۲۳ آبان ۱۴۰۳ |۱۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 13, 2024
مولانا غلام علی حاجی ناجی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مبلّغ گجرات مولانا غلام علی سنہ 1864 عیسوی میں سرزمین ممبئی پر پیدا ہوئے ،آپ کے والد حاجی اسماعیل تھے،آپ نے اپنا نام ناجی منتخب کیا اور حاجی ناجی کے نام سے معروف ہوۓ۔

حاجی ناجی نے سنہ 1282 ہجری میں 12 سال کی عمر میں مرجع وقت "آیت اللہ العظمیٰ شیخ زین العابدین مازندرانی "کی طرف سے اعزام شدہ مبلّغ "مولانا قادر حسین "کے عربی مدرسہ میں داخلہ لیا اور تین سال کی مدت میں قرآنی معلومات کے ساتھ ساتھ عربی ا ور فارسی زبان پر عبور حاصل کر کے اپنے اساتذہ کی آنکھوں کا تارہ بن گئے، موصوف اپنے استاد کا بہت احترام کرتے تھے جب کبھی "مولانا قادر حسین" باہر نکلنا چاہتے تو حاجی ناجی ان کی جوتیاں سیدھی کرتے تھے ، آپ کے استاد نے دعا دی کہ بیٹا آج تم میری جوتیاں سیدھی کر رہے ہو ایک دن آئے گا کہ لوگ تمہاری جوتیاں سیدھی کریں گے،حاجی ناجی نے مولانا قادر حسین سے دروس کی تکمیل کے بعد "مولانا سید غلام حسین مجتہدحیدرآبادی "سے کسب فیض کیا ۔

موصوف سن 1300 ہجری میں اپنے والدین کے ساتھ عتبات عالیات کی زیارت کے لئے ایران و عراق تشریف لے گئے اور زیارت سے واپسی کے بعد مالیگاؤں مہاراشٹر میں ایک سال تک پیش نمازی کے ساتھ ساتھ حق و حقیقت اور علم و عمل کی دعوت دیتے رہے، ایک سال بعد "مولانا غلام حسین مجتہد حیدرآبادی "آپ کو "مہوّا گجرات "لے آئے جب آپ نے برادران قومی کی مذہبی حالت دیکھی تو گجرات کو تبلیغ کی انجام دہی کی خاطر اپنا وطن قرار دیا اور وہیں رہنے لگے۔

مولانا غلام علی نے سنہ 1901 عیسوی میں شہر ممبئی میں خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعت بنائی اور اس کے ابتدائی دنوں میں اپنے گھر میں وعظ و خطابت کی مجلسیں منعقد کیا کرتے تھے، انہوں نے کربلا کے سفر میں آیت اللہ شیخ زین العابدین مازندرانی سے 200 فقہی مسئلے دریافت کئے اور انہیں اپنے ہاتھوں سے تحریر کیا ۔

حاجی ناجی کی تحریر اور تقریر نے لوگوں میں دینداری کا جذبہ پیدا کردیا، میرآغا لکھنوی نے آپ کو "خیرالذاکرین " کا خطاب دیا ، سنہ 1311ہجری میں عتبات عالیات کی زیارت کی غرض سے عراق گئے تو آیت اللہ شیخ محمد حسین مازندارانی نے ملاقات کے دوران کہا کہ آپ اپنے زیارت کے سفر کو کیوں طولانی کرتے ہیں جلدی سے زیارات کیجیے اور اپنے وطن واپس جائیے کیونکہ زیارت مستحب ہے اورتبلیغ واجب ہے۔

حاجی ناجی کی رہبرانہ صلاحیتوں کو لوگوں نے بلاتفریق مذھب وملت تسلیم کیا ہے، لوگ مذہبی، سماجی، اور تعلیمی گتھیوں کو سلجھانے کے لئے ان کی طرف رجوع کرتے اور وہ لوگوں کے مسائل حل کرتے تھے ، وہ لوگوں کی ہدایت کے لئے دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں بھی جاتے اور ان کو نور علم سےمنوّرکرتے تھے، آپ اپنے گھریلو اخراجات کے لئے "لیدر" کی تجارت کرتے تھے۔

یکم ذیقعدہ سن 1310 ہجری کو ماہنامہ "راہ نجات" کا اجراء کیا، سنہ 1314 ہجری میں احمد آباد (گجرات) میں پرنٹنگ پریس خریدی اور اسے مرکز طباعت اثنا عشری کا نام دیا، اس پریس کی وجہ سے آپ نے بھاؤنگر چھوڑ کر احمد آباد میں قیام کیا، گجراتی رسم الخط میں دعاؤں، زیارتوں اور سال بھر کے اعمال کے علاوہ قرآن مجید کی اشاعت کی غرض سے عربی حروف کے لئے گجراتی رسم الخط کے حروف تیار کئے۔

آج جہاں پریس تھی وہیں پر حسینی ٹرسٹ کی جانب سے گیارہویں کلاس سے گریجویٹ تک کے بچوں کیلۓ بورڈنگ کا قیام کیا جس میں قیام و طعام کے ساتھ دیگر سہولیات کا بندو بست بھی کیا ۔

سنہ1312 ہجری میں ماہنامہ" نور ایمان" کی اشاعت کی، سنہ1326 ہجری میں مجلہ "باغ نجات" شائع کیا ، مختلف شہروں میں خوشی اور غم کے موقعوں پر پروگرام کرائےجن میں آپ کی تقریریں رہیں ایک خوجہ کی مدد سے" مہوّا "میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔

حاجی ناجی نے اپنی تمام تر مصروفیتوں کے با وجود قلم کو نہیں چھوڑا اور بہت سی کتابیں تحریر کرکے قوم و ملت کے سپرد کیں ، سنہ 1321 ہجری میں گجراتی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور اسکی تفسیر تحریر کی، خوجہ شیعہ اثنا عشری کی اکثریت عربی رسم الخط سے ناواقف تھی لہذا بہت سی دعاؤں کا عربی سے گجراتی زبان میں ترجمہ کیا اور بہت سی کتابیں تالیف کیں جس کے نتیجہ میں یورپ، امریکا اور افریقہ میں موجود خوجہ برادری کی چھوٹی بڑی تمام جماعتیں ہند و پاک سے لیکر آسٹریلیا تک صحیح قرائت کے ساتھ دعائیں اور اعمال بجا لانے لگیں۔

آپ کی تصانیف کی تعداد کاصحیح اندازہ لگانا مشکل ہے البتہ مبلغ گجرات نمبر کے مطابق حاجی ناجی کی تصانیف کی تعداد 289 ہے۔ کتاب "شیعیان خوجہ اثنا عشری در گستردۀ جہان "کے مؤلف "عرب احمدی" کے مطابق ان کی تالیفات مذکورہ تعداد سے کہیں زیادہ تھی، ان کی تحریروں سے آج بھی مومنین ہدایت حاصل کررہے ہیں بعض غیر مطبوعہ کتابیں سنہ 1932 عیسوی میں گھر میں آگ لگنے کی وجہ سے نابود ہو گئیں ۔

جناب غلام حسین میگھانی اور علامہ حاجی ناجی ٹرسٹ اور دوسرے اراکین کے تعاون سے ایک شاندار عمارت خریدی گئی جس میں گجرات کے مختلف شہروں اور قریوں کے بچوں کی 12 ویں کلاس تک تعلیم اور قیام و طعام کا بندو بست کیا اور اس عمارت میں ایک لائبریری کی تاسیس کی گئی جس سے اہل علم استفادہ کر رہے ہیں اور اسی عمارت میں حاجی ناجی کی کتابوں کی نشرو اشاعت کا کام انجام پاتا ہے،جہاں تمام خدمات انجام دیں وہی پر محسن قوم کے نام پر ایک ڈسپینسری کی بنیاد رکھی، جس سے ضرورت مند افراد مفت دوا حاصل کرکے صحت یاب ہو رہے ہیں۔

آخرکاریہ علم و ہدایت کا آفتاب جو 28 صفر 1279ہجری میں ممبئی کے افق سے طلوع ہوا تھا 9 ذی الحجہ 1362 ہجری بھاؤنگر گجرات کی سرزمین پر غروب ہوگیا اور چاہنے والوں کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ آرام باغ بھاؤنگر گجرات جو اس وقت حاجی ناجی قبرستان سے جانا جاتا ہے میں سپرد خاک کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص 131 دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/EP15O7xA4RU?si=SkqZ3HobN-3i-jP0

تبصرہ ارسال

You are replying to: .