حوزہ نیوز ایجنسی । آیۃ اللہ العظمیٰ سید امجد حسین رضوی، ہندوستان کے ایک شیعہ عالم دین، مجتہد مرجع اورصاحب رسالہ تھے۔ آپ سنہ 1280 ہجری میں سرزمین رسول پورسونی ضلع الہ آباد صوبہ یوپی ہندوستان پر پیدا ہوئے ۔ آپکے والد انتہائی متورع، پرہیز گار، متقی، جلیل القدر عالم، حافظ نہج البلاغہ سرکار " تاج العلماء سید منور علی رضوی "مجتہد تھے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اس کے بعد تحصیل علوم آل محمد کے لئے عازم لکھنؤ ہوئے اور وہاں رہ کر جید اور بزرگ اساتذہ کرام کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کئے ۔ جن میں سےمفتی سید محمد عباس شوشتری، آیۃ اللہ سید احمد علی محمد آبادی، تاج العلماء علی محمد لکھنوی وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
موصوف لکھنؤمیں دس سال جید اساتذہ سے کسب فیض کرنے کے بعد اپنے وطن واپس آگئے اور تدریس ، تصنیف، تالیف، اورامام جمعہ و جماعت کی سرگرمی میں مشغول ہوگئے۔
ایک عرصہ خدمات انجام دینے کے بعد آپ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر نجف اشرف عراق کا رخ کیا اور وہاں رہکر تقریباً دس سال جید اساتذہ کرام سے فقہ ، اصول، تفسیر اور حدیث کے دروس کی تکمیل کرکے اجتہاد کا ملکہ پیدا کرلیا ، نجف اشرف کے معروف اساتذہ میں سے: آیۃ اللہ سید محمد کاظم طباطبائی، آیۃ اللہ محمد طہ ٰنجفی اور آیۃ اللہ محمد علی رشتی کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔
آیۃ اللہ العظمیٰ سید امجد حسین رضوی کو نجف اشرف کے مجتہدین نے اجتہاد اور نقل روایت کے اجازےعطا فرمائےجن میں سےآیۃ اللہ شیخ محمدنجفی، آیۃ اللہ مرزا محمد نجفی، آیۃ اللہ سید محمد کاظم یزدی وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ ان اجازات کی اہم عبارتوں میں یہ فقرہ "– یہ مطلقاً مجتہد ہیں اور ان پر کسی کی تقلید کرنا حرام ہے" بھی شامل ہے۔
علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی نے آپ کو عالم جلیل کہہ کر یاد کیا ہے۔ علامہ کی تحریر کچھ اس طرح ہے:
الہ آباد میں موجود عالم جلیل، مبلغ شریعت، الہ آباد کے باشندوں کے مرجع، عربی اور ادب میں مفتی محمدعباس شوشتری کے شاگردوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ فقہ و اصول عراق میں پڑھا، تقویٰ ،ورع اور احتیاط میں معروف ہیں، ہم نے ان کا نام سنا ہے لیکن ان کی زیارت سے فیضیاب نہ ہوسکے۔
امجدحسین رضوی صاحب سنہ 1319 ہجری میں نجف اشرف سے اپنے وطن واپس آکر شہرالہ آباد میں اپنے دینی فرائض کی انجام دہی میں مشغول ہوگئے۔
موصوف نے علمی ذخیرہ کافی مقدار میں چھوڑا ہے جس میں سے: زبدۃ المعارف در اصول دین، وسیلۃ النجاۃ فی احکام الصلوٰۃ، شرح ذخیرہ علامہ بہائی علیہ الرحمۃ اور خلاصۃ الطاعات فی احکام جمعہ و جماعت کے اسماء سرفہرست ہیں۔
مولانا مجسمہ تقدس و تقویٰ، خوش اخلاقی و سادگی کے دلدادہ، مہمان نواز اور اپنی سخاوت کے سبب خواص و عوام کے دلوں میں گھر کئے ہوئے تھے۔ پاک نفسی کا یہ عالم تھاکہ بد عمل شخص کے یہاں کھانا کھانے سے پرہیز کرتے اور اس کے یہاں جانے سے منع فرماتے تھے۔ مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ بغیر مہمان کے کھانا نہیں کھاتے تھے۔
آپ نے سنہ 1327ہجری میں الہ آباد کے محلہ چک میں ایک دینی مدرسہ بنام" مدرسہ جعفریہ" قائم فرمایا جس میں تشنہ گان علوم آل محمد کو سیراب کیا جاتا رہا ۔
جس سال آیۃ اللہ العظمیٰ سید امجد حسین رضوی کی رحلت ہوئی اسی سال آپ نے اپنے مقبرہ کی تعمیر کرائی تھی جس میں ہر شب تلاوت قرآن مجید کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں اسی سال دارفانی سے دار بقا کی جانب کوچ کرنا ہے ۔ آخر کار یہ مجسمہ علم و عمل اور مرجع وقت ۲۳ /ربیع الاول سنہ 1350 ہجری مطابق 8/ اگست سنہ 1931 عیسوی میں داعی اجل کو لبیک کہہ گیا اور مجمع کی ہزار آہ وبکا کے ہمراہ اپنے تعمیر کردہ مقبرہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1 ص 100 دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء۔