۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
علامہ سید ابن حسن رضوی جارچوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی علامہ ابن حسن جارچوی 4/محرم سنہ 1322ہجری میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد "سید مہدی حسن رضوی" تھے۔ موصوف کی عمر پانچ سال تھی کہ شفقت پدری سے محروم ہوگئے اور اپنے نانا کے زیر سایہ پرورش پائی۔

سرزمین جارچہ ضلع نوئیڈا پرقدیم زمانہ سے علمائے کرام کا وجود رہا ہے جس میں سے علامہ ابن حسن رضوی ، علامہ حافظ قاری جعفر علی رضوی اور شمس العلماء علامہ حافظ قاری عباس حسین رضوی کے اسمائے گرامی سرفہرست ہیں-

علامہ جارچوی چودہویں صدی کے اعلیٰ مدرسین و مفکرینِ برّ صغیر میں شمار کئے جاتے تھے۔ تفصیل کے لئے مراجعہ کیجئے: نجوم الہدایہ، جلد1، ص58۔
علامہ نے اپنے تعلیمی سفر میں مختلف درسگاہوں سے متعدد اسناد حاصل کیں جو کچھ اس طریقہ سے ہیں: فیض عام انٹر کالج میرٹھ سے ہائی اسکول اور انٹر کیا۔؛ اسلامیہ کالج لاہور سےایف اے، بی اے، ایم اے اور ایم اے او ایل کی ڈگریاں لیں،؛ اورینٹل کالج رامپور سے مولوی فاضل اور منشی فاضل کی اسناد دریافت کیں اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی سی کی سند حاصل کی۔
موصوف ایک باصلاحیت عالم باعمل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے زمانہ کے ایک نایاب مشہورِ زمانہ خطیب تھے۔

آپ نے سنہ 1920ء سے 1930ء تک سندھ، پنجاب اور دہلی میں اپنی ہیجان آور تقاریر کے ذریعہ فلک بوس شہرت حاصل کرلی تھی۔تفصیل کے لئے مراجعہ کیجئے: انوار فلک، ج1، ص14۔

موصوف سندھ میں امام جماعت کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ آپ کے اندر خدمت قوم کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اسی سبب تحریک جنت البقیع کا آغاز کیا۔ سندھی زبان میں ایک رسالہ بھی شائع کیا اور آل انڈیا کانفرنس کی کامیابی کا سہرا بھی آپ ہی کے سر رہا۔ علامہ کی ایک معروف سرگرمی یہ رہی کہ مجالس و محافل کو امامبارگاہوں سے نکال کر میدانوں میں لے آئے جس کے سبب پبلک گارڈن میں مجالس برپا ہونے لگیں اوردس ہزار کا مجمع شرکت کرنے لگا۔ جب ملتان میں آل سعود کے خلاف آواز احتجاج بلند کی تو چالیس ہزار کا مجمع نظر آیا۔؛ بمبئی، لکھنؤ، دہلی اور دیگر بڑے بڑے شہروں کی جانب ذاکری کا سفربھی دیدہ زیب ہے۔

سنہ 1931ء سے 1938ء تک جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں پروفیسر کے عنوان سے پہچانے جاتے رہے اور سنہ 1948ء سے 1951ء تک شیعہ عربی کالج لکھنؤ کے پرنسپل رہے۔

علامہ ابن حسن؛ اسلامی فلسفہ، مغربی فلسفہ اورسیاست میں مہارت رکھتے تھے۔ آپ شیعہ وقف بورڈ، لکھنؤ یونیورسٹی اور محمودآباد کے دار التالیف میں رکن کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے مسائل کو بہت اچھے انداز سے حل کرتے تھے۔
تحریک پاکستان کی صف اوّل میں ہونے کے باوجود آپ کی انکساری قابل دید تھی۔ ان کے مرتبہ کا اندازہ اس طرح آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے جنازہ پر دو نمازیں ہوئی جن میں سے پہلی نماز جنازہ موصوف کی قیادت میں انجام پائی۔

علامہ جارچوی حق کے حامی اور بیان حق میں نڈر تھے۔ آپ لکھنؤ میں اسلامی ادارہ سے منسلک ہوئے اور سنہ1970ء میں ریٹائرمینٹ لیا۔
موصوف چونکہ علم فلسفہ و علم کلام میں مہارت رکھتے تھے اسی لئے فن مناظرہ سے بخوبی واقف تھے اور اُن کا سنہ 1939ء کا لاہور میں مناظرہ کرنا یادگار ہے۔ آپ آخری دم تک مسلم لیگ سے منسلک رہے۔ نوجوانوں کے روشن مستقبل کی خاطر انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ کی بنیاد رکھی۔
علامہ جارچوی نے بہت سی کتابیں تالیف فرمائیں جن میں سے فلسفۂ آل محمدؐ، شہیدِ نینوا، دیو مالا، جدید ذاکری اور تذکرۂ محمدؐ وآل محمدؐ سر فہرست ہیں۔ اللہ نے موصوف کو دو فرزند نرینہ عطا فرمائے جن کو سید محمد مشہود اور سید علی حسن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے رہبر نامی رسالہ بھی نکالا جس کو خوجہ جوانوں نے گجراتی زبان میں ترجمہ کرکے شائع کیا، اس کے علاوہ موصوف کی متعدد کتابوں کا بھی گجراتی زبان میں ترجمہ ہوا۔

آخر کار یہ علم و ادب کا چمکتا آفتاب، یرقان جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوگیا، معصومین نامی ہاسپٹل میں ایڈمٹ کیا گیا اور 14/ جمادی الثانی سنہ 1393ہجری میں داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ آپ کے انتقال کی خبر بجلی کی طرح پھیل گئی، بڑے بڑے سیاسی لوگ، علماء، فضلاء، طلاب اور کثیر تعداد میں مؤمنین کرام جنازہ میں شریک ہوئے، رضویہ سوسائٹی کے امامبارگاہ میں علامہ نصیر اجتہادی صاحب قبلہ کی قیادت میں نماز جنازہ ادا ہوئی اورانسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ میں سپرد لحد کئے گئے۔
مؤمنین کی جانب سے تسلیت کے پیغامات کا عجیب و غریب سلسلہ شروع ہوگیا، تمام سیاسی لیڈران اورتمام علماء و فضلاء کی جانب سے پیغامات آئے۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص56، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی2019ء۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .