۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
آیت اللہ سید ابوالحسن میرن حیدرآبادی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکرو فلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | آیت اللہ ابو الحسن میرن حیدرآبادی سنہ 1280ھ بمطابق 1863 ء میں سرزمین حیدرآباد پر پیدا ہوۓ- آپ کے والد کا نام مولانا سید نیاز حسن تھا-آپ بہت ذہین اور حاضر جواب تھے اور اشاعت مذہب کا حوصلہ میراث میں ملا تھا،ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی ،صرف و نحو اور منطق مولانا اکابر حسین زید پوری سے پڑھی،1882 ء میں حصول علم کیلۓ لکھنؤ تشریف لے گۓ اور وہاں رہ کر اپنے ماموں" مولانا سید محمد عباس "کی خدمت میں زانوۓ ادب طے کۓ لیکن آپ کے والد ماجد نے جلد ہی بلا لیا،حیدرآباد آکر اپنے والد اور مولانا سید نثار حسین (حسام الاسلام) کی خدمت میں رہ کر علم معقولات و منقولات کو مکمل کیا ۔

تعلیم سے فراغت کے بعد آپ حکومت کے "محکمہ رجسٹریشن " میں سب رجسٹرار مقرر ہوۓ ،1309ھ میں اپنے والد ماجد کے انتقال کے بعد ملازمت ترک کر کے اعلیٰ تعلیم کی غرض سے نجف تشریف لے گۓ اوروہاں چودہ سال مقیم رہے ،آیت اللہ سید کاظم طباطبائی یزدی (صاحب عروۃ الوثقیٰ) آیت اللہ شیخ محمد حسن مامقانی اور آیت اللہ شہرستانی کے درس خارج میں شرکت کرکے اجازات حاصل کۓ ، چنانچہ آیت اللہ شیخ محمد حسن مامقانی نے آپ کے علم و فضل کا اعتراف کرتے ہوۓ اس طرح تحریر فرمایا کہ آپ صاحب علم و فضل ہیں اور حاکم شرع کی اجازت کے تحت امور شرعیہ حسبیہ یعنی سہم امام ، زکات ، یتیموں کا مال اور وہ ترکہ جسکا کوئی وارث نہ ہو ان سب میں حق تصرف رکھتے ہیں اور خرچ کرنے میں صاحب اجازہ ہیں، اور اہل علم پر لازم ہے کہ ان سے علمی استفادہ کریں عوام پر لازم ہے کہ انکی اقتداء کریں اور انکی حفاظت میں احتیاطی تدابیر انجام دیں -

اسی طرح آیت اللہ فاضل شہرستانی اپنے اجازے میں تحریر فرماتے ہیں: آپ ایک مدت تک نجف اشرف میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اس مقام پر پہنچے کہ آپ کا شمارجہان تشیع کے بزرگ علماء میں ہوتا ہے ،چونکہ اب یہ اپنے وطن واپس پلٹ رہے ہیں میں لہذا انکو اپنا نائب خاص بنا رہا ہوں اور یہ میری طرف سے مامور ہیں ان امور میں جن امور میں مجتہد جامع الشرائظ کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً یتیموں پر ولایت ، وہ ترکہ جسکا کوئی وارث نہ ہو اور اوقاف عامہ جسکا کوئی خاص متولی نہ ہو اس میں ان کو حق تصرف حاصل ہے اورسہم امام حاصل کرنے اور اسکو مستحقین پر خرچ کرنے میں صاحب اجازہ ہیں، ان تمام ذمہ داریوں کو نبھانے کے عوض آپ خدا اور رسول کی جانب سے اجرو ثواب کے مستحق ہیں پس تمام لوگوں پر لازم ہے کہ انکا احترام کریں ۔

علامہ میرن آیت اللہ سید ابو الحسن اصفہانی کے قریبی دوست،ہمدرس اور ہم شکل بھی تھے ۔چنانچہ ایک مرتبہ کچھ بدّو عربوں نے آپ کو سرکار اصفہانی سمجھ کر دست بوسی شروع کر دی ۔بڑی مشکل سے ان لوگوں کو یقین دلایا کہ آپ اصفہانی نہیں بلکہ دیار ہند کے مجتہد ہیں۔

عراق سے واپس آکر اپنے والد ماجد کے جا نشین بر حق قرار پاۓ اور دکن کے تمام مؤمنین کے مرجع بنے اور آپ کی ذات سے مومنین مستفیض ہوتے رہے ،سلسلہ تدریس شروع کیا ،جو مسجد آپ کے والد نے بنوائی تھی وہ منہدم ہو گئی تھی آپ نے اس کو از سر نو تعمیر کرایا اسی مسجد میں امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے رہے ،نماز مغربین کے بعد روزانہ درس فقہ دیتے اور نماز جمعہ کے بعد وعظ فرماتے ،یہ سلسلہ تا حیات جاری رہا درس میں کسی رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا ،تقریر میں دلکشی اور تاثیر تھی ، وعظ نہایت مدلّل بیان فرماتے،حق گوئی اور بیباکی آپ کا آئین تھا ،آپ اسلامی اخلاق کا پیکر تھے ۔

ان تمام مصروفیات کے با وجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا، آپ کے آثار میں : مخزن طہارت،قواعد المواریث، ورع الصالحین،کلمہ طیبہ اور تقریب الشرع مع اجازات کے نام سر فہرست ہیں۔

آپ کے شاگردوں میں نواب سید عبد اللہ، حکیم محمد علی فاضل ،سید حسن کربلائی، آقا محسن ،سید غیاث الدین شوشتری، سعادت علی، ڈاکٹر شجاعت علی بیگ، سید تقی حسن وغیرہ کے نام لۓ جا سکتے ہیں۔

چالیس مرتبہ عراق کا سفر کیا اور زیارات سے مشرف ہوۓ،سات مرتبہ حج کیا اور چودہ مرتبہ مشہد مقدس کی زیارت کی۔

اللہ نے آ پ کو 5 نعمتوں سے نوازا جن کے اسماء کچھ اس طرح ہیں:سید سراج الحسن مجتہد، سید یوسف حسین عرف علی آقا، آقا سید جعفر حسین عرف جعفر آقا، سید ضیاء الحسن عرف ضیا آقا (مجتہد)، سید اصغر حسین۔

آخر کار یہ علم وعمل کا ماہتاب 13 جمادی الثانی 1340ھ بمطابق 1922 ءشب سہ شنبہ مرض یرقان میں مبتلا ہو کرغروب ہو گیا انتقال کے وقت آپ کے لبوں پر یا علی ادرکنی تھا ،نمازہ جنازہ کے بعد قبرستان دائرہ میر مومن حید رآباد میں سپرد خاک کر دیا گیا ٍ۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج4، ص11 دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2019ء

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .