حوزہ نیوز ایجنسی | خطیب اعظم مولانا الحاج سید محمد دہلوی سنہ 1317ھ بمطابق 1899ء میں سرزمین " پیتن ہیڑی ضلع بجنور" پر پیدا ہوۓ ،آپ کے والد " مولانا آفتاب حسین" تھے جو "پنجہ شریف دہلی" میں مدفون ہیں،آپ کے والد" اینگلو عربک اسکول دہلی"میں استاد تھے ،اس لۓ سید محمدصاحب کی نشو نما دہلی میں ہوئی،ابھی چند سال ہی گذرے تھے کہ 1321 ھ میں والد کا انتقال ہو گیا، مولانا سید محمد کی والدہ نے" مولانا آفتاب حسین "کے چہلم کے بعدآپ کو تعلیم کے لۓ "مولا نا قاری عباس حسین رضوی جارچوی "کے سپرد کر دیا،ایک سال کے بعد والدہ بھی آپ کو تنہا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئیں،اپنی ماں کا غم منانے کے بعد آپ دہلی واپس آگۓ ،یہاں آپ کے والد کے چاہنے والوں اور آپ کو آپ کے والد کا جانشین دیکھنے والوں کی تمنا کرنے والوں میں "مولانا مرزا محمد حسن" اور "مولانا سید محمد ہارون استاد عربک اسکول "نے ہدایۃ النحو و کافیہ وغیرہ پڑھا کر لکھنؤ کے لۓ آمادہ کیا او ر سید محمد باقر انبالوی نے مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ میں داخلہ کرایا ،چار سال گذرے تھے کہ مولوی مقبول احمد دہلوی نے رامپور بلا لیا ،تقریباً سنہ 1912ء میں "مدرسہ عالیہ رامپور " میں "شیخ محمد طیب مکّی" سے مولوی فاضل کا نصاب پڑھ کر" پنجاب یونیورسٹی" سے سند امتیاز حاصل کی، نواب امراؤ مرزا اسی دن کے منتظر تھے ،لہذا انہوں نے عربک اسکول میں استاد کی حیثیت سےجگہ دلوا دی۔
آپ کے اساتذہ میں:قاری سید عباس حسین رضوی جارچوی،آیت اللہ نجم الحسن رضوی ،مولانا ہارون زنگی پوری،مولانا مقبول احمد دہلوی،شیخ محمد طیب مکی اور مولانا میرزا محمد حسن کے اسماء سر فہرست ہیں۔
مولانا سید محمد نے اطمینان کی سانس لیتے ہی ،خدا داد ذہانت، ذکاوت اور خطابت کا مظاہرہ شروع کیا ، دلّی والوں نے یتیمِ مولانا آفتاب حسین کو پلکوں پر بیٹھایا ، انکی تقریر میں لوگوں کو وہی لطف حاصل ہوا جو آپ کے والد کی تقریر میں حاصل ہوتا تھا ،چنانچہ ایک بہت بڑی مجلس میں سید منیر دہلوی نے مجمع کے درمیان کھڑے ہو کر کہا :
ظاہر وباطن میں ہیں مثل و مثیل آفتاب مولوی سید محمد ہیں عدیل آفتاب
چوم کر انکے قدم کہتی ہے دلّی کی زمیں سچ کہا ہے "آفتاب آمد دلیل آفتاب"
میدان خطابت میں دن بدن ترقی کی، دل لگاکر مطالعہ کیا اور محنت شاقہ سے ترقی حاصل کی،آپ کو کتابوں کا بڑا شوق تھا شروع سے ہی پڑھنے کے عادی تھے زبان رواں اور طرز خطاب دلکش تھا،آپ کی تقریر میں شگفتگی ،زبان اور سادگی کچھ اس طرح تھی کی عوام عش عش کر اٹھتے تھے ،سیرت النبی کے جلسے ہوں یا محرم کی مجلسیں ،ان کے سامعین ہمیشہ مطمئن اور خوش جاتے تھے ،گھنٹوں تقریر کرتے مگر سننے والے مستقل ہمہ تن گوش رہتے، وہ علمی مضامین کو عام فہم زبان میں بھی ادا کرنے پر قادر تھے اور فلسفیانہ ذوق رکھنے والوں کے مجمع میں سخت مطالب کو آب رواں بنا دیتے تھے۔
دلّی کے ایک عظیم اجتماع میں بلبل ہند سروجنی نائیڈو کی تقریر کے بعد مولانا سید محمد نے کچھ اس انداز میں تقریر کی کہ اس تقریر کو سننے کے بعد خواجہ حسن نظامی کے اخبار "منادی"نے آپ کو خطیب اعظم سے یاد کیا ،مولانا نے دکن سے کشمیر اور کراچی سے ڈھاکہ تک پھر افریقہ، ایران وعراق میں اپنی تقریر کا سکہ جمایا اور اپنی شخصیت کا لوہا منوایا ،سنہ1939ء اور سنہ 1951 ء میں زیارات عراق اورسنہ 1966ء میں حج سے مشرف ہوۓ۔
آپ ایک سخی ،فعال اور ہمدرد انسان تھے،قوم کی فلاح و بہبود ،عوام کی خوشحالی اور اصلاح کے لۓ بہت سے تعمیری کام کۓ :مثلاً مظفر نگر میں شیعہ ہوسٹل کی تاسیس ،،جھنگ میں یتیم خانہ کی تاسیس ،دہلی میں شیعہ ہال ،شیعہ یتیم خانہ درگاہ پنجہ شریف دہلی کی سرپرستی کی اور شیعہ اوقاف قائم کیا،بمبئی میں خوبصورت اور وسیع ہال قیصر باغ جیسی تعمیر آپ کی پرخلوص جدوجہد کا نتیجہ ہے،آپ نے رامپور میں تفسیر قرآن مجید کے لۓ ایک بہت بڑے بورڈ کی تشکیل دی اس بورڈ میں ابھی پانچ سو صفحات کا مقدمہ ہی مکمل ہوا تھا کہ ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور ان کے دشمنوں نے رامپور میں انکا کتب خانہ اور گھر جلا دیا اسکے بعدوہ پاکستان چلے گۓ وہاں جانے کے بعد بھی علمی اور سماجی خدمات کےسلسلہ کوجاری و ساری رکھا ۔
اتنی مصروفیات کے باوجودآپ نے تصنیف وتالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ،ان کے آثار میں: نور العصر، مقدمہ تفسیر قرآن جو پانچ سو صفحات پر مشتمل تھا مگر تقسیم ملک کے وقت ضائع ہو گیا ۔ترجمہ مقتل ابی مخنف ،رسول اور انکے اہلبیت، معجزات آئمہ اطہارؑ اور سو ڈائریوں پر مشتمل تحقیقی مضامین لکھے جو ابھی تک طبع نہیں ہو سکے ۔
آخر کار یہ علم و فضل کا ٖ آفتاب دل کی بیماری میں مبتلاء ہوکر 29 جمادی الثانی سنہ 1391 ھ بمطابق 20 اگست سنہ1971ء میں سرزمین کراچی پ پر غروب ہو گیا ،جنازے میں مجمع کی کثیر تعداد نے شرکت کی ،نماز جنازہ کے بعد مومنین کی ہزار آہ و بکاء کے ہمراہ شہر کراچی میں واقع"باغ خراسان "نامی قبروستان میں سپرد خاک کر دیا گیا، تمام سیاسی مذہبی رہنماؤں نے اظہار تعزیت کیا اخبارات نے اداریے لکھے اورمولانا قائم رضا" نسیم امروہوی" نے کچھ اس طرح تاریخ وفات رقم کی :
شمعِ خاموشِ زبانِ آگہی کی قبر ہے
پیریِ احساسِ فرضِ منصبی کی قبر ہے
ماخوذ از : دائرۃ المعارف علماء الموسوم بہنجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص442، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔