کارناموں کے علاوہ آپ نے سماجی و تعمیری کاموں میں بھی اہم کردار ادا کیا جیسے "شیعہ کالج" کی تاسیس میں

رؤ ساء و بادشاہان وقت کے پہلو بہ پہلو رہے اور اپنی آمدنی کا کثیر حصہ عطا فرمایا، سنہ 1337ھ میںوالی ریاست محمودآباد نے مدرسۃ الواعظین کا افتتاح کیا تو آپ اس مدرسہ کے پہلے صدر مدرس معین ہوۓ۔

اللہ نے آپ کو تین فرزند نرینہ عطا کۓ جنکے اسماءکچھ اسطرح ہیں : منظر، محمد موسیٰ اور وارث حسین

آخر کار یہ علم وخطابت کا درخشاں آفتاب 28 محرم سنہ 1354ھ مطابق 1935ء میں سرزمین لکھنؤ پر غروب ہو گیا ، خبر وفات پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گئی ،تمام ملک کے اخبارات نے خاص شمارے نکالے ، پورے ملک کے دانشوروں نے سوگ منایا ، آپ کے جنازے میں تمام مذاہب کے افراد شیعہ، سنی ،ہندو اور عیسائی شریک ہوۓ، اس کی مثال اس سے پہلے کے بزرگوں نے نہیں دیکھی تھی، دریاۓ گومتی پر غسل ہوا، وکٹوریہ پارک میں آیت اللہ نجم الحسن کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی گئ اور مجمع کی ہزار آہ و بکاء کے ہمراہ "امام بارگاہ غفرانمآب "میں مسجد کے سامنے صحنچی میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج3، ص 81دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/HV4WD3_0A9Q?si=8UbFoMlxnlvUpYMR

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .